کتابچہ
صبغۃ اللہ
از
ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
Read Online
Sabghatallah
خلاصہ
عنوان نمبر :1 زمین میں مختلف رنگ
اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق ہے۔ اللہ نے اپنی تخلیقات کی ایک اہم صفت رنگ کو قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ اشیاء کے رنگوں اور رنگوں کے اختلاف میں سبق حاصل کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں موجود ہیں۔ یہ امر انسان کے اپنے لیے بہت بڑے فائدے کا سبب ہے کہ ‘‘اللہ کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرکے رنگوں اور رنگوں کی اصل کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور حقیقت کو سمجھنے کے لیے وحی سے رہنمائی لی جائے۔’’
انسانی عقل عرصہ دراز سے روشنی اور رنگوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مشہور سائنس دان ابن الہیشم نے تقریباً ایک ہزار سال قبل روشنی اور بصارت کے عمل پر اپنی کتاب ‘‘کتاب البصر’’ میں سائنسی انداز میں تبصرہ کیا۔ بعد ازاں چھ سو سال بعد آئزک نیوٹن نے یہ دریافت کیا کہ جس روشنی میں ہم اشیاء کو دیکھتے ہیں وہ خود سات رنگوں کا مجموعہ ہے اور ہر رنگ الگ الگ طول موج رکھتا ہے۔ روشنی اشیاء سے ٹکراتی ہے اور جس طول موج کی روشنی پلٹ کر انسانی آنکھ کے ذریعے دماغ تک پہنچتی ہے، انسان وہی رنگ دیکھتا ہے۔ دوسرے رنگ اشیاء میں جذب ہوجاتے ہیں یا گزر جاتے ہیں۔ سائنس دانوں نے یہ معلوم کیا ہے کہ رنگ اور روشنی تونائی کی ایک شکل ہے۔
توانائی کی ہر شکل الگ الگ طول موج رکھتی ہے۔ انسانی آنکھ کو نظر آنے والی روشنی برقی مقناطیسی شعاعیں ہیں جن کا ایک مخصوص طول موج ہوتا ہے۔ باالفاظ دیگر ہماری آنکھ مخصوص طول موج (380-750 nanometers) کی لہروں کو رنگوں کی شکل میں دیکھتی ہے.... اشیاء اور فضا یا میڈیم کی مختلف صفات اور حالات کے تحت روشنی کا انجذاب اور انعکاس روشنی کی لہروں کے طول موج کو تبدیل کردیتے ہیں اس لیے ہم مختلف حالات میں مختلف رنگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
رنگ انسانی ذہن اور احساسات پر اثر انداز ہو کر مختلف احساسات اور کیفیات پیدا کرتے ہیں۔ انسانی نفسیات میں بھی اطباء اور نفسیات دانوں نے رنگوں کے کردار کو تسلیم کیا ہے۔ مختلف تجربات نے یہ بات ثابت کی ہے کہ روشنی کی کمی بیشی یعنی رنگوں کے کم زیادہ ہونے سے انسانی صحت، خیالات اور احساسات متاثر ہوجاتے ہیں۔ سورج کی روشنی کی کمی سے صحت متاثر ہوتی ہے اور مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ روشنی کی کمی سے افسردگی اور ڈپریشن ہوجاتاہے۔
رنگوں سے امراض کے علاج پر تحقیق و تجربات کا سہرا پاکستان میں معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے سر ہے۔ آپ نے رنگ و روشنی سے علاج پر کتابیں تحریر کیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے اس طریقۂ علاج سے استفادہ کیا۔ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی تحریروں کا ماخذ ان کے پیر و مرشد امام سلسلہ عظیمیہ حضرت محمد عظیم برخیاؒ . کی تعلیمات ہیں۔
زمین پر زندگی کا اہم عنصر سورج کی روشنی ہے۔ اس روشنی سے نہ صرف انسانی بصارت کام کرتی ہےبلکہ پودوں اور جان داروں کو بھی توانائی حاصل ہوتی ہے۔ سورج کی روشنی زمین تک پہنچنے سے پہلے مختلف غلافوں سے گزرتی ہے۔ غلافوں سے گزر کر سورج کی روشنی سے مضر و مہلک اثرات ختم ہوجاتے ہیں اور یہ انسان، پودوں اور دیگر تخلیقات کے لیے حیات بخش بن جاتی ہے۔
عنوان نمبر :2 رنگ اور تصوف
علم ِروحانیت اور تصوف میں بھی رنگوں کا اہم مقام ہے۔ قلندر بابا اولیاءؒ کے ارشاد کے مطابق تجلی تنزل کرکے نور بنتی ہے اور نور تنزل کرکے روشنی یا مظہر بن جاتا ہے۔ مادی وجود کو مظہر کہا جاتا ہے جو رنگوں کا مظاہرہ ہے۔ گویا انسانی آنکھ سے نظر آنے والی شے وجود کا آخری درجہ ہے جس میں رنگ نمودار ہوتے ہیں۔ اگر رنگ موجود نہ ہوں تو انسانی بصارت کسی شے کو دیکھنے سے قاصر رہتی ہے۔ اہل تصوف کے مطابق ظاہری نگاہوں کے پس پشت ایک نظر نہ آنے والی روشنی موجود ہے۔ نظر نہ آنے والی یہ روشنی روح کہلاتی ہے۔ یہی مادی جسم کو زندگی فراہم کرتی ہے۔
اہل تصوف کے مطابق مادی جسم کے اوپر غلاف کی صورت میں ایک لطیف جسم موجود رہتا ہے جسے جسم مثالی کہا جاتا ہے۔ سائنسی تحقیقات نے بھی اس جسم کی موجودگی کا ادراک کیا ہے۔ اوورا Aura یا ایسٹرل باڈی کا نام دیا ہے۔ صوفیاء کے مشاہدات اور تجربات کے مطابق جسم مثالی میں بھی مختلف مقامات پر بعض مراکز ہوتے ہیں جنہیں لطائف کہا جاتا ہے۔ ہر لطیفے کے ساتھ ایک مخصوص رنگ وابستہ ہے۔ ان لطائف کی تعداد چھ ہے۔
اشیاء کا الگ الگ ہونا رنگوں کا مرہون منت ہے۔ جب اشیاء میں تبدیلی واقع ہوتی ہے یا ان میں تغیر واقع ہوتا ہے تو رنگ وجود میں آتے ہیں۔ جو شے تبدیل ہوتی رہے وہ اصل نہیں ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ رنگ فریب نظر (Illusion) ہے۔ اسے اصل کا عکس کہا جاسکتا ہے لیکن اصل نہیں۔ مثلاً سفید رنگ پر سرخ رنگ کر دیا جائے تو انسانی نگاہ کو سرخ رنگ دکھائی دے گا۔ اگر سرخ پر کوئی دوسرا رنگ کردیا جائے تو ایک اور رنگ ظاہر ہوجائے گا لیکن سرخ رنگ غائب ہوجائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل ہمیشہ انسانی نگاہوں سے مخفی رہتی ہے لیکن اس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اصل میں تغیر و تبدیلی نہیں ہوتی لیکن اس کے عکس میں تغیر و تبدیلی ہوتی ہے ۔ یہ عمل Illusion یا فریب نظر ہے۔ اس تغیر و تبدیلی کو ہم رنگوں کی صورت میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ Illusion اصل سے دوری کا نام ہے۔
حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نےاپنی تصنیف توجیہات میں فرمایا ہے کہ جو حواس تغیر و تبدیلی کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ ماددی و شعوری حواس ہیں لیکن جو حواس اصل کو دیکھتے ہیں جہاں تغیر و تبدیلی نہیں ہے، لاشعوری یا روحانی حواس کہلاتے ہیں۔ مادی و شعوری نگاہ مفروضہ و فکشن کو دیکھتی ہے جہاں ہر لمحہ تغیر و تبدیلی واقع ہو رہی ہے۔ اصل میں کوئی تغیر و تبدیلی نہیں ہوتی۔ روح کی نگاہ اصل کو دیکھتی ہے۔ یہ نگاہ اپنی نفی کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔ مفروضہ و فکشن حواس کی نفی کرنا حقیقت کا مشاہدہ عطا کرتا ہے۔ انسانی زندگی کا ہر لمحہ غیب سے آتا ہے اور غیب میں واپس چلا جاتا ہے۔ اسے ہم تغیر و تبدیل کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ اس کی مثال بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کے سارے لمحات ہیں۔ ہم تبدیلی کو مشاہدہ کرتے ہیں لیکن اس اصل کو نہیں دیکھ پاتے جو اس تبدیلی کے پس پردہ ہمیشہ موجود رہتی ہے اور اس اصل میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے ‘‘اللہ کے رنگ میں رنگے گئے اور کس کا رنگ اللہ کے رنگ سے بہتر ہے۔ اور ہم اللہ ہی کے عبادت گزار ہیں۔’’ [سورہ بقرہ۔ 138]
جب انسان اپنی نفی کرتا ہے تو وہ حواس مغلوب ہوجاتے ہیں جو فکشن مفروضہ اور Illusion کو دکھاتے ہیں۔ دراصل اللہ تعالیٰ کی ہر صفت تغیر و تبدیل اور فنا سے آزاد ہے۔ وہی اصل ہے اس لیے وہ رنگوں کی تبدیلی سے بھی آزاد ہے۔ اسی کو قرآن پاک اللہ کا رنگ قرار دیتا ہے۔ جب کوئی بنددہ اللہ کی عبادت اور بندگی میں یکسو ہوجاتا ہے تو اس کے اندر تغیر و تبدیلی کے پس پردہ اصل کا مشاہدہ حاصل ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کی زندگی کو کھیل، دھوکہ، فریب، آپس میں فخر کرنا اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو انسان کو Illusion میں گرفتار رکھتی ہیں۔ یہ تمام باتیں تغیر و تبدیلی پر مشتمل چیزوں کا نام ہے۔ ان کو سمجھنا اور ان سے فکری و عملی تعلق ختم کرنا اپنی نفی کرنا ہے۔ اپنی نفی کرنے سے انسان کے اندر وہ حواس غالب آجاتے ہیں جو Illusion کا پردہ چاک کرکے اصل کا مشاہدہ کراتے ہیں۔
حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے وارث اولیاء اللہ اپنے شاگردوں کو حقوق اللہ اور حقوق العبادد پورا کرتے ہوئے اپنی نفی کا درس دیتے ہیں تاکہ انسان Illusion سے آزاد ہوجائے۔ دنیا کی رغبت، مال کی محبت، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی عدم ادائی، آخرت سے لاپرواہی اور مفروضہ حواس کی گرفت اللہ سے دوری کا سبب بن جاتے ہیں۔ مفروضہ حواس کی نفی کرکے انسان اللہ کے رنگ کو حاصل کرلیتا ہے۔
یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ اس امتحان کا ایک نصاب ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء خصوصاً ابوالانبیاء حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ، حضرت اسحاقؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت عیسیٰؑ اور آخری رسول معلم اعظم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ذریعے عطا فرمایا ہے۔
سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات اللہ کی مشیت سے واقف ہونے، حقیقت کو سمجھنے اور اللہ کے رنگ میں رنگ جانے کی ترغیب دیتی ہیں۔
سلسلہ عظیمیہ نے اس مقصد کے لیے جو طریقۂ کار مرتب کیا ہے اسے مختصراً الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کی قربت یعنی اللہ کا رنگ اختیار کرنے کے لیے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نسبت اور علوم نبوت کا طالب علم بننا ضروری ہے۔ ان علوم کی تعلیم و تفہیم کا ایک ذریعہ رسول اللہ ﷺ کے علوم کے وارث اولیاء اللہ ہیں۔ یہ تعلیم حاصل کرتے ہوئے راہ سلوک کے طالب علم کو مخلوق خدا کے لیے خیر کے جذبات رکھتے ہوئے انسانوں اور دیگر مخلوقات کی خدمت کے لیے بھی خودکو مصروف رکھنا ہوگا۔
اپنے تاثرات سے آگاہ کریں