لوح و قلم
حضور قلندر بابا اولیاءؒ
انتساب
میں یہ کتاب پیغمبرِ اسلام حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ مجھے یہ حکم حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی ذات سے بطریقِ اُویسیہ ملا ہے۔عرضِ احوال
’’گُفتۂ او گُفتۂ اللہ بُود… گرچہ اَز حلقُومِ عبداللہ بُود‘‘ کے مِصداق حاملِ علمِ لدُنّی، واقفِ اِسرارِ کُن فیَکون، مرشدِ کریم، ابدال حق، حسن اُخریٰ محمّد عظیم برخیاءؒ حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی زبانِ فیض ترجمان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ خود حضور بابا صاحبؒ کے روحانی تصرف سے میرے ذہن کی اسکرین پر نقش ہوتا رہا اور پھر یہ الہامی تحریر حضرت قلندر بابا اولیاءؒ کی مبارک زبان اور اس عاجز کے قلم سے کاغذ پر منتقل ہو کر کتاب ’’لوح و قلم‘‘ بن گئی۔ میرے پاس یہ روحانی علوم نوعِ انسان اور نوعِ جنّات کے لئے ایک ورثہ ہیں۔ میں یہ امانت بڑے بوڑھوں، انسان اور جنّات کی موجودہ اور آنے والی نسل کے سپرد کرتا ہوں۔ خواجہ شمس الدین عظیمیبسمِ اللہِ الرّحمٰن الرّحیم
نوع انسانی میں زندگی کی سرگرمیوں کے پیش نظر طبائع کی مختلف ساخت ہوتی ہیں مثلاً ساخت الف، بے، پے، چے وغیرہ وغیرہ۔ یہاں زیر بحث وہ ساخت ہے جو قدم قدم چلا کر عرفان کی منزل تک پہنچاتی ہے۔
پہلے ہم ایک مادّی مثال دیتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مصوّر ہونا چاہے تو وہ تصویر کے خدوخال کو اپنی طبیعت میں رفتہ رفتہ جذب کرتا جاتا ہے۔ اس کے حافظے میں یہ بات محفوظ ہے کہ کانوں کی ساخت کے لئے پنسل کے ایک خاص وضع کے نشانات استعمال ہوں گے، آنکھوں کی ساخت کے لئے دوسری وضع کے، بالوں کی ساخت کے لئے تیسری وضع کے۔ مشق کرتے کرتے وہ انسانی جسم کے ہر عضو کی ساخت کو پنسل کے نقش کی صورت میں پوری طرح ظاہر کرنے پر قابو پا جاتا ہے۔ اب ہم اس کو مصوّر کہہ سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ کس طرح ہوا؟
اس کے ذہن میں انسانی خدوخال کا عکس موجود تھا۔ جب اس عکس کو نقل کرنے کے لئے اس نے پنسل استعمال کرنا چاہی تو وہ عکس جو اس کے ذہن میں موجود تھا بار بار اس کی راہ نمائی کرتا رہا۔ ساتھ ساتھ جس استاد نے اس کو مصوّری کا فن سکھایا وہ یہ بتلاتا گیا کہ پنسل اس طرح استعمال کی جاتی ہے اور کسی عضو کے نقش کو ترتیب دینا اس طرح عمل میں آتا ہے۔ استاد کا کام صرف اس ہی قدر تھا لیکن تصویر کا عکس استاد نے اس کے ذہن میں منتقل نہیں کیا۔ وہ اس کے باطن میں پہلے سے موجود تھا۔ دوسرے الفاظ میں ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس کی روح کے اندر نوع انسانی کے ہزار در ہزار خدوخال محفوظ تھے۔ جب اس نے ایک استاد کی رہنمائی میں ان خدوخال کو کاغذ پر نقش کرنا چاہا تو وہ تمام نُقوش جو ذہن میں موجود تھے کاغذ پر منتقل ہو گئے۔
علیٰ ہذالقیاس مادّی فنون کی اس قسم کی ہزار ہا مثالیں ہو سکتی ہیں جن سے ہم ایک ہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ انسان بالطّبع مصوّر، کاتب، درزی، لوہار، بڑھئی، فلسفی، طبیب وغیرہ وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے مگر اسے کسی خاص فن میں ایک خاص قسم کی مشق کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد اس کے مختلف نام رکھ لئے جاتے ہیں اور ہم اس طرح کہتے ہیں کہ فلاں شخص مصوّر ہو گیا، فلاں شخص فلسفی ہو گیا۔ فی الواقع وہ تمام صلاحیّتیں اور نُقوش اس کے ذہن میں موجود تھے۔ اس نے صرف ان کو بیدار کیا۔ استاد نے جتنا کام کیا وہ صرف صلاحیّت کے بیدار کرنے میں ایک امداد ہے۔
اب ہم اصل مقصد کی طرف آتے ہیں۔ جس طرح کوئی شخص مصوّر، کاتب یا فلسفی ہوتا ہے اس ہی طرح بالطّبع اپنی روح کے اندر ایک عارف، ایک روحانی انسان، ایک ولی، ایک خداشناس، ایک پیغمبر خاص قسم کے روحانی نُقوش اور خاص قسم کی روحانی صلاحیّتیں لئے ہوتا ہے (یہاں کوئی پیغمبر زیر بحث اس لئے نہیں کہ پیمبری ختم ہو چکی ہے۔ صرف روحانی انسان، اس کا نام کچھ بھی ہو، ہمارا مطمعِ نظر ہے)۔ اب ہم صلاحیّتوں کا ذکر الف سے شروع کرتے ہیں۔
الف: ایک انسان کیا ہے؟ ہم اس کو کس طرح پہچانتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں؟
ہمارے سامنے ایک مُجسّمہ ہے جو گوشت پوست سے مرتب ہے۔ طبی نقطۂِ نظر سے ہڈیوں کے ڈھانچے پر رگ پٹھوں کی بناوٹ کو ایک جسم کی شکل و صورت دی گئی ہے۔ ہم اس کا نام جسم رکھتے ہیں۔ اور اس کو اصل سمجھتے ہیں۔ اس کی حفاظت کے لئے ایک چیز اِختراع کی گئی ہے جس کا نام لباس ہے۔ یہ لباس سُوتی کپڑے کا، اُونی کپڑے کا یا کسی کھال وغیرہ کا ہوا کرتا ہے۔ اس لباس کا محلِ استعمال صرف گوشت پوست کے جسم کی حفاظت ہے۔ فی الحقیقت اس لباس میں اپنی کوئی زندگی یا اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ جب یہ لباس جسم پر ہوتا ہے تو جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے۔ یعنی اس کی حرکت جسم سے منتقل ہو کر اس کو ملی۔ لیکن درحقیقت وہ جسم کے اعضاء کی حرکت ہے۔ جب ہم ہاتھ اٹھاتے ہیں تو آستین بھی گوشت پوست کے ہاتھ کے ساتھ حرکت کرتی ہے۔ یہ آستین اس لباس کا ہاتھ ہے جو لباس جسم کی حفاظت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس لباس کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جب یہ لباس جسم پر ہے تو جسم کی حرکت اس کے اندر منتقل ہو جاتی ہے اور اگر اس لباس کو اتار کر چارپائی پر ڈال دیا جائے یا کھونٹی پر لٹکا دیا جائے تو اس کی تمام حرکتیں ساقِط ہو جاتی ہیں۔ اب ہم اس لباس کا جسم کے ساتھ مَوازانہ کرتے ہیں۔ اس کی کتنی ہی مثالیں ہو سکتی ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال دے کر صحیح مفہوم ذہن نشیں ہو سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مر گیا۔ مرنے کے بعد اس کے جسم کو کاٹ ڈالئے، ٹکڑے کر دیجئے، گھسیٹئے، کچھ کیجئے۔ جسم کی اپنی طرف سے کوئی مدافعت، کوئی حرکت عمل میں نہیں آئے گی۔ اس مُردہ جسم کو ایک طرف ڈال دیجئے تو اس میں زندگی کا کوئی شائبہ کسی لمحہ بھی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کو جس طرح ڈال دیا جائے گا، پڑا رہے گا۔ اس کے معانی یہ ہوئے کہ مرنے کے بعد جسم کی حیثیت صرف لباس کی رہ جاتی ہے۔ اصل انسان اس میں موجود نہیں رہتا۔ وہ اس لباس کو چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے۔ جب مشاہدات اور تجربات نے یہ فیصلہ کر دیا کہ گوشت پوست کا جسم لباس ہے، اصل انسان نہیں تو یہ تلاش کرنا ضروری ہو گیا کہ اصل انسان کیا ہے اور کہاں چلا گیا؟
اگر یہ جسم اصل انسان ہوتا تو کسی نہ کسی نوعیت سے اس کے اندر زندگی کا کوئی شائبہ ضرور پایا جاتا لیکن نوعِ انسانی کی مکمل تاریخ ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتی کہ کسی مُردہ جسم نے کبھی کوئی حرکت کی ہو۔
اس صورت میں ہم اس انسان کا تجسّس کرنے پر مجبور ہیں جو جسم کے اس لباس کو چھوڑ کر کہیں رخصت ہو جاتا ہے۔ اس ہی انسان کا نام انبیاءِ کرامؑ کی زبان میں روح ہے اور وہی انسان کا اصلی جسم ہے۔ نیز یہی جسم ان تمام صلاحیّتوں کا مالک ہے جن کے مجموعے کو ہم زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
ذرا زندگی کے مختلف شعبوں اور زاویوں میں یہ تلاش کیجئے کہ وہ حالت جس کا نام موت یا مُردہ ہو جانا ہے ہمیں کہیں ملتی ہے یا نہیں۔ اگر یہ حالت قطعی طور پر زندگی کے کسی مرحلے میں انسان پر طاری نہیں ہوتی تو پھر یہ تلاش کرنا چاہئے کہ اس سے ملتی جلتی حالت کسی وقفہ میں طاری ہوتی ہے یا نہیں۔
اس کا جواب بہت آسان ہے۔ انسان روز سوتا ہے اور سونے کی حالت میں اس کا جسم ایک خاص وقفہ کے اندر بالکل لباس کی نوعیت اِختیار کر لیتا ہے۔ اس بات کی تشریح ہم اس طرح کر سکتے ہیں کہ ایک انسان جب گہری نیند میں ہوتا ہے، ایسی گہری نیند میں کہ وہ صرف سانس لے رہا ہے۔ سانس لینے کے علاوہ زندگی کا کوئی اثر اس میں نہیں پایا جاتا۔ نہ اس کے کسی عضو میں حرکت ہے، نہ اس کا دماغ کسی طرح کا ہوش رکھتا ہے۔ یہ حال چاہے دو منٹ کے لئے طاری ہو، دس منٹ کے لئے ہو یا ایک گھنٹہ کے لئے۔ کسی نہ کسی وقت ہوتا ضرور ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ انسان کا جسم سانس لے رہا ہے یعنی اس کے اندر زندگی کا ایک اثر باقی ہے مگر اور آثار زائل ہو چکے ہیں۔ اس حالت کو ہم کسی حد تک موت سے ملتی جلتی حالت کہہ سکتے ہیں۔
جس کو ہم خواب دیکھنا کہتے ہیں ہمیں روح اور روح کی صلاحیّتوں کا سُراغ دیتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہم سوئے ہوئے ہیں۔ تمام اعضا بالکل معطّل ہیں۔ صرف سانس کی آمد و شد جاری ہے لیکن خواب دیکھنے کی حالت میں ہم چل پھر رہے ہیں، باتیں کر رہے ہیں، سوچ رہے ہیں، غم زدہ اور خوش ہو رہے ہیں۔ کوئی کام ایسا نہیں ہے کہ جو ہم بیداری کی حالت میں کرتے ہیں اور خواب کی حالت میں نہیں کرتے۔
کوئی شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ خواب دیکھنا صرف ایک خیالی چیز ہے اور خیالی حرکات ہیں، کیونکہ جب ہم جاگ اٹھتے ہیں تو کئے ہوئے اعمال کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ یہ بات بالکل لایعنی ہے۔ ہر شخص کو زندگی میں ایک ،دو،چار،دس،بیس ایسے خواب ضرور نظر آتے ہیں کہ جاگ اٹھنے کے بعد یا تو اسے نہانے اور غُسل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے یا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھنے کے بعد اس کا پورا خوف اور دہشت دل و دماغ پر مسلط ہو جاتا ہے یا جو کچھ خواب میں دیکھا ہے وہی چند گھنٹے، چند دن یا چند مہینے یا چند سال بعد مِن و عَن بیداری کی حالت میں پیش آتا ہے۔ ایک فردِ واحد بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنی زندگی میں اس طرح کا ایک خواب یا ایک سے زائد خواب نہ دیکھے ہوں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس بات کی تردید ہو جاتی ہے کہ خواب محض خیالی حیثیت رکھتا ہے۔ جب یہ مان لیا گیا کہ خواب محض خیال نہیں ہے تو خواب کی اہمیّت واضح ہو جاتی ہے۔
اب ہم بیداری کے اعمال اور واقعات نیز خواب کے اعمال اور واقعات کو سامنے رکھ کر دونوں کا موازنہ کرتے ہیں۔
یہ روزمرہ ہوتا ہے کہ ہم گھر سے چل کر بازار پہنچ گئے۔ کسی ایک خاص دکان پر کھڑے ہیں اور ایک سودا خرید رہے ہیں۔ اگر اس وقت کوئی شخص ہم سے یہ سوال کرے کہ دکان پر پہنچنے تک راستے میں آپ نے کیا کیا دیکھا تو ہم مجبوراً یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے کچھ خیال نہیں کیا۔ بات یہ معلوم ہوئی کہ بیداری کی حالت میں ہمارے ارد گرد جو کچھ ہوتا ہے اگر ہم پوری طرح متوجّہ نہ ہوں تو کچھ نہیں معلوم ہوتا کہ کیا ہوا، کس طرح ہوا اور کب ہوا؟
اس مثال سے یہ تحقیق ہو جاتا ہے کہ بیداری ہو یا خواب، جب ہمارا ذہن کسی چیز کی طرف یا کسی کام کی طرف متوجّہ ہے تو اس کی اہمیّت ہے ورنہ بیداری اور خواب دونوں کی کوئی اہمیّت نہیں ہے۔ بیداری کا بڑے سے بڑا وقفہ بے خیالی میں گزرتا ہے۔ اور خواب کا بھی بہت سا حصّہ بے خبری میں گزر جاتا ہے۔ کتنی ہی مرتبہ خواب کی بڑی اہمیّت ہوتی ہے اور کتنی ہی مرتبہ بیداری کی بھی کوئی اہمیّت نہیں ہوتی۔ پھر کیونکر مناسب ہے کہ ہم خواب کی حالت اور خواب کے اَجزاء کو جو زندگی کا نصف حصّہ ہے نظر انداز کردیں۔
آیئے! خواب کے اَجزاء، خواب کی اہمیّت اور خواب کی حقیقت تلاش کریں۔
فرض کیجئے کہ ایک مضمون نگار مضمون لکھنے بیٹھتا ہے۔ اس کے ذہن میں صرف عنوان ہے۔ نہ مضمون کے اَجزاء ترتیبی ہیں، نہ تفصیل ہے مگر جس وقت قلم ہاتھ میں اٹھا کر وہ لکھنا شروع کرتا ہے تو مضمون کے اَجزاء بالتّرتیب اور بالتّفصیل ذہن میں آنے لگتے ہیں۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ عبارت کا مفہوم لکھنے والے کے تحتِ لاشعور میں پہلے سے موجود تھا۔ وہاں سے یہ مفہوم لاشعور یعنی ذہن میں منتقل ہوا اور الفاظ کا لباس پہن کر کاغذ پر منتقل ہو گیا۔ یہ مضمون مفہوم کی حیثیت میں جہاں موجود تھا اس کا نام ثابِتہ ہے جس کو ماہرین تحتِ لاشعور کہہ سکتے ہیں۔ پھر یہی مفہوم منتقل ہو کر اَعیان میں آیا۔ یعنی لاشعور میں داخل ہوا۔ آخر میں یہی مفہوم عبارت کی شکل و صورت اِختیار کر لیتا ہے۔ ہم اِسی حالت کو جَویَّہ میں منتقل ہونا کہتے ہیں اور عام لوگ مفہوم کی اس منتقلی کو شعور میں آنے کا نام دیتےہیں۔
اب ہم ان صلاحیّتوں کا تذکرہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں جو خواب یعنی رُؤیا کے نام سے رُوشناس ہیں۔ چنانچہ عالم خواب میں انسان کھاتا پیتا اور چلتا پھرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ روح گوشت پوست کے جسم کے بغیر بھی حرکت کرتی اور چلتی پھرتی ہے۔ روح کی یہ صلاحیّت جو صرف رُؤیا میں کام کرتی ہے، ہم کسی خاص طریقے سے اس کا سُراغ لگا سکتے ہیں اور اس صلاحیّت کو بیداری میں استعمال کر سکتے ہیں۔ انبیاء علیھمُ السّلام کا علم یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ اور یہی وہ علم ہے جس کے ذریعے انبیاءِ کرام نے اپنے شاگردوں کو یہ بتایا ہے کہ پہلے انسان کہاں تھا اور اس عالمِ ناسُوت کی زندگی پوری کرنے کے بعد وہ کہاں چلا جاتا ہے۔
عالمِ رُؤیا سے انسان کا تعلق
یہ دیکھا جاتا ہے کہ انسان اپنے ذہن میں کائنات کی ہر چیز سے رُوشناس ہے۔ ہم جس چیز کو حافظہ کہتے ہیں وہ ہر دیکھی ہوئی چیز کو اور ہر سُنی ہوئی بات کو یاد رکھتا ہے۔ جن چیزوں سے ہم واقف نہیں ہیں ہمارے ذہن میں ان چیزوں سے واقفیّت پیدا کرنے کا تجسّس موجود ہے، اگر اس تجسّس کا تجزیہ کیا جائے تو کئی روحانی صلاحیّتوں کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ یہی تجسّس وہ صلاحیّت ہے جس کے ذریعے ہم کائنات کے ہر ذرّے سے رُوشناسی حاصل کرتے ہیں۔ اس قوّت کی صلاحیّتیں اس قدر ہیں کہ جب ان سے کام لیا جائے تو وہ کائنات کی تمام ایسی مَوجودات سے جو پہلے کبھی تھیں یا اب ہیں یا آئندہ ہوں گی، واقف ہو جاتی ہیں۔ واقفیّت حاصل کرنے کے لئے ہمارا ذہن تجسّس کرتا ہے۔ تجسّس ایک ایسی حرکت کا نام ہے جو پوری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ قرآنِ پاک میں اَلَا اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْ ءٍ مُّحِیْط اللہ تعالیٰ کی ہر چیز کو احاطہ کرنے والی صفَت کا تذکرہ ہے۔ اس صفَت کا عکس انسان کی روح میں پایا جاتا ہے۔ اس ہی عکس کے ذریعے انسان کا تحتِ لاشعور عالمِ رُؤیا کائنات کی ہر چیز سے واقف ہے۔رُؤیا کی صلاحیّتوں کے مَدارِج
نمبر۱ ۔۔۔۔۔۔ کشفُ الجُو
نمبر۲ ۔۔۔۔۔۔ کشفُ الاَحقہ
نمبر۳ ۔۔۔۔۔۔ کشفُ المَنام
نمبر۴ ۔۔۔۔۔۔ کشفُ الملَکُوت
نمبر۵ ۔۔۔۔۔۔ کشفُ الکلیات
نمبر۶ ۔۔۔۔۔۔ کشفُ الوُجوب
کشفُ الجُو وہ صلاحیّت ہے جس سے ہر انسان نسبتِ وَحدت کے تحت رُوشناس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تشکیل کا نام کائنات ہے۔
اس ہی حکم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی احاطہ کرنے کی صفَت کلیات کو منتقل ہوئی ہے۔
کلیات کے تمام اَجزاء آپس میں ایک دوسرے کا شعور رکھتے ہیں۔ چاہے فرد کے علم میں یہ بات نہ ہو لیکن فرد کی حیثیت کلیات میں ایک مقام رکھتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان چاند، ستاروں اور اپنی زمین سے الگ ماحول سے رُوشناس نہ ہو سکتا۔ اس کی نگاہ تمام اجرام سماوی کو دیکھتی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر انسان کی حِس زمین سے باہر کے ماحول کو بھی پہچانتی ہے۔ یہی پہچاننا تصوّف کی زبان میں صفاتِ الٰہیہ کی معرفت کہلاتا ہے۔ اب ہم اس طرح کہیں گے کہ انسانی شعور کی نگاہ کائنات کے ظاہر کو دیکھتی ہے اور انسانی لاشعور کی نگاہ کائنات کے باطن کو دیکھتی ہے۔ بالفاظ دیگر انسان کا لاشعور اچھی طرح جانتا ہے کہ کائنات کے ہر ذرّے کی شکل وصورت، حرکات اور باطنی حسّیات کیا ہیں۔ وہ ان تمام حرکات کو صرف اس لئے نہیں سمجھ سکتا کہ اس کو اپنے لاشعور کا مطالعہ کرنا نہیں آتا۔ یہ مطالعہ رُؤیا کی صلاحیّتیں بیدار کرنے کے بعد ممکن ہے۔
پہلے ہم رُؤیا کی اُس صلاحیّت کو بیدار کرنے کا تذکرہ کرتے ہیں جس کا نام تصوّف کی زبان میں کشفُ الجُو لیا جاتا ہے۔
مضمون نگار کی مثال سے ظاہر ہے کہ مضمون کا مفہوم پہلے سے کلیات کے شعور میں یعنی مضمون نگار کے تحتِ لا شعور میں موجود تھا۔
وہیں سے منتقل ہو کر مضمون نگار کے ذہن تک پہنچا۔ اب اگر کوئی شخص اس مضمون کو تحتِ لاشعور میں مطالعہ کرنا چاہے تو رُؤیا کی اس صلاحیّت کے ذریعے جس کو کشفُ الجُو کہا گیا ہے، مطالعہ کر سکتا ہے۔ خواہ یہ مضمون دس ہزار سال بعد لکھا جانے والا ہو۔ یا دس ہزار سال پہلے لکھا جا چکا ہو۔
جس وقت اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’کُن‘‘ کہا تو ازل سے ابد تک جو کچھ جس طرح اور جس ترتیب کے ساتھ وقوع میں آنا تھا، آ گیا۔ ازل سے ابد تک ہر ذرّہ، اس کی تمام حرکات و سکنات موجود ہو گئیں۔ کسی زمانہ میں بھی انہی حرکات کا مظاہرہ ممکن ہے کیونکہ کوئی غیر موجود، موجود نہیں ہو سکتا۔ یعنی کائنات میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہو سکتی جو پہلے سے وجود نہ رکھتی ہو۔
انسان جب کسی زاویہ کو صحیح طور پر سمجھنا چاہتا ہے تو اس کی حیثیت غیر جانبدار یا عدالت کی ہوتی ہے اور وہ بحیثیتِ عدالت کبھی فریق نہیں ہوتا۔ عدالت کو مدعی اور مدعا علیہ کے معاملات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے عدالت ہی کا طرزِ ذہن استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک طرزِ ذہن فریق کا ہے اور ایک طرزِ ذہن عدالت کا ہے۔
ہر شخص کو طرز فکر کے دو زاویے حاصل ہیں۔ ایک زاویہ بحیثیت اہلِ معاملہ اور دوسرا زاویہ بحیثیت غیر جانبدار۔ جب انسان بحیثیت غیر جانبدار تجسّس کرتا ہے تو اس پر حقائق مُنکشِف ہو جاتے ہیں۔ تجسّس کی یہ صلاحیّت ہر فرد کو وُدیعت کی گئی ہے تا کہ دنیا کا کوئی طبقہ معاملات کی تفہیم اور صحیح فیصلوں سے محروم نہ رہ جائے۔
لوحِ اوّل یا لوحِ محفوظ
اب یہ مُسلّمہ مُنکشِف ہو گیا کہ انسان کسی غیر جانب دار زاویہ سے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرے تو قانونِ لوحِ محفوظ کے تحت انسانی شعور، لاشعور اور تحتِ لاشعور کا اِنطباعیہ نقش معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اِنطباع وہ نقش ہے جو بصورت حکم اور بشکل تَمثال لوحِ محفوظ (سطحِ کلیات) پرکَندہ ہے۔ اس ہی کی تعمیل مِن و عَن اپنے وقت پر ظُہور میں آتی ہے۔
شعور کا یہ قانون ہے کہ اس دنیا میں انسان جتنا ہوش سنبھالتا جاتا ہے اتنا ہی اپنے ماحول کی چیزوں میں اِنہماک پیدا کرتا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں ماحول کی تمام چیزیں اپنی اپنی تعریف اور نوعیت کے ساتھ اس طرح محفوظ رہتی ہیں کہ جب اسے ان چیزوں میں سے کسی چیز کی ضرورت پیش آتی ہے تو بہت آسانی سے اپنی مفید مطلب چیز تلاش کر لیتا ہے۔
معلوم ہوا کہ انسانی شعور میں ترتیب کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں کے استعمال کی چیزیں اور حرکات موجود رہتی ہیں۔ گویا ماحول کا ہُجوم انسانی ذہن میں پیوست ہے۔ ذہن کو اتنی مہلت نہیں ملتی کہ شعور کی حد سے نکل کر لاشعور کی حد میں قدم رکھ سکے۔
یہاں ایک اُصول وضع ہوتا ہے کہ جب انسان یہ چاہے کہ میرا ذہن لاشعور کی حدوں میں داخل ہو جائے تو اس ہُجوم کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرے۔ انسانی ذہن ماحول سے آزادی حاصل کر لینے کے بعد، شعور کی دنیا سے ہٹ کر لاشعور کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔
ذہن کے اس عمل کا نام اِستغناء ہے۔ یہ اِستغناء اللہ تعالیٰ کی صفَت صمَدیّت کا عکس ہے جس کو عرفِ عام میں اِنخلاءِ ذہنی کہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس کی مشق کرنا چاہے تو اس کے لئے کتنے ہی ذرائع اور طریقے ایسے موجود ہیں جو مذہبی فرائض کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان فرائض کو ادا کر کے انسان خالئُ الذّہن ہونے کی مہارت حاصل کر سکتا ہے۔
سلوک کی راہوں میں جتنے اسباق پڑھائے جاتے ہیں ان سب کا مقصد بھی انسان کو خالئُ الذّہن بنانا ہے۔ وہ کسی وقت بھی ارادہ کر کے خالئُ الذّہن ہونے کا مراقبہ کر سکتا ہے۔
مراقبہ ایک ایسے تصوّر کا نام ہے جو آنکھیں بند کر کے کیا جاتا ہے۔ مثلاً انسان جب اپنی فنا کا مراقبہ کرنا چاہے تو یہ تصوّر کرے گا کہ میری زندگی کے تمام آثار فنا ہو چکے ہیں اور اب میں ایک نقطۂِ روشنی کی صورت میں موجود ہوں۔ یعنی آنکھیں بند کر کے یہ تصوّر کرے کہ اب میں اپنی ذات کی دنیا سے بالکل آزاد ہوں۔ صرف اس دنیا سے میرا تعلق باقی ہے جس کے احاطہ میں ازل سے ابد تک کی تمام سرگرمیاں موجود ہیں۔ چنانچہ کوئی انسان جتنی مشق کرتا جاتا ہے۔ اتنی ہی لوحِ محفوظ کی اِنطباعیت اس کے ذہن پر مُنکشِف ہوتی جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ غیب کے نُقوش اِس اِس طرح واقع ہیں اور اُن نُقوش کا مفہوم اُس کے شعور میں منتقل ہونے لگتا ہے۔ اِنطباعیت کا مطالعہ کرنے کے لئے صرف چند روزہ مراقبہ کافی ہے۔
لوحِ دوئم
’’جُو‘‘ تصوّف کی زبان میں مَوجودات کا ایسا مجموعہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے خدوخال پر مشتمل ہے۔ ’’جُو‘‘ لوحِ دوئم کہلاتی ہے اس لئے کہ وہ لوحِ اوّل یعنی لوحِ محفوظ کے متن کی تفصیل ہے۔
لوحِ محفوظ کائنات کی تخلیق سے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکامات کا مجموعۂِ تصاویر ہے۔ کائنات کے اندر جو بھی حرکت واقع ہونے والی ہے اس کی تصویر مِن و عَن لوحِ محفوظ پر نقش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادہ کا اِختیار عطا کیا ہے۔ جب انسانی ارادوں کی تصاویر لوحِ محفوظ کی تصاویر میں شامل ہو جاتی ہیں اس وقت لوحِ اوّل لوحِ دوئم کی شکل اِختیار کر لیتی ہے۔ اس ہی لوحِ دوئم کو صوفیاء اپنی زبان میں ’’جُو‘‘ کہتے ہیں یعنی لوحِ محفوظ پہلا عالمِ تَمثال ہے اور جُو دوسرا عالمِ تَمثال ہے جس میں انسانی ارادے بھی شامل ہیں۔
پہلے اللہ تعالیٰ کی وہ تعریف بیان کرنا ضروری ہے جو قرآنِ پاک میں کی گئی ہیں:
قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدُ o اَللہُ الصَّمَدُ o لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ o وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدُ o
ترجمہ: اے پیغمبرﷺ! کہہ دیجئے اللہ ایک ہے۔ بے نیاز ہے۔ نہ کسی نے اس کو جنا نہ اس نے کسی کو جنا۔ اور نہ اس کا کوئی خاندان ہے۔
یہاں اللہ تعالیٰ کی پانچ صفات بیان ہوئی ہیں:
پہلی صفَت وحدت… یعنی وہ کثرت نہیں
دوسری صفَت بےنیازی یعنی وہ کسی کا محتاج نہیں
تیسری صفَت یہ کہ وہ کسی کا باپ نہیں
چوتھی صفَت یہ کہ وہ کسی کا بیٹا نہیں
پانچویں صفَت یہ کہ اُس کا کوئی خاندان نہیں
یہ تعریف خالق کی ہے اور خالق کی جو بھی تعریف ہو گی مخلوق کی تعریف کے برعکس ہوگی۔ یا مخلوق کی جو بھی تعریف ہو گی، خالق کی تعریف کے برعکس ہو گی۔ اگر ہم خالق کی تعریفاتی حدوں کو چھوڑ کر مخلوق کی تعریف بیان کریں تو اِس طرح کہیں گے کہ:
خالق وحدت ہے تو مخلوق کثرت ہے
خالق بے نیاز ہے تو مخلوق محتاج ہے
خالق باپ نہیں رکھتا تو مخلوق باپ رکھتی ہے
خالق کا کوئی بیٹا نہیں لیکن مخلوق کا بیٹا ہوتا ہے
خالق کا کوئی خاندان نہیں لیکن مخلوق کا خاندان ہونا ضروری ہے۔
عالمِ جُو ِ
جب اللہ تعالیٰ نے کُن فرمایا تو صفاتِ الٰہیہ کائنات کی شکل وصورت بن گئیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کے اَجزاء کثرت کا چہرہ بن گئے۔ یہ چہرہ ان تمام روحوں یا اَجزاء کا مجموعہ ہے جن کو الگ الگ مخلوق کی شکل وصورت حاصل ہوئی۔
تخلیق کی پہلی تعریف یہ ہوئی کہ اَجزاءِ لاتجزأ یعنی روحیں جن کو قرآن میں اَمرِربِّی کہا گیا ہے مَوجودات کی صورت میں نمایاں ہو گئیں۔ اس تعریف کو مدنظر رکھ کر ہم اس ربط کو نہیں بھول سکتے جو خالق اور مخلوق کے درمیان ہے۔ اس ہی ربط کو تصوّف کی زبان میں ’’جُو‘‘ کہا گیا ہے۔
’’جُو‘‘ کی دوسری تعریف یہ ہے کہ مخلوق ہر قدم پر خالق کے ربط کی محتاج ہے اور خالق کی صفات ہی ہر لمحہ ’’جُو‘‘ کو حیات نو عطا کرتی ہے۔
’’جُو‘‘ کے تیسرے مرحلے میں ایک ایسا سلسلہ سامنے آتا ہے جس کو ہم پیدائش کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ تصوّف کی زبان میں اس کا نام رخِ اوّل ہے۔
’’جُو‘‘ کا چوتھا سلسلہ خود پیدائش کی شکل و صورت کے نام ہے جس کو تصوّف کی زبان میں رُخِ ثانی کہتے ہیں۔ یہ دونوں رُخ ’’جُو‘‘ کے تنوع کا مجموعہ ہیں۔
’’جُو‘‘ کے پانچویں سلسلہ میں افراد کا ذہن تنظیم کی نوعیت اِختیار کر لیتا ہے یعنی ’’جُو‘‘ کا انفرادی احساس ایک ایک فرد کے احساس کا اِدراک کر لیتا ہے۔
’’جُو‘‘…. نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبلِ الوَرید …. کی شرح ہے۔ کائنات میں جو چیز شعور کو محسوس ہوتی ہے یا نظر آتی ہے یا شعور اس کا اِدراک کرتا ہے اس کا وجود تمثُّلِ اوّل کی شکل میں’’جُو‘‘ کے اندر پایا جاتا ہے۔ کوئی فرد جہاں بھی ہے تمثُّلِ اوّل کا عکس ہے خواہ وہ فرد انسان ہو، جن ہو، فرشتہ ہو، نباتات سے ہو یا جمادات سے یا کسی کرّہ کی حیثیت رکھتا ہو۔
کائنات کا ہر فرد ’’جُو‘‘ کے ذریعے لاشعوری طور پر ایک دوسرے کے ساتھ رُوشناس اور منسلک ہے۔ تصوّف کی زبان میں’’جُو‘‘ کی تفصیلات ’’مُغیباتِ اَکوان‘‘ کہلاتی ہیں۔ اگر کسی فرد کو مغیباتِ اَکوان کا علم حاصل ہے تو وہ ایک ذرّہ کی حرکت کو دوسرے ذرّہ کی حرکت سے مُلحق دیکھ سکتا ہے۔ بالفاظ دیگر’’جُو‘‘ کا شعور رکھنے والا اگر ہزار سال پہلے کے یا ہزار سال بعد کے واقعات کا مشاہدہ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔
کثرت کا اَجمال
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ …. (سورۃ آلِ عمران – آیت نمبر 6)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جُزو لا تجزاء کا تذکرہ کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ہم نے لاشیء کو شکل و صورت دی ہے۔ رحمِ مادر میں ایک ایسی تصویر بنائی ہے جس کا علم ہمارے سوا کبھی کسی کو نہ ہُو ا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے رحم مادر میں ایسی تصویر کشی کی ہے جو اَمرِربِّی کی حیثیت میں ناقابل تقسیم جُزو ہے۔ یہ ایک ایسا عکس ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے ارادے نے ہر فرد کے اِدراک سے رُوشناس کر دیا ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ کا ہر حکم فرداً فرداً تمام مخلوق کے ذہن میں شکل و صورت بن کر سما گیا ہے۔ یعنی جو شکل بھی اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے وہ ’’جُو‘‘ میں وجود رکھنے والے ارب دو ارب افراد کے اِدراک میں موجود ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی تصویر جو کہ ہر ذرّہ میں نقش ہے اس ہی نقش کے اِدراک سے کوئی آدمی اپنی سواری کے ایسے گھوڑے کو جس کی شکل وصورت کا کوئی گھوڑا ساری دنیا میں موجود نہ ہو اچھی طرح پہچانتا ہے۔ ایک ماں اپنے بیٹے کو کروڑوں انسانوں میں تلاش کر لیتی ہے اور بیٹے کے سینکڑوں دوست اس کے مخصوص خدوخال دیکھ کر اس کو پہچان لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خاص شکل و شباہت جو ایک بچے کی روح میں پیوست ہے اس بچہ کی نگاہ میں کبوتر، مور یا فاختہ کی شناخت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ کوئی بچہ ستارے کو لاکھوں میل کے فاصلے سے دیکھ کر ستارہ کہہ دیتا ہے۔ اس طرح ہر چیز کی شکل وصورت مَوجودات کے ہر فرد کی طبیعت میں نقش اور پیوست ہے۔ کوئی صورت سالہاسال بعد بھی جب کسی فرد کی آنکھوں کے سامنے اپنے خدوخال میں آتی ہے تو وہ اس کو امرِ ربّی ، روح یا جُزوِ لاتجزأ یا انسان کا نام لے کر بے ساختہ پُکار اُٹھتا ہے… میں تجھے خوب پہچانتا ہوں… تُو زید ہے… تُو محمود ہے۔
جُو کا واسطہ
انسانی زندگی کے دو رُخ ہیں۔ ایک ظاہری رُخ اور دوسرا باطنی رُخ۔ ظاہری رُخ دیکھنے والوں کے لئے پہچان کا ذریعہ ہے کہ یہ فلاں شخص ہے یا یہ فلاں چیز ہے۔ اور باطنی رُخ دیکھی ہوئی چیزوں کی یادداشت کا تصویر خانہ ہے۔ یعنی دیکھی ہوئی چیزیں اُس رُخ میں بشکلِ تصویر محفوظ رہتی ہیں۔ ہم اِن دونوں رُخوں کو پوری طرح سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں، جو کچھ ہمارے باطنی رُخ میں منقّش اور موجود ہے، وہ جب ظاہری طور ہر ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو ہم بِلا تأمل اُسے شناخت کر لیتے ہیں، اب یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ جو کچھ باطن میں ہے وہی ظاہر میں ہے اور جو چیز باطن میں موجود نہیں ہے وہ ظاہر میں موجود نہیں ہو سکتی۔ گویا ظاہر باطن کا عکس ہے۔ باطن اصل ہے اور ظاہر اُس کا پَرتَو ہے۔ اور کسی شخص کی ذات میں پوری کائنات کے تمام اجزاء اور اجزاء کی حرکتیں منقُوش اور موجود ہیں۔
انسان کی ذات دو حصّوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصّہ داخلی ہے اور دوسرا حصّہ خارجی ہے۔ داخلی حصّہ اصل ہے اور خارجی حصّہ اُس ہی کا سایہ ہے۔ داخلی حصّہ وحدت کی حیثیت رکھتا ہے اور خارجہ حصّہ کثرت کی۔ داخلی حصّہ میں مکان اور زمان دونوں نہیں ہوتے، لیکن خارجی حصّہ میں مکان اور زمان دونوں ہوتے ہے۔ داخلی حصّہ میں ہر چیز جزوِ لا تجزأ کی حیثیت رکھتی ہے، کسی مکانیّت کا احاطہ بھی موجود نہیں ہے۔ خارجی حصّہ میں مکانیّت اور زمانیّت دونوں موجود ہیں۔
مثال: ہم کسی عمارت کی ایک سمت میں کھڑے ہو کر اِس عمارت کے ایک زاویہ کو دیکھتے ہیں۔ جب اِس عمارت کے دوسرے زاویہ کو دیکھنا ہوتا ہے تو چند قدم چل کے اور کچھ فاصلہ طے کرکے ایسی جگہ کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے عمارت کے دوسرے رُخ پر نظر پڑتی ہے اور فاصلہ طے کرنے میں تھوڑا سا وقفہ بھی صرف ہُوا۔ اِس طرح نظر کا ایک زاویہ بنانے کے لئے مکانیّت اور زمانیّت دونوں وقوع میں آئیں۔ ذرا وضاحت سے اِس مسئلہ کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ جب ایک شخص لندن ٹاورکو دیکھنا چاہے تو کراچی سے سفر کرکے اُسے لندن پنہچنا پڑے گا۔ ایسا کرنے میں اُس کو ہزاروں میل کی مسافت اور کئی دنوں کا زمانی لگانا پڑے گا۔ اب نگاہ کا وہ زاویہ بنا نا تھا جو لندن ٹاور کو دکھا سکے۔ یہ انسان کی ذات کے خارجی حصّے کا زاویۂِ نگاہ ہے۔
اِس زاویہ میں مکانیّت اور زمانیّت استعمال ہونے سے کثرت پیدا ہو گئی۔ اگر ذات کے داخلی زاویۂِ نگاہ سے کام لینا ہو تو ہم اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ذہن میں لندن ٹاور کا تصوّر کرسکتے ہیں۔ تصوّر کرنے میں جو نگاہ استعمال ہوتی ہے وہ اپنی توانائی کی وجہ سے ایک دُھندلا سا خاکہ دکھاتی ہے۔ لیکن وہ زاویہ ضرور بنا دیتی ہے جو ایک طویل سفر کرکے لندن ٹاور تک پہنچنے کے بعد ٹاور کو دیکھنے میں بنتا ہے۔ اگر کسی طرح نگاہ کی ناتوانی دُور ہا جائے تو زاویۂِ نگاہ کا دُھندلا خاکہ روشن اور واضح نظارے کی حیثیّت اختیار کر سکتا ہے اور دیکھنے کا مقصد بالکل اُس ہی طرح پُورا ہو جائے گا جو سفر کی جدّوجہد اور سفر کے بہت سے وسائل استعمال کرنے کے بعد پُورا ہوتا ہے۔ اصل چیز زاویۂِ نگاہ کا حُصول ہے… جس طرح بھی ممکن ہو۔
یہ واضح ہو گیا کہ ایک انسان کی روح نفسہٖ جزوِ لا تجزأ ہے۔ ہر انسان زاویۂِ نگاہ کے تحت اپنی ذات میں پوری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے… اُس کائنات کا جو خود بھی جزوِ لاتجزأ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ذات کا داخلی حصّہ وحدت اور ذات کا خارجی حصّہ کثرت ہے۔ وحدت وہ حصّہ ہے جس میں مکانیّت ہے نہ زمانیّت… صرف شاہد اور مشہود اور مشاہدہ… یعنی احساس کے تین حصّوں کی موجودگی پائی جاتی ہے۔ اور ذات کے خارجی حصّہ میں محض اِس احساس کا عکس ہے جس کا نام کثرت رکھ لیا گیا ہے۔ یہ عکس مکانیّت اور زمانیّت دونوں کا احاطہ کرنے کے بعد احساس کو ٹھوس شکل میں پیش کرتا ہے۔ جیسے ہی انسان ایک سمت میں چلا گیا اور ذرا سا وقفہ گرزا، اُس نے اپنے احساس میں ایک دباؤ محسوس کیا۔ فوراً احساس کے ٹکڑے ہوتے چلے گئے۔ وہ سوچنے لگا، وہ دیکھنے لگا، سننے لگا، سونگھنے لگا اور چُھونے لگا۔ یہ احساس بھی جو شاہد کی حیثیت میں سب کچھ کر رہا ہے، جزوِ لاتجزأ ہے۔ مشہود کی حیثیت میں جو کچھ بھی محسوس ہو رہا ہے وہ بھی جزوِ لاتجزأ ہے اور مشاہدہ کی حیثیت میں جو شاہد اور مشہود کا درمیانی واسطہ ہے وہ بھی جزوِ لاتجزأ ہے۔
یہ ہے کُنۂِ احساس…. اور … وحدت و کثرت کی حقیقت!
احساس کی درجہ بندی
ہر انسان جُزوِ لاتجزأ ہے اور فی نفسہٖ احساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کو جب ہم حرکت کا نام دینا چاہیں گے تو نگاہ کہیں گے۔
آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دیدِ دوست است
(رُومی)
اس شعر میں مولانا روم نے انسان کا تذکرہ کیا ہے جو وَحدت میں بمنزلۂِ احساس ہے اور کثرت میں بمنزلۂِ نگاہ ہے۔
مثال:
ہم ایک قدآدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور اپنا عکس دیکھتے ہیں۔ اس وقت کہتے ہیں کہ ہم آئینہ میں اپنی صورت دیکھ رہے ہیں۔ دراصل یہ طرزِ کلام بِالواسطہ ہے، براہِ راست نہیں۔ جب ہم اس ہی بات کو براہِ راست کہنا چاہیں گے تو کہیں گے آئینہ ہمیں دیکھ رہا ہے یا ہم اس چیز کو دیکھ رہے ہیں جس چیز کو آئینہ دیکھ رہا ہے، یعنی ہم آئینہ کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔
یہ ہوئی براہِ راست طرزِ کلام۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو پہلے ہمارے ذہن میں اس کا تصوّر ہوتا ہے۔
دوسرے درجہ میں ہم اس چیز کو اپنی آنکھ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم نے اس چیز کے بارے میں کبھی کوئی خیال نہیں کیا یا کبھی نہیں سوچا ہے یا ہمیں کبھی اس چیز کا علم حاصل نہیں ہوا تو ہم اس چیز کو نہیں دیکھ سکتے۔
مثال:
کسی شخص کا ایک ہاتھ فالج زدہ ہے اور خشک ہو چکا ہے۔ ہم اس کے ہاتھ میں نشتر چبھو کر سوال کرتے ہیں۔ ’’بتاؤ! تمہارے فالج زدہ ہاتھ کے ساتھ کیا سُلوک کِیا گیا؟‘‘
تو وہ جواب دیتا ہے۔
’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘
اس نے نفی میں جواب کیوں دیا؟
اس لئے کہ نشتر کی چبھن اس نے محسوس نہیں کی۔ یعنی اسے نشتر چبھونے کا علم نہیں ہوا جو احساس کا پہلا درجہ ہوتا۔ وہ اس حالت میں نشتر چبھونے کا عمل دیکھ سکتا تھا اگر اس کی آنکھیں کھلی ہوتیں۔ یہاں اس کی نگاہ اس کے ذہن کو نشتر چبھونے کا علم دے سکتی تھی۔
چنانچہ ہر حال میں یہی علم نگاہ کا پہلا درجہ ہوتا ہے۔
انسان کو سب سے پہلے کسی چیز کا علم حاصل ہوتا ہے۔ یہ احساس کا پہلا درجہ ہے۔
پھر اس چیز کو دیکھتا ہے، یہ احساس کا دوسرا درجہ ہے۔
پھر اس کو سنتا ہے ، یہ احساس کا تیسرا درجہ ہے۔
پھر وہ اس چیز کو سونگھتا ہے یہ احساس کا چوتھا درجہ ہے۔
پھر وہ اس کو چھوتا ہے یہ احساس کا پانچواں درجہ ہے۔
فی الواقع احساس کا صحیح نام نگاہ ہے اور اس کے پانچ درجے ہیں۔
پہلے درجے میں اس کا نام خیال ہے۔
دوسرے درجے میں اس کا نام نگاہ ہے۔
تیسرے درجے میں اس کا نام سماعت ہے،
چوتھے درجے میں اس کا نام شامّہ ہے
اور پانچویں درجہ میں اس کا نام لمس ہے۔
ہر درجہ علم کی ایک اضافی شکل ہے۔
خیال اپنے درجے میں ابتدائی علم تھا۔
نگاہ اپنے درجے میں ایک اضافی علم ہو گئی۔
سماعت اپنے درجے میں ایک تفصیلی علم بن گئی
اور شامّہ اپنے درجے میں ایک توسیعی علم ہو گیا۔
آخر میں لمس اپنے درجے میں ایک محسوساتی علم بن گیا۔
اوّلیت صرف علم کو حاصل ہے جو دراصل نگاہ ہے۔ ہر حِس اس ہی کی درجہ بندی ہے۔ ہم نگاہ کا مفہوم پوری طرح واضح کر چکے ہیں۔ اب اس کے زاویے اور حقیقت بیان کریں گے۔
وَحدتُ الوُجود اور وَحدتُ الشُہود
نگاہ دو طرح دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔
ایک براہِ راست،
دوسرے بِالواسطہ۔
آئینہ کی مثال اوپر آ چکی ہے۔ جب ہم اپنی ذات یعنی داخل میں دیکھتے ہیں تو یہ نگاہ کا براہِ راست دیکھنا ہے۔ یہ دیکھنا ’’جُو‘‘ یعنی وَحدت میں دیکھنا ہے۔ وَحدت میں دیکھنے والی یہی نگاہ انسان، امرِ ربّی، روح یا جُزوِ لاتجزأ ہے۔ یہی نگاہ شاہد کو مشہود سے قریب کرتی ہے۔ یہی نگاہ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبلِ الوَرید کا انکشاف کرتی ہے۔ یہی نگاہ اپنی جگہ علمِ الٰہی یا علمِ توحید ہے۔ یہی نگاہ کثرت میں اضافی، تفصیلی، توسیعی اور محسوساتی طبیعت بنتی ہے۔ اس کی پہلی حرکت علمِ توحید یا وَحدتُ الوُجود ہے۔ اس ہی نگاہ کی دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں حرکت کثرت یا وَحدتُ الشُہود ہے۔ یہی نگاہ جب بِالواسطہ دیکھتی ہے تو مکانیت اور زمانیت کی تعمیر کرتی ہے۔ اس کی حرکات میں جیسے جیسے تبدیلی ہوتی ہے ویسے ویسے کثرت کے درجے تخلیق ہوتے جاتے ہیں۔ یہ نگاہ تنزّل اوّل کی حیثیت میں شعور قوّت نظارہ، گفتار، شامّہ اور لمس بنتی ہے۔
ہر تنزّل میں اس کے دو جُزو ہوتے ہیں۔ یہ نگاہ حرکت میں آنے سے پہلے تنزّل اوّل میں علم اور علیم اور حرکت میں آنے کے بعد تنزّل دوئم میں شعور، تنزّل سوئم میں نگاہ اور تشکیل، تنزّل چہارم میں گفتار اور سماعت، تنزّل پنجم میں رنگینی اور احساس، تنزّل ششم میں کشش اور لمس ہوتی ہے۔
تنزّل اوّل وَحدت کا ایک درجہ ہے اور تنزّل دوئم کثرت کے پانچ درجے ہیں۔ اس طرح تنزّلات کی تعداد چھ ہو گئی۔ پہلا تنزّل لطیفۂِ وَحدت ، دوسرے پانچ تنزّل لطائف کثرت کہلاتے ہیں۔ جُزوِ لاتجزأ، انسان یا روح کی ساخت یہاں سے مُنکشِف ہو جاتی ہے۔
اوّل ذاتِ باری تعالیٰ ہے اور باری تعالیٰ کا ذہن ’’علمِ واجب‘‘ کہلاتا ہے۔ واجب میں کائنات کا وُجود اللہ تعالیٰ کے ارادے کے تحت موجود تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کا مظاہرہ پسند فرمایا تو حکم دیا ’’کُن‘‘ یعنی حرکت میں آ۔ چنانچہ بشکل کائنات واجب میں جو کچھ موجود تھا اس نے پہلی کروٹ بدلی اور حرکت شروع ہو گئی۔ پہلی حرکت یہ تھی کہ مَوجودات کے ہر فرد کو اپنا اِدراک ہو گیا۔ مَوجودات کے ہر فرد کی فکر میں یہ بات آئی کہ میں ہوں۔ یہ انداز فکر ایک گم شدگی اور محویت کا عالم تھا۔ ہر فرد ناپیدا کنار دریائے توحید کے اندرغوطہ زن تھا۔ ہر فرد کو صرف اتنا احساس تھا کہ میں ہوں۔ کہاں ہوں، کیا ہوں اور کس طرح ہوں اس کا کوئی احساس اُسے نہیں تھا، اس ہی عالم کو عالمِ وَحدتُ الوُجود کہتے ہیں۔ اس عالم کو اہل تصوّف محض ’’وَحدت‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں۔ یہ وَحدت، وَحدت باری تعالیٰ ہرگز نہیں ہے کیونکہ باری تعالیٰ کی کسی صفَت کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ یہ وَحدت ذہنِ انسانی کی اپنی ایک اِختراع ہے جو صرف انسان کے محدود دائرۂِ فکر کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے کسی لامحدود وصف کو صحیح طور پر بتانے سے قطعی کوتاہ اور قاصر ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ کسی لفظ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صفَت کا مکمل اظہار ہو سکے۔
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ’’وَحدت‘‘ فکرِ انسانی کی اپنی ایک اِختراع ہونے کی حیثیت میں زیادہ سے زیادہ فکرِ انسانی کے عَلُو اور وُسعت کو بیان کرتی ہے۔ جب کوئی انسان لفظ ’’وَحدت‘‘ استعمال کرتا ہے تو اس کے معنی بس یہی نکلتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی یکتائی کو یہاں تک سمجھا ہے۔ بالفاظ دیگر لفظ ’’وَحدت‘‘ کا مفہوم انسان کی اپنی حد فکر تک محدود ہے۔ اس محدودیت ہی کو انسان لامحدودیت کا نام دیتا ہے۔ فی الواقع اللہ تعالیٰ اس قسم کی توصیفی حدوں سے بہت ارفع و اعلیٰ ہیں۔ جب ہم ’’وَحدت‘‘ کہتے ہیں تو فی الحقیقت اپنی ہی وَحدتِ فکر کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اس ہی مقام سے عالم وَحدتُ الوُجود کے بعد عالم وَحدتُ الشُہود کا آغاز ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ روحوں سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ (کیا میں نہیں ہوں رب تمہارا؟)
یہاں سے انسان یا امرِ ربّی کی نگاہ وُجود میں آ جاتی ہے۔وہ دیکھتا ہے کسی نے مجھے مخاطب کِیا اور مخاطب پر اس کی نگاہ پڑتی ہے۔ وہ کہتا ہے بَلٰی۔۔۔۔۔۔جی ہاں، مجھے آپ کی رَبّانیّت کا اعتراف ہے اور میں آپ کو پہچانتا ہوں (قرآن)۔
یہ ہے وہ مقام جہاں امرِ ربّی نے دوسری حرکت کی۔ یا دوسری کروٹ لی۔ اس ہی مقام پر وہ کثرت سے متعارف ہوا۔ اس نے دیکھا کہ میرے سِوا اور بھی مخلوق ہے کیونکہ مخلوق کے ہُجوم کا شُہود اسے حاصل ہو چکا تھا، اسے دیکھنے والی نگاہ مل چکی تھی۔ یہ واجب کا دوسرا تنزّل ہوا۔ اس تنزّل کی حدود میں انسان نے اپنے وُجود کی گہرائی کا احساس اور دوسری مخلوق کی موجودگی کا شُہود پیدا کیا۔ پہلے تنزّل کی حیثیت علم اور علیم کی تھی یعنی انسان کو صرف اپنے ہونے کا اِدراک ہوا تھا۔
’’میں ہوں‘‘ ۔۔۔۔۔۔’’میں‘‘ علیم اور ’’ہوں‘‘ علم ہے۔ دوسرے تنزّل میں گُمشدگی کی حد سے آگے بڑھا تو اس نے خود کو دیکھا اور دوسروں کو بھی دیکھا۔ اس ہی کو عالمِ وَحدتُ الشُہود کہتے ہیں۔ پہلے تنزّل کو جو محض اِدراک تھا جب احساس کی گہرائی حاصل ہوئی تو نگاہ وُجود میں آ گئی۔ نگاہ اِدراک کی گہرائی کا دوسرا نام ہے۔
قانون:
اِدراک گہرا ہونے کے بعد نگاہ بن جاتا ہے۔ اِدراک جب تک ہلکا ہو اور خیال کی حدوں تک موجود رہے، اس وقت تک مشاہدہ کی حالت رُونما نہیں ہوتی۔ احساس صرف فکر کی حد تک کام کرتا ہے۔ جب فکر ایک ہی نقطہ پر چند لمحوں کے لئے مرکوز ہو جاتی ہے وہ نقطہ خدّوخال اور شکل وصورت کا روپ اِختیار کر لیتا ہے۔ اس ہی کو مشاہدہ یا شُہود کہتے ہیں۔ اب فکر نگاہ کی حیثیت میں اس ہی نقطہ پر چند لمحے اور مرکوز رہتی ہے تو نقطہ گویا ہو جاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں نگاہ جو نقطہ کا مشاہدہ کر رہی ہے گویا ہو جاتی ہے یا بولنے لگتی ہے۔ اس نقطہ پر امرِ ربّی کہتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے۔
یہ قوّت گویائی جسے نطق کہتے ہیں اگر ذرا دیر اس نقطہ کی طرف اور متوجّہ رہے تو فکر اور احساس میں رنگینیوں کا چشمہ اُبل پڑتا ہے۔ اور وہ اپنے ارد گرد نیرنگی کا ایک ہُجوم محسوس کرنے لگتی ہے۔
جب اس ہُجوم پر امرِ ربّی کی توجہ ذرا سی دیر اور مرکوز رہتی ہے تو شعور انسانی میں کشش کی روشن لہریں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ان لہروں کی ایک صفَت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے مطمعِ نظر یا شُہود کو جسے وہ دیکھ رہی ہیں یا محسوس کر رہی ہیں چھو دیتی ہیں۔ ان لہروں کے اس عمل کا نام ’’لمس‘‘ ہے۔ یہاں سے یہ قانون پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ علم ہی کی جداگانہ حرکات یا حالتوں کا نام خیال، نگاہ، گفتار، شامّہ اور لمس ہے۔
بیان کردہ قانون سے اس بات کا انکشاف ہو جاتا ہے کہ ایک حقیقت اپنی حالت بدلتی رہتی ہے۔ ان تبدیلیوں میں مختلف انکشافات کا قیام ہے۔ جس نقطہ پر جو انکشاف صورت پذیر ہے وہی امرِ ربّی کی حرکت بن جاتا ہے۔ جس طرح خیال علم ہے اس ہی طرح نگاہ بھی علم ہے اور نگاہ کے بعد کی تمام حالتیں بھی علم ہیں۔ کوئی حالت ان حدود سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی۔ علم کی حدود کے اندر ہی درجہ بدرجہ گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔
ہماری فکر اوپر سے نیچے کی طرف سیڑھیاں اترتی ہے اور ہم فکر کی شکل وصورت کو مختلف احساسات کا نام دیتے چلے جاتے ہیں۔ جب ہم ایک خیال کو ذہن میں شدت سے محسوس کرتے ہیں تو وہی خیال شکل و صورت بن کر رُونما ہو جاتا ہے۔ وہی شکل وصورت مزید
غور و فکر کے اثر سے گفتگو کرنے لگتی ہے۔ ذرا اور شدت ہوتی ہے تو یہی گفتگو رنگارنگ لباسوں میں جلوہ گر ہو جاتی ہے۔ آخری مرحلہ میں شدتِ احساس کے باعث ہم ان رنگا رنگ لباسوں کی طرف خود کو کھنچتا ہُوا محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری حِس ان رنگا رنگ لباسوں کو چھو لیتی ہے۔ یہاں پر ہمارا تجسّس ختم ہو جاتا ہے۔ یہ کیفیت فکرِ انسانی کے لئے لذّت کی انتہا ہے۔ اس آخری نقطہ سے پھر فکرِ انسانی کو لوٹنا پڑتا ہے۔ یعنی جس چیز کو ہم نے ابھی چھوا تھا ہماری حِس اس سے دور ہونے لگتی ہے۔ یہی حالت ہماری حِس کا ردِّ عمل ہے جو مکانیت اور زمانیت کے فصل کا احساس دلاتا ہے۔ ابھی ہم جس چیز سے قریب تھے رفتہ رفتہ اس سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور مجموعی طور پر اِسی نقطہ کی دُوری کا نام موت ہے۔ موت وارِد ہونے کے بعد روح گزرے ہوئے تجربات سے ایک مجموعی علم جدید سیکھتی ہے۔ اِسی عالم کا نام عالم غیب کا شُہود ہے۔
ایک بار پھر زندگی کی تشریح بیان کی جاتی ہے۔
یہ کائنات اپنی ہر شکل و صورت اور ہر ایک حرکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود تھی۔ اس ہی موجودگی کا نام وُجود رُؤیا ہے اور جس علم میں کائنات کی موجودگی تھی، اللہ تعالیٰ کے اس علم کو واجب یا علمِ قلم کہتے ہیں۔ علم واجب اللہ تعالیٰ کی ایک صفَت ہے جس کو ذات کا عکس کہتے ہیں۔
علم واجب کے بعد جب اللہ تعالیٰ کی صفات ایک قدم اور نیچے اترتی ہیں تو عالم واقعہ یا عالم ارواح کا ظُہور بن جاتی ہیں۔ یہی وہ محلِ وقوع ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ظُہورِ تخلیق کا ارادہ فرمایا اور لفظ کُن کہہ کر اپنے ارادے کو کائنات کی شکل وصورت بخشی۔ یہاں سے دو حیثیتیں قائم ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک حیثیت اللہ تعالیٰ کے علم کی، دوسری حیثیت اللہ تعالیٰ کے ارادے کی۔ اور اصل ارادہ ہی ازل کی إبتداء کرتا ہے۔ ازل کے ابتدائی مرحلے میں مَوجودات ساکِت و صامِت ہیں۔ مَوجودات کی شکل کو روحانیت کی زبان میں علمِ وَحدت، کلیات یا علمِ لوحِ محفوظ کہتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ مَوجودات کا سُکوت ٹوٹے اور حرکت کا آغاز ہو تو اللہ تعالیٰ نے مَوجودات کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ
اب مَوجودات کی ہر شئے متوجّہ ہو گئی اور اُس میں شعور پیدا ہو گیا۔ اِس شعور نے جواباً ’’بَلٰی‘‘ کہہ کر اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا اعتراف کر لیا۔یہ عالم واقعہ کی پہلی شکل تھی۔ اشیاء میں جب حرکت کی إبتداء ہوئی تو عالم واقعہ کی دوسری شکل کا آغاز ہو گیا۔ اس شکل کا نام عام زبان میں ’’کثرت‘‘ ہے۔ اس ہی شکل کو عالمِ مثال یا ’’جُو‘‘ کہتے ہیں۔
یہاں سے امرِ ربّی روح، جُزوِ لاتجزأ یا انسان زندگی کا اقدام کرتا ہے اور اس ہی کا عکس ناسُوت میں واقعات کی شکل وصورت اِختیار کر لیتا ہے۔ عالمِ ناسُوت کا یہ عکس اشیاء کا دوسرا تمثُّل ہے۔ ذات کا عکس علم واجب یا علمِ قلم۔ علم واجب کا عکس علمِ وَحدت یا علمِ لوحِ محفوظ ہے۔ علمِ لوحِ محفوظ کا عکس ’’جُو‘‘ یعنی عالمِ تَمثال ہے۔ عالمِ تَمثال کا عکس تمثُّل ثانی یا عالمِ تخلیط ہے۔ عالمِ تخلیط کو عالمِ ناسُوت بھی کہتے ہیں۔
روحِ اعظم، روحِ انسانی، روحِ حیوانی اور لطائفِ ستّہ
مخلوق کی ساخت میں روح کے تین حصّے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔روحِ اعظم، روحِ انسانی، روحِ حیوانی۔
روحِ اعظم علم واجب کے اَجزاء سے مرکّب ہے۔
روحِ انسانی علمِ وَحدت کے اَجزاء سے بنتی ہے۔ اور
روحِ حیوانی ’’جُو‘‘ کے اَجزاء ترکیبی پر مشتمل ہے۔
روحِ اعظم کی إبتداء لطیفۂِ اخَفیٰ اور انتہا لطیفۂِ خَفی ہے۔ یہ روشنی کا ایک دائرہ ہے جس میں کائنات کی تمام غیب کی معلومات نقش ہوتی ہیں۔
یہ وہی معلومات ہیں جو ازل سے ابد تک کے واقعات کے متَنِ حقیقی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس دائرے میں مخلوق کی مصلحتوں اور اَسرار کا ریکارڈ محفوظ ہے۔ اس دائرہ کو ثابِتہ کہتے ہیں۔
روحِ انسانی کی إبتداء لطیفۂِ سری ہے اور انتہا لطیفۂِ روحی ہے۔ یہ بھی روشنی کا ایک دائرہ ہے۔ اس دائرے میں وہ اَحکامات نقش ہوتے ہیں جو زندگی کا کردار بنتے ہیں۔ اس دائرے کا نام ’’اَعیان‘‘ہے۔
روحِ حیوانی کی إبتداء لطیفۂِ قلبی اور انتہا لطیفۂِ نفسی ہے۔ یہ روشنی کا تیسرا دائرہ ہے۔ اس کا نام ‘‘جَویَّہ’’ ہے۔ اس دائرے میں زندگی کا ہر عمل ریکارڈ ہوتا ہے۔ عمل کے وہ دونوں حصّے جن میں اللہ تعالیٰ کے اَحکام کے ساتھ جنّ و انس کا اِختیار بھی شامل ہے جُزو درجُزو نقش ہوتے ہیں۔
روشنی کے یہ تینوں دائرے تین اوراق کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہوتے ہیں۔ ان کا مجموعی نام روح، امرِ ربّی، جُزوِ لاتجزأ یا انسان ہے۔
لطیفہ اس شکل وصورت کا نام ہے جو اپنے خدّوخال کے ذریعے معنی کا انکشاف کرتا ہے۔ مثلاً شمع کی لَو ایک ایسا لطیفہ ہے جس میں اجالا، رنگ اور گرمی تینوں ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں۔ (ان کی ترتیب سے ایک شعلہ بنتا ہے جو شُہود کی ایک شکل ہے)۔ ان تین اَجزاء سے مل کر شُہود کی ایک بننے والی شکل کا نام شعلہ رکھا گیا ہے۔ یہ شعلہ جن اَجزاء کا مظہر ہے۔ ان میں سے ہر جُزو کو ایک لطیفہ کہیں گے۔
لطیفہ نمبر۱: شعلہ کا اجالا ہے۔
لطیفہ نمبر۲: شعلہ کا رنگ ہے۔
لطیفہ نمبر۳: شعلہ کی گرمی ہے۔
ان تینوں لطیفوں کا مجموعی نام شمع ہے۔ جب کوئی شخص لفظ شمع استعمال کرتا ہے تو معنوی طور پر اس کی مراد تینوں لطیفوں کی یکجا صورت ہوتی ہے۔
اس طرح انسان کی روح میں چھ لطیفے ہوتے ہیں جس میں پہلا لطیفہ اخَفیٰ ہے۔ لطیفۂِ اخَفیٰ علمِ الٰہی کی فلم کا نام ہے۔ یہ فلم لطیفۂِ خَفی کی روشنی میں مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔ ان دونوں لطیفوں کا اجتماعی نام ثابِتہ ہے۔ اس طرح ثابِتہ کے دو اِطّلاق ہوئے۔ ایک اِطّلاق علمِ الٰہی کے تمثُّلات ہیں اور دوسرا اِطّلاق روح کی وہ روشنی ہے جس کے ذریعے تمثُّلات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ تصوّف کی زبان میں دونوں اِطّلاق کا مجموعی نام تدلّٰی ہے۔ تدلّٰی دراصل اسماءِ الٰہیہ کی تشکیل ہے۔ اسماءِ الٰہیہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات ہیں جو ذات کا عکس بن کر تنزّل کی صورت اِختیار کر لیتی ہیں۔ یہی صفات مَوجودات کے ہر ذرّے میں تدلّٰی بن کر محیط ہوتی ہیں۔ پیدائش، عروج اور زوال کی مصلحتیں اس ہی تدلّٰی میں مندرج ہیں۔ اس ہی تدلّٰی سے علمِ الٰہی کے عکس کی إبتداء ہوتی ہے۔ جس انسان پر علمِ الٰہی کا یہ عکس مُنکشِف ہو جاتا ہے وہ تقدیرِ ربانی سے مُطّلع ہو جاتا ہے۔ اس ہی تدلّٰی یا تجلّی کا اِندراج ثابِتہ میں ہوتا ہے۔ جیسےالٓمّٓ خالق اور مخلوق کے درمیانی ربط کی تشریح ہے یعنی الٓمّٓ کی رُموز کو سمجھنے والا اللہ تعالیٰ کی صفَت تدلّٰی یا رمزِ حکمرانی کو پڑھ لیتا ہے۔
تدلّٰی کا علم رکھنے والا کوئی انسان جب الٓمّٓ پڑھتا ہے تو اس پر وہ تمام اَسرار و رُموز مُنکشِف ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں بیان فرمائے ہیں۔ الٓمّٓ کے ذریعے صاحبِ شُہود پر وہ اَسرار مُنکشِف ہو جاتے ہیں جو مَوجودات کی رگ جاں ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی اس صفَت تدلّٰی کو دیکھ لیتا ہے جو کائنات کے ہر ذرّے کی روح میں بشکلِ تجلّی پیوست ہے۔ کوئی اہلِ شُہود جب کسی فرد کے لطیفۂِ خَفی میں الٓمّٓ لکھا دیکھتا ہے تو یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس نقطے میں صفَت تدلّٰی کی روشنیاں جذب ہیں۔ یہی روشنیاں ازل سے ابد تک کے تمام واقعات کا انکشاف کرتی ہیں۔ لطیفۂِ خَفی کے باطن کا انکشاف لطیفۂِ اخَفیٰ کا انکشاف ہے اور دونوں لطیفوں کا اجتماعی نام روحِ اعظم یا ثابِتہ ہے۔
اگر ہم ثابِتہ کو ایک نقطہ یا ایک ورق فرض کر لیں تو اس ورق کا ایک صفحہ لطیفۂِ اخَفیٰ اور دوسرا صفحہ لطیفۂِ خَفی ہو گا۔ فی الواقع لطیفۂِ خَفی نوری تحریر کی ایک مختصر شکل (SHORT FORM) ہے جس کو پڑھنے کے بعد کوئی صاحب اَسرار اس کے پورے مفہوم سے مُطّلع ہو جاتا ہے۔ اس مفہوم کے متعلّق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ مختصر ہے کیونکہ SHORT FORM ہونے کے باوجود وہ اپنی جگہ کسی فرد کی پیدائش سے متعلّق اللہ تعالیٰ کی تمام مَصلِحتوں کی تشریح ہوتا ہے۔ اس ہی چیز کو اَسرار کی اِصطلاح میں اسماء یا علمِ قلم کہا جاتا ہے۔ یہ علم دو حصّوں پر مشتمل ہے۔
پہلا حصّہ: اسماءِ الٰہیہ
دوسرا حصّہ: علمِ حروفِ مُقطّعاتاسماءِ الٰہیہ
شمار الفاظ معانی شمار الفاظ معانی
1 الله 2 الرَّحْمٰنُ بہت بخشنے والا 3 الرَّحِيمُ بہت رحم والا 4 المَلِكُ شہنشاہ
5 القُدُّوسُ بزرگ تر 6 سَلَامُ سلامت رکھنے والا 7 مُؤْمِنُ امن دینے والا 8 مُهَيْمِنُ نگہبان
9 عَزِيزُ غالب 10 جَبَّارُ زبردست11 مُتَكَبِّرُ بڑائی والا 12 خَالِقُ پیدا کرنے والا
13 بَارِىءُ سب کا پیدا کنندہ 14 مُصَوِّرُ صورت گر15 غَفَّارُ گناہ بخشنے والا 16 قَهَّارُ سب پر غالب
17 وَهَّابُ بہت دینے والا 18 رَزَّاقُ روزی دینے والا19 فَتَّاحُ کھولنے والا 20 عَلِيمُ جاننے والا
21 قَابِضُ قبضہ رکھنے والا 22 بَاسِطُ فراخ کرنے والا23 خَافِضُ پست کرنے والا 24 رَافِعُ بلند کرنے والا
25 مُعِزُّ عزّت دینے والا 26 مُذِلُّ خوار کرنے والا 27 سَمِيعُ سننے والا 28 بَصِيرُ دیکھنے والا
29 حَكَمُ حُکم کرنے والا 30 عَدْلُ انصاف کرنے والا 31 لَطِيفُ باریک بِین 32 خَبِيرُ خبردار
33 حَلِيمُ بُردبار 34 عَظِيمُ بُزرگ تر 35 غَفُورُ بخشش کا مالک 36 شَكُورُ قدردان
37 عَلِيُّ بلند مرتبہ والا 38 كَبِيرُ سب سے بڑا 39 حَفِيظُ نگاہ رکھنے والا 40 مُقِيتُ قوّت دینے والا
41 حَسِيبُ حساب والا 42 جَلِيلُ بزرگ قدر 43 كَرِيمُ کرم کرنے والا 44 رَقِيبُ واقف کار
45 مُجِيبُ قبول کرنے والا 46 وَاسِعُ بہت دینے والا 47 حَكِيمُ اُستوار کار 48 وَدُودُ دوست رکھنے والا
49 مَجِيدُ بزرگ 50 بَاعِثُ اٹھانے والا 51 شَهِيدُ حاضر 52 حَقُّ ثابت
53 وَكِيلُ کارساز 54 قَوِيُّ قوّت والا 55 مَتِينُ مضبوط 56 وَلِيُّ دوست
57 حَمِيدُ حمد والا 58 مُحْصِيُ گھیرنے والا 59 مُبْدِىءُ ابتداء بخشنے والا 60 مُعِيدُ انتہا والا
61 مُحْيِيُ جِلانے والا 62 مُمِيتُ مارنے والا 63 حَيُّ قائم 64 قَيُّومُ قائم رہنے والا
65 وَاجِدُ پانے والا 66 مَاجِدُ بزرگی والا 67 وَاحِدُ یکتا 68 اَحَدُ ایک
69 صَمَدُ بےنیاز 70 قَادِرُ قدرت والا 71 مَعبُودُ جس کی عبادت کی جائے 72 مُقْتَدِرُ قدرت ظاہر کرنے والا
73 مُقَدِّمُ آگے والا 74 مُؤَخِّرُ پیچھے والا 75 أَوَّلُ پہلا 76 آخِرُ پچھلا
77 ظَاهِرُ واضح 78 بَاطِنُ خیال سے پوشیدہ 79 وَالِيْ کام بنانے والا 80 مُتَعَالِیْ بہت اعلیٰ
81 مُنْتَقِمُ صاحبِ انتقام 82 تَوَّابُ توبہ قبول کرنے والا 83 رَءُوفُ مہربان 84 عَفُوُّ معاف کرنے والا
85 مَالِكُ المُلْكِ دو جہان کا مالک 86 ذُو الجَلَالِ وَالإِكْرَامِ صاحب بڑی بخشش و کرم والا
87 مُقْسِطُ انصاف کرنے والا 88 جَامِعُ جمع کرنے والا 89 مُغْنِيُّ بے پرواہ کرنے والا 90 غَنِيُّ بے پرواہ
91 ضَارُّ ضرر دینے والا 92 مَانِعُ باز رکھنے والا 93 نُورُ روشن 94 نَافِعُ نفع دینے والا
95 بَدِيعُ بے نمونہ پیدا کنندہ 96 هَادِيْ راہ دکھانے والا 97 رَاشِدُ جہاں کا رہنما 98 بَاقِيْ ہمیشہ رہنے والا
99 مُنعِمُ نعمت عطا کرنے والا 100 صَبُورُ بُردبار 101 شَافِیْ شِفا دینے والا 102 رَبُّ پرورش کُنندہ
103 کَلِیمُ گفتگو کرنے والا 104 کَافِیْ ہر امر میں کفایت کرنے والا 105 خَلِیلُ دوست 106 حَاکِمُ حکومت کرنے والا
107 رَفِیعُ بلندی والا 108 عَالِمُ علم رکھنے والا 109 نَذِیرُ ڈرانے والا 110 بَشِیرُ خوشخبری سُنانے والا
111 حَافِظُ حفاظت کرنے والا 112 نَاصِرُ مدد کرنے والا 113 مُختَارُ اختیار رکھنے والا 114 قَاسِمُ بانٹنے والا
115 عَادِلُ عدل کرنے والا 116 بُرھَانُ دلیل 117 مُحسِنُ احسان کرنے والا 118 رَشِیدُ ہدایت دینے والا
119 مُنِیرُ روشن کرنے والا 120 مُشِیرُ مشورہ دینے والا 121 اَلوَاقِعُ قائم 122 اَلوَقِیعُ بھاری بھرکم
123 اَمِینُ امانت دار 124 صَادِقُ سچّا 125 جَوَّادُ بہت سخی فیّاض 126 طَیِّبُ پاکیزہ
127 طَاھِرُ پاک، مقدّس 128 اَلقُدُّوسُ ہر نقص سے پاک 129 کَامِلُ غیر ناقص 130 صُبُّوحٌ پاک
131 مَحمُودٌ بہت قابلِ تعریف 132 حَامِدٌ تعریف کرنے والا 133 شَاھِدٌ حاضر 134 رَاشِدٌ ہدایت بخشنے والا
اسماءِ الٰہیہ کی تعداد گیارہ ہزار ہے
اسماءِ الٰہیہ تین تنزّلات پر منقسم ہیں۔
اوّل ۔۔۔۔۔۔ اسماءِ اِطّلاقیہ
دوئم ۔۔۔۔۔۔ اسماءِ عَینیہ
سوئم ۔۔۔۔۔۔ اسماءِ کَونیہ
اسماءِ اِطّلاقیہ اللہ تعالیٰ کے وہ نام ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے تعارف میں ہیں۔ انسان کا یا مَوجودات کا ان سے براہِ راست کوئی ربط نہیں۔ مثلاً علیم۔ بحیثیت علیم کے اللہ تعالیٰ اپنے علم اور صفاتِ علم سے خود ہی واقف ہیں۔ انسان کا اِدراک یا ذہن کی کوئی پرواز بھی اللہ تعالیٰ کے ’’علیم‘‘ ہونے کے تصوّر کو کسی طرح قائم نہیں کر سکتی۔ علیم کی یہ نوعیت اسمِ اِطّلاقیہ بھی ہے یہاں پر اسمِ اِطّلاقیہ کی دو حیثیتیں قائم ہو جاتی ہیں۔ علیم بحیثیت ذات اور علیم بحیثیت واجبِ باری تعالیٰ۔ علیم بحیثیت ’’ذات‘‘ باری تعالیٰ کی وہ صفَت ہے جس کی نسبت مَوجودات کو حاصل نہیں اور علیم بحیثیت ’’واجب‘‘ باری تعالیٰ کی وہ صفَت ہے جس کی نسبت مَوجودات کو حاصل ہے پہلی نسبت تنزّل اوّل ہے۔
اسماءِ اِطّلاقیہ کی تعداد اہل تصوّف کے نزدیک تقریباً گیارہ ہزار ہے۔ ان گیارہ ہزار اسماءِ اِطّلاقیہ کے ایک رخ کا عکس لطیفۂِ اخَفیٰ اور دوسرے رخ کا عکس لطیفۂِ خَفی کہلاتا ہے۔ اس طرح پہلی نسبت میں ثابِتہ اللہ تعالیٰ کی گیارہ ہزار صفات کا مجموعہ ہے۔ ثابِتہ کا نقش پڑھ کر ایک صاحب اَسرار ان گیارہ ہزار تجلّیوں کے عالمِ مثال کا مشاہدہ کرتا ہے۔
ثابِتہ کو جب علیم کی نسبت دی جاتی ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ مَوجودات اللہ تعالیٰ سے بحیثیت علیم ایک واسطہ رکھتی ہے لیکن یہ واسطہ بحیثیت علیمِ کُل نہیں ہوتا بلکہ بحیثیتِ علیمِ جُزو ہوتا ہے۔ بحیثیت علیم کُل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا اپنا خُصوصی علم ہے چنانچہ ثابِتہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسماء کا علم عطا فرمایا تو اسے علیم کی نسبت حاصل ہو گئی۔ اس ہی علم کو ’’غیبِ اَکوان‘‘ کہتے ہیں۔ اس علم کا حصول علیم کی نسبت کے تحت ہوتا ہے۔
قانون:
اگر انسان خالئُ الذّہن ہو کر اس نسبت کی طرف متوجّہ ہو جائے تو ثابِتہ کی تمام تجلّیات مشاہدہ کر سکتا ہے۔ یہ نسبت دراصل ایک یادداشت ہے۔ اگر کوئی شخص مراقبہ کے ذریعے اس یادداشت کو پڑھنے کی کوشش کرے تو اِدراک، وَرود یا شُہود میں پڑھ سکتا ہے۔ انبیاء اور انبیاء کے وراثت یافتہ گروہ نے تفہیم کے طرز پر اس یادداشت تک رسائی حاصل کی ہے۔
طرزِ تفہیم
طرزِ تفہیم دن رات کے چوبیس گھنٹے میں ایک گھنٹہ، دو گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ ڈھائی گھنٹے سونے اور باقی وقت بیدار رہنے کی عادت ڈال کر حاصل کی جا سکتی ہے۔
طرزِ تفہیم کو اہل تصوّف ’’سَیر‘‘ اور ’’فتح‘‘ کے نام سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ تفہیم کا مراقبہ نصف شب گزرنے کے بعد کرنا چاہئے۔
انسان کی عادت جاگنے کے بعد سونا اور سونے کے بعد جاگنا ہے، وہ دن تقریباً جاگ کر اور رات سو کر گزارتا ہے۔ یہی طریقہ طبیعت کا تقاضا بن جاتا ہے۔ ذہن کا کام دیکھنا ہے۔ وہ یہ کام نگاہ کے ذریعے کرنے کا عادی ہے۔ فی الواقع نگاہ ذہن کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ جاگنے کی حالت میں ذہن اپنے ماحول کی ہر چیز کو دیکھتا، سنتا اور سمجھتا ہے۔ سونے کی حالت میں بھی یہ عمل جاری رہتا ہے البتہ اِس کے نُقوش گہرے یا ہلکے ہوا کرتے ہیں۔ جب نُقوش گہرے ہوتے ہیں تو جاگنے کے بعد حافظ اْن کو دہرا سکتا ہے۔ ہلکے نُقوش حافظہ بھلا دیتا ہے۔ اس لئے ہم اُس پورے ماحول سے واقف نہیں ہوتے جو نیند کی حالت میں ہمارے سامنے ہوتا ہے۔
خواب اور بیداری
روح کی ساخت مسلسل حرکت چاہتی ہے۔ بیداری کی طرح نیند میں بھی انسان کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔ لیکن وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے واقف نہیں ہوتا۔ صرف خواب کی حالت ایسی ہے جس کا اُسے علم ہوتا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ ہم خواب کے علاوہ نیند کی باقی حرکات سے کس طرح مُطّلع ہوں۔ انسان کی ذات نیند میں جو حرکات کرتی ہے اگر حافظہ کسی طرح اِس لائق ہو جائے کہ اُْس کو یاد رکھ سکے تو ہم باقاعدگی سے اس کا ایک ریکارڈ رکھ سکتے ہیں۔ حافظہ کسی نقش کو اُس وقت یاد رکھتا ہے جب وہ گہرا ہو۔ یہ مشاہدہ ہے کہ بیداری کی حالت میں ہم جس چیز کی طرف متوجّہ ہوتے ہیں اُس کو یاد رکھ سکتے ہیں اور جس کی طرف متوجّہ نہیں ہوتے اُسے بھول جاتے ہیں۔ قانونی طور پر جب ہم نیند کی تمام حرکات کو یاد رکھنا چاہیں تو دن رات میں ہمہ وقت نگاہ کو باخبر رکھنے کاہتمام کریں گے۔
یہ اہتمام صرف جاگنے سے ہی ہو سکتا ہے۔ طبیعت اس بات کی عادی ہے کہ آدمی کو سُلا کر ذات کو بیدار کر دیتی ہے۔ پھر ذات کی حرکات شروع ہو جاتی ہیں۔ پہلے پہل تو اس عادت کی خلاف ورزی کرنا طبیعت کے انقَباض کا باعث ہوتا ہے۔ کم سے کم دو دن و رات گزر جانے کے بعد طبیعت میں کچھ بَسط پیدا ہونے لگتا ہے اور ذات کی حرکات شروع ہو جاتی ہیں۔ اوّل اوّل آنکھیں بند کر کے ذات کی حرکات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ مسلسل اِسی طرح کئی ہفتے یا کئی ماہ جاگنے کا اہتمام کرنے کے بعد آنکھیں کھول کر بھی ذات کی حرکات سامنے آنے لگتی ہیں۔ اہل تصوّف بند آنکھوں کی حالت کو وَرود اور کھلی آنکھوں کی حالت کو شُہود کہتے ہیں۔ وَرود یا شُہود میں نگاہ کے دیکھنے کا ذریعہ لطیفۂِ خَفی کا لینس LENS ہوتا ہے اور جو کچھ نظر آتا ہے، جَویَّہ کے اِنطباعات ہوتے ہیں۔ یہ اِنطباعات ثابِتہ کی وہ تجلّیات ہیں جن کا عکس جَویَّہ میں شکل وصورت اور حرکات بن جاتا ہے۔ جب تک یہ تجلّیاں ثابِتہ میں ہیں، غیب ُ الغیب کہلاتی ہیں اور اُن کو علمِ الٰہی بھی کہا جاتا ہے۔ اُن تجلّیوں کے عکس کو اَعیان میں غیب یا اَحکام الٰہی کہتے ہیں۔ پھر ان ہی تجلّیوں کا عکس جَویَّہ کی حد میں داخل ہونے پر وَرود یا شُہود بن جاتا ہے۔لوحِ محفوظ اور مراقبہ ِ
ازل سے ابد تک جو کچھ ہونے والا ہے وہ سارے کا سارا اجتماعی طور پر لوحِ محفوظ پر نقش ہے۔ اگر ہم ازل سے قیامت تک کا تمام پروگرام مطالعہ کرنا چاہیں تو لوحِ محفوظ میں اس کی تَمثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ گویا لوحِ محفوظ پوری مَوجودات کا یکجائی پروگرام ہے۔ اگر ہم کسی ایک فردِ واحد کی حیات کا پروگرام مطالعہ کرنا چاہیں تو لوحِ محفوظ کے علاوہ اس کا نقش فرد کے اَعیان میں دیکھ سکتے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ واجب یا علمِ قلم ازل سے ابد تک کائنات کے علمِ غیب کا ریکارڈ ہے۔ کلیات یا لوحِ محفوظ ازل سے حشر تک کے اَحکامات کا ریکارڈ ہے۔
’’جُو‘‘ ازل سے ابد تک مَوجودات کے اعمال کا ریکارڈ ہے لیکن فرد کے ثابِتہ میں صرف فرد کے اپنے بارے میں علمُ الغیب کا اِندراج ہے۔ فرد کے اَعیان میں صرف اس کے اپنے متعلّق اَحکامات ہیں اور فرد کے جَویَّہ میں صرف اس کے اپنے اعمال کا ریکارڈ ہے۔
تشریح:
علمِ الٰہی کی تجلّی کا جو عکس انسان کے ثابِتہ میں ہے وہ شکل وصورت یعنی تمثُّلات کی زبان میں منقُوش ہوتا ہے۔ یہ تمثُّلات اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں اور رُموز کی تشریح ہوتے ہیں۔ یہ تشریحات لطیفۂِ خَفی کی روشنیوں میں مطالعہ کی جا سکتی ہیں۔ اگر لطیفۂِ خَفی کی روشنیاں استعمال نہ ہوں تو یہ تشریحات نگاہ اور ذہنِ انسانی پر مُنکشِف نہیں ہو سکتیں۔ تفہیم میں مسلسل بیدار رہنے کی وجہ سے لطیفۂِ خَفی کی روشنی بتدریج بڑھتی جاتی ہے۔ اس ہی روشنی میں غیب کے تمام نُقوش نظر آنے لگتے ہیں کیونکہ یہی روشنیاں لطیفۂِ اخَفیٰ سے لطیفۂِ نفسی تک پھیل جاتی ہیں۔ ہم پیشتر ثابتہ کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ ورق اور نقطہ کی وہی حیثیت اَعیان اور جَویَّہ کی بھی ہے۔
صاحب اَسرار لطیفۂِ خَفی کی روشنی میں ثابِتہ کی تجلّیات کو، صاحب تفصیل لطیفۂِ روحی کی روشنی میں اَعیان کے اَحکام کو اور صاحب اَجمال لطیفۂِ نفسی کی روشنی میں جَویَّہ کے اعمال کو پڑھ سکتا ہے۔ جو تعلّق لطیفۂِ خَفی کا اخَفیٰ کی تجلّیات سے ہے وہی تعلّق لطیفۂِ روحی کا لطیفۂِ سری کے اَحکامات سے ہے اور وہی تعلّق لطیفۂِ نفسی کا لطیفۂِ قلبی کے اعمال سے ہے۔
ہم بتا چکے ہیں کہ لطیفۂِ سری میں کسی فرد کے متعلّق اَحکام لوحِ محفوظ کے تمثُّلات کی شکل میں محفوظ ہوتے ہیں۔ یہ اَحکام لطیفۂِ روحی کی روشنی میں مطالعہ کئے جا سکتے ہیں۔ مراقبہ سے لطیفۂِ روحی کی روشنیاں اتنی تیز ہو جاتی ہیں کہ ان کے ذریعے لوحِ محفوظ کے اَحکامات پڑھے جا سکتے ہیں۔
لطیفۂِ قلبی میں انسان کے تمام اعمال کا ریکارڈ رہتا ہے۔ اس ریکارڈ کو لطیفۂِ نفسی کی روشنی میں پڑھا جا سکتا ہے۔ مراقبہ کے ذریعے لطیفۂِ نفسی کی روشنی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کے ذریعے عالمِ تَمثال یعنی ’’جُو‘‘ کے اندر گزرے ہوئے اور ہونے والے تمام اعمال کی تَمثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
تدلّٰی
تدلّٰی اللہ تعالیٰ کی ان مجموعی صفات کا نام ہے جن کا عکس انسان کے ثابِتہ کو حاصل ہے۔ قرآنِ پاک میں جس نیابت کا تذکرہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے علمُ الاسماء کی حیثیت میں جو علم آدم کو تفویض کیا تھا اس کے اَوصاف اور اِختیار کے شعبے تدلّٰی ہی کی شکل میں وُجود رکھتے ہیں۔ کوئی شخص اگر اپنی نیابت کے اِختیارات کو سمجھنا چاہے تو اسے تدلّٰی کے اَجزاء کی پوری معلومات فراہم کرنا پڑیں گی۔
پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی ایک صفَت کا نام ہوتا ہے اور وہ صفَت جُزوی طور پر اللہ تعالیٰ کے نائب یعنی انسان کو ازل میں حاصل ہوئی تھی۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا ایک نام ہے ’’رحیم‘‘۔ اس کی صفَت ہے تخلیق یعنی پیدا کرنا۔ چنانچہ پیدائش کی جس قدر طرزیں مَوجودات میں استعمال ہوئی ہیں ان سب کا مُحرِّک اور خالق ’’رحیم‘‘ ہے۔ اگر کوئی شخص رحیم کی جُزوی صفَت کا فائدہ اٹھانا چاہے تو اس کو اسمِ رحیم کی صفَت کا زیادہ سے زیادہ ذخیرہ اپنے باطن میں کرنا ہو گا۔ اس کا طریقہ بھی مراقبہ ہے۔ ایک وقت مقرّر کر کے سالک کو اپنی فکر کے اندر یہ محسوس کرنا چاہئے کہ اس کی ذات کو اللہ تعالیٰ کی صفَت رحیمی کا ایک جُزو حاصل ہے۔
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے جہاں عیسیٰ علیہ السّلام کے معجزات کا تذکرہ کیا ہے، وہاں یہ بتایا ہے کہ میں نے عیسیٰ کو روح پھونکنے کا وصف بخشا ہے۔ یہ وصف میری طرف سے منتقل ہوا اور اس کے نتائج میں نے عطا کئے۔
وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي ۖ (سورۂ مائدہ۔ آیت۱۱۰)
ترجمہ:
اور جب تو بناتا مٹی سے جانور کی صورت میرے حکم سے، پھر دم مارتا اس میں تو ہو جاتا جانور میرے حکم سے، اور چنگا کرتا ماں کے پیٹ کا اندھا اور کوڑھی کو میرے حکم سے، اور جب نکال کھڑے کرتا مُردے میرے حکم سے۔
الفاظ کے معانی میں اسمِ رحیم کی صفَت موجود ہے۔کُن فیَکون
جب اللہ تعالیٰ نے کائنات بنائی اور لفظ کُن فرمایا، اس وقت اسمِ رحیم کی قوّتِ تصرف نے حرکت میں آکر کائنات کے تمام اَجزاء اور ذرّات کو شکل وصورت بخشی۔ جس وقت تک لفظ رحیم اسمِ اِطّلاقیہ کی حیثیت میں تھا اس وقت تک اس کی صفَت صرف علم کی حیثیت رکھتی تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ نے لفظ کُن فرمایا تو رحیم اسمِ اِطّلاقیہ سے تنزّل کر کے اسمِ عَینیہ کی حدوں میں داخل ہو گیا اور رحیم کی صفَت علم میں حرکت پیدا ہو گئی جس کے بعد حرکت کی صفَت کے تعلّق سے لفظ رحیم کا نام اسمِ عَینیہ قرار پایا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مَوجودات کو خطاب فرمایا۔
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ
(پہچان لو، میں تمہارا رب ہوں)
روحوں نے جواباً کہا ۔۔۔۔۔۔ بَلٰی
(جی ہاں، ہم نے پہچان لیا)
جب روحوں نے رب ہونے کا اعتراف کر لیا تو اسمِ رحیم کی حیثیت اسمِ عَینیہ سے تنزّل کر کے اسمِ کَونیہ ہو گئی۔
تصوّف کی زبان میں اسمِ اِطّلاقیہ کی حدود صفَت تدلّٰی کہلاتی ہے۔ اسمِ عَینیہ کی صفَت اِبداء کہلاتی ہے او راسمِ کَونیہ کی صفَت خلق کہلاتی ہے۔ اسمِ کَونیہ کی صفَت کے مظہر کو تدبیر کہا جاتا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں عیسیٰ علیہ السّلام کے روح پھونکنے کا بیان کیا ہے وہاں اسمِ رحیم کی ان تینوں صفات کا اشارہ فرمایا ہے اور تیسری صفَت کے مظہر کو روح پھونکنے کا نام دیا ہے۔
یہاں پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان کو ثابِتہ کی حیثیت میں اسمِ رحیم کی صفَت تدلّٰی حاصل ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اس وصف سے مردوں کو زندہ کرنے یا کسی شئے کو تخلیق کرنے کا کام سر انجام دے سکتا ہے۔
پھر اس ہی اسمِ رحیم کا تنزّل صفَت عَینیہ کی صورت میں اَعیان کے اندر موجود ہے جس کے تصرفات کی صلاحیّتیں انسان کو پوری طرح حاصل ہیں۔ اسمِ رحیم کی صفَت کَونیہ انسان کے جَویَّہ میں پیوست ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس صفَت کے استعمال کا حق بھی حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی مثال دے کر اس نعمت کی وضاحت کر دی ہے۔ اگر کوئی انسان اس صفَت کی صلاحیّت کو استعمال کرنا چاہے تو اسے اپنے ثابِتہ، اپنے اَعیان اور اپنے جَویَّہ میں مراقبہ کے ذریعے اس فکر کو مستحکم کرنا پڑے گا کہ میری ذات اسمِ رحیم کی صفات سے تعلّق رکھتی ہے۔ اس فکر کی مشق کے دوران میں وہ اس بات کا مشاہدہ کرے گا کہ اُس کے ثابِتہ، اُس کے اَعیان اور اُس کے جَویَّہ سے اسمِ رحیم کی صفَت روح بن کر اُس مُردہ میں منتقل ہو رہی ہے جس کو وہ زندہ کرنا چاہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مَوجودات کی جس قدر شکلیں اور صورتیں ہیں وہ سب کی سب اسمِ رحیم کی صفات کا نُوری مجموعہ ہیں۔ یہ مجموعہ انسان کی روح کو حاصل ہے۔ اس شکل میں انسان کی روح ایک حد میں صاحبِ تدلّٰی، ایک حد میں صاحبِ اِبداء اور ایک حد میں صاحبِ خلق ہے جس وقت وہ فکر کی پوری مشق حاصل کرنے کے بعد اسمِ رحیم کی اس صفَت کو خود سے الگ شکل و صورت دینے کا ارادہ کرے گا تو صفَت تدلّٰی کے تحت اس کا یہ اِختیار حرکت میں آئے گا۔ صفَت اِبداء کے تحت ہدایت حرکت میں آئے گی اور صفَت خلق کے تحت تکوین حرکت میں آئے گی۔ اور ان تینوں صفات کا مظہر اُس ذی روح کی شکل وصورت اِختیار کرے گا جس کو وُجود میں لانا مقصود ہے۔
ترکیب:
صفَت تدلّٰی (اِختیارِ الٰہیہ) (ثابِتہ) +صفَت اِبداءِ الٰہیہ (عین) (کسی چیز کی کامل شکل وصورت) + صفَت خلق الٰہیہ (جَویَّہ) (حرکات و سکنات زندگی)=مظہر (وُجودناسُوتی)
ہماری دنیا کے مشاہدات یہ ہیں کہ پہلے ہم کسی چیز کے متعلّق معلومات حاصل کرتے ہیں۔ اگر کبھی اتفاقیہ ایسا ہوا ہے کہ ہمیں کسی چیز کے متعلّق کوئی معلومات نہیں اور وہ اچانک آنکھوں کے سامنے آ گئی ہے تو ہم اس چیز کو بالکل نہیں دیکھ سکتے۔
مثال نمبر 1:
لکڑی کے ایک فریم میں ایک تصویر لگا کر بہت شفاف آئینہ تصویر کی سطح پر رکھ دیا جائے اور کسی شخص کو فاصلے پر کھڑا کر کے امتحاناً یہ پوچھا جائے کہ بتاؤ تمہاری آنکھوں کے سامنے کیا ہے تو اس کی نگاہ صرف تصویر کو دیکھے گی۔ شفاف ہونے کی وجہ سے آئینہ کو نہیں دیکھ سکے گی۔ اگر اس شخص کو یہ بتا دیا جائے کہ آئینہ میں تصویر لگی ہوئی ہے تو پہلے اس کی نگاہ آئینہ کو دیکھے گی، پھر تصویر کو دیکھے گی۔ پہلی شکل میں اگرچہ دیکھنے والے کی نگاہ آئینہ میں سے گزر کر تصویر تک پہنچی تھی لیکن اس نے آئینہ کو محسوس نہیں کیا۔ البتہ معلومات ہونے کے بعد دوسری شکل میں کوئی شخص پہلے آئینہ کو دیکھتا ہے اور پھر تصویر کو۔ یہ مثال نگاہ کی ہے۔
مثال نمبر 2:
ہیروشیما کی ایک پہاڑی جو ایٹم بم سے فنا ہو چکی تھی، لوگوں کو دُور سے اپنی شکل وصورت میں نظر آتی تھی لیکن جب اس کو چھو کر دیکھا گیا تو دھوئیں کے اثرات بھی نہیں پائے گئے۔ اس تجربہ سے معلوم ہو گیا کہ صرف دیکھنے والوں کا علم نظر کا کام کر رہا تھا۔
مثال نمبر3:
عام مشاہدہ ہے کہ گونگے بہرے دیکھ تو سکتے ہیں لیکن نہ بول سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں۔ نہ بولنا اور نہ سننا اس امر کی دلیل ہے کہ ان کا علم صرف نگاہ تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، یعنی ان کی نگاہ علم کی قائم مقام تو بن جاتی ہے لیکن دیکھی ہوئی چیزوں کی تشریح نہیں کر سکتی۔ ان کی وہ صلاحیّتیں جو علم کو سننے اور بولنے کی شکل وصورت دیتی ہیں معدوم ہیں۔ اس لئے ان کا علم صرف نگاہ تک محدود رہتا ہے۔ یہاں سے علم کے بتدریج مختلف شکلیں اِختیار کرنے کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی ہزاروں مثالیں مل سکتی ہیں۔ چنانچہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کسی چیز کا علم نہ ہو تو نگاہ صِفر کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا علم کو ہر صورت میں اوّلیت حاصل ہے اور باقی محسوسات کو ثانویّت۔
قانون:
ہر احساس خواہ بصر ہو، سمع ہو یا لمس ہو وہ علم ہی کی ایک شاخ ہے۔ علم ہی اس کی بنیاد ہے۔ علم کے بغیر تمام احساسات نفی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اگر کسی چیز کا علم نہیں ہے تو نہ اس چیز کا دیکھنا ممکن ہے نہ سننا ممکن ہے۔ بالفاظ دیگر کسی چیز کا علم ہی اس کا وُجود ہے۔ اگر ہمیں کسی چیز کی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں تو ہمارے نزدیک وہ چیز معدوم ہے۔
قاعدہ:
جب علم ہر احساس کی بنیاد ہے تو علم ہی بصر ہے، علم ہی سمع ہے، علم ہی کلام ہے اور علم ہی لمس ہے یعنی کسی انسان کا تمام کردار صرف علم ہے۔
کُلیہ:
علم اورصرف علم ہی مَوجودات ہے۔ علم سے زیادہ مَوجودات کی کوئی حیثیت نہیں۔
حقیقت:
علم حقیقت ہے اور عدَم علم لاموجود ہے۔ اسماءِ صفات ہی مَوجودات ہیں۔ صفَت کی پہلی موجودگی کا نام اِطّلاق، دوسری موجودگی کا نام عین، تیسری موجودگی کا نام کَون ہے اور ان تینوں موجودگیوں کا نام مظہر یا وُجود ہے۔
تشریح:
علم اِطّلاق، علم عین اور علم کون کے یکجا ہونے کا نام وُجود یا مظہر ہے۔
بصر = اِطّلاق + عین + کَون = علم = وجود
سمع = اِطّلاق + عین + کَون = علم = وجود
کلام = اِطّلاق + عین + کَون = علم = وجود
شامّہ = اِطّلاق + عین + کَون = علم = وجود
لمس = اِطّلاق + عین + کَون = علم = وجود
بصر،سمع،کلام،شامّہ اور لمس = وُجود = علم
اوپر بیان کئے ہوئے حقائق کے تحت وُجود صرف اسماءِ الٰہیہ کی صفات کا عکس ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہر اسم اللہ تعالیٰ کی صفَت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر صفَت اللہ تعالیٰ کا علم ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم کے تین عکس ہیں۔
① اِطّلاق
② عین، اور
③ کَون۔
ان تینوں عکسوں کا مجموعہ ہی مظہر یا وُجود ہے۔ دراصل کسی بھی وُجود یا مظہر کی بنیاد اسماءِ الٰہیہ کی صفات ہیں اور اسماءِ الٰہیہ کے چھ تنزّلات سے کائنات عالم وُجود میں آئی۔ اسم کا تنزّل صفَت، صفَت کا تنزّل علم۔ علم نے جب نزول کیا تو اس کے تین عکس وُجود میں آئے۔ اِطّلاق، عین اور کَون۔ ان تینوں عکسوں نے جب تنزّل کیا تو مظہر یا وُجود بن گیا۔ وُجود کی تشریح اوپر گزر چکی ہے اور یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ وُجود صرف علم ہے۔ جب صفات کا عکس وُجود ہے تو صفات کا عکس ہی علم ہوا۔ کیونکہ اسم صفَت ہے، اس لئے اسم کا تعلّق براہِ راست علم سے ثابت ہو جاتا ہے۔ جب اسم تنزّل کرے گا تو علم بن جائے گا اور علم ہی اپنی شکل و صورت میں مظہرِ کَونیہ ہو گا۔ یہ وہی اسماء ہیں جن کا تذکرہ قرآنِ پاک میں ہے۔
علمِ لدُنّی
ان ہی اسماء کا علم آدم علیہ السّلام کو دیا گیا تھا۔ ان ہی اسماء کا علم نیابت کی وُدیعت ہے۔ ان ہی اسماء کے علم کو تصوّف کی زبان میں علمِ لدُنّی کہتے ہیں۔
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا
جب اللہ تعالیٰ نے علم کی تقسیم کی تو سب سے پہلے اپنی صفات کے ناموں کا تعارف کرایا۔ ان ہی ناموں کو اسماءِ صفاتی کہا جاتا ہے۔ یہی نام وہ علم ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم کا عکس ہیں۔ صفَت کی تعریف کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفَت کے ساتھ قدرت اور رحمت کی صفات بھی جمع ہیں مثلاً رَبّانیّت کی صفَت کے ساتھ قدرت اور رحمت بھی شریک ہیں یا صمَدیّت کی صفَت کے ساتھ قدرت اور رحمت شامل ہیں۔ اِسی طرح احدیّت کی صفَت کے ساتھ قدرت اور رحمت کی صفَت کا ہونا ضروری ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی کوئی صفَتِ قدرت اور رحمت کے بغیر نہیں۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کو بصیر کہتے ہیں تو اس کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بصیر ہونے کی صفَت میں قادر اور رحیم بھی ہے یعنی اسے بصیر ہونے میں کامل قدرت اور کامل خالقیّت کی اِستطاعت حاصل ہے۔
ہر اسم تین تجلّیوں کا مجموعہ ہے
اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم دراصل ایک تجلّی ہے۔ یہ تجلّی اللہ تعالیٰ کی ایک خاص صفَت کی حامل ہے اور اس تجلّی کے ساتھ صفَتِ قدرت کی تجلّی اور صفَت رحمت کی تجلّی بھی شامل ہے۔ اس طرح ہر صفَت کی تجلّی کے ساتھ دو تجلّیاں اور ہیں۔ گویا ہر اسم مجموعہ ہے تین تجلّیوں کا:
ایک تجلّی صفَتِ اسم کی
دوسری تجلّی صفَتِ قدرت کی
تیسری تجلّی صفَتِ رحمت کی
چنانچہ کسی تجلّی کے نام کو اسم کہتے ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہر اسم مجموعی حیثیت میں دو صفات پر مشتمل ہے۔
ایک خود تجلّی، اور
ایک تجلّی کی صفَت۔
جب ہم اللہ تعالیٰ کا کوئی اسم ذہن میں پڑھتے ہیں یا زبان سے ادا کرتے ہیں تو ایک تجلّی اپنی صفَت کے ساتھ حرکت میں آجاتی ہے۔ اس حرکت کو ہم علم کہتے ہیں جو فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کے علم کا عکس ہے۔ یہ حرکت تین اَجزاء پر مشتمل ہے۔
پہلا جُزو تجلّی ہے جو لطیفۂِ اخَفیٰ کے اندر نزول کرتا ہے۔
دوسرا جُزو اس تجلّی کے وصف کی تشکیل ہے جو لطیفۂِ قلبی میں نزول کرتا ہے۔ اور اس ہی جُزو کا نام نگاہ ہے اور اس ہی جُزو کی کئی حرکات کا نام جو یکے بعد دیگرے لطیفۂِ قلبی ہی میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ گفتار و سماعت، شامّہ اور مُشام ہیں۔ اب یہ شامّہ اور مُشام ایک مزید حرکت کے ذریعے رنگوں کے نقش و نگار بن کر لطیفۂِ نفسی کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ لطیفۂِ قلبی اور لطیفۂِ نفسی کی یہی درمیانی کشش عمل یا نتیجہ ہے۔
اِسی طرح روح تین حرکتیں کرتی ہے جو بیک وقت صادِر ہوتی ہیں۔ پہلی حرکت کسی چیز کا جاننا جس کا نزول لطیفۂِ اخَفیٰ میں ہوتا ہے۔ دوسری حرکت محسوس کرنا جس کا نزول لطیفۂِ سری میں ہوتا ہے۔ تیسری حرکت خواہش اور عمل جس کا نزول لطیفۂِ قلبی اور لطیفۂِ نفسی میں ہوتا ہے۔ ہر حرکت ثابِتہ سے شروع ہو کر جَویَّہ پر ختم ہو جاتی ہے۔ جیسے ہی ثابِتہ کے لطیفۂِ اخَفیٰ میں جاننا وقوع پذیر ہُوا، لطیفۂِ خَفی نے اس کو ریکارڈ کر لیا۔ پھر جیسے ہی عین کے لطیفۂِ سری میں محسوس کرنا وقوع پذیر ہوا، لطیفۂِ روحی نے اس کو ریکارڈکر لیا۔ پھر جَویَّہ کے لطیفۂِ قلبی میں اس کا عمل وقوع پذیر ہوا اور لطیفۂِ نفسی نے اس کو ریکارڈ کر لیا۔ ثابِتہ نے جانا، اَعیان نے محسوس کیا اور جَویَّہ نے عمل کیا۔ یہ تینوں حرکات بیک وقت شروع ہوئیں اور بیک وقت ختم ہو گئیں۔ اس طرح زندگی لمحہ بہ لمحہ حرکت میں آتی رہی۔
فرد کی زندگی سے متعلّق علم کی تمام تجلّیاں ثابِتہ میں، فکر کی تمام تجلّیاں اَعیان میں اور عمل کے تمام نُقوش جَویَّہ میں ریکارڈ ہیں۔ عام حالات میں ہماری نظر اس طرف کبھی نہیں جاتی کہ مَوجودات کے تمام اَجسام اور افراد میں ایک مَخفی رشتہ ہے۔ اس رشتہ کی تلاش سوائے اہل روحانیت کے اور کسی قسم کے اہل علم اور اہل فن نہیں کر سکتے حالانکہ اس ہی رشتہ پر کائنات کی زندگی کا انحصار ہے۔ یہی رشتہ تمام آسمانی اجرام اور اجرام کے بسنے والے ذی روح اور غیر ذی روح افراد میں ایک دوسرے کے تعارف کا باعث ہے۔
ہماری نگاہ جب کسی ستارے پر پڑتی ہے تو ہم اپنی نگاہ کے ذریعے ستارے کے بشریٰ کو محسوس کرتے ہیں۔ ستارے کا بشریٰ کبھی ہماری نگاہ کو اپنے نظارے سے نہیں روکتا۔ وہ کبھی نہیں کہتا کہ مجھے نہ دیکھو! اگر کوئی مَخفی رشتہ موجود نہ ہوتا تو ہر ستارہ اور ہر آسمانی نظارہ ہماری زندگی کو قبول کرنے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور پیدا کرتا۔ یہی مَخفی رشتہ کائنات کے پورے افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کئے ہوئے ہے۔
یہاں اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ تمام کائنات ایک ہی ہستی کی ملکیت ہے۔ اگر کائنات کے مختلف اَجسام مختلف ہستیوں کی ملکیت ہوتے تو یقیناً ایک دوسرے کی رُوشناسی میں تصادم پیدا ہو جاتا۔ ایک ہستی کی ملکیت دوسری ہستی کی ملکیت سے متعارف ہونا ہرگز پسند نہ کرتی۔ قرآنِ پاک نے اس ہی مالک ہستی کا تعارف لفظ ’’اللہ‘‘ سے کرایا ہے۔ اسماءِ مقدسہ میں یہی لفظ اللہ اسمِ ذات ہے۔
اسمِ ذات مالکانہ حقوق رکھنے والی ہستی کا نام ہے اور اسم صفات قادرانہ حقوق رکھنے والی ہستی کا نام ہے۔ اوپر کی سطروں میں اللہ تعالیٰ کی دونوں صفات… رحمت اور قدرت کا تذکرہ ہوا ہے۔ ہر اسم قادرانہ صفَت رکھتا ہے اور اسمِ ذات مالکانہ یعنی خالقیّت کے حقوق کا حامل ہے۔ اس کو تصوّف کی زبان میں رحمت کہتے ہیں۔ چنانچہ ہر صفَت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قادرانہ اور رحیمانہ وصف لازم آتا ہے یہی دواَوصاف ہیں جو مَوجودات کے تمام افراد کے درمیان مَخفی رشتہ کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی سورج کی روشنی اہل زمین کی خدمت گزاری سے اس لئے نہیں انکار کر سکتی کہ اہل زمین اور سورج ایک ہی ہستی کی ملکیت ہیں۔ وہ ہستی مالکانہ حقوق میں حاکمانہ قدرتوں سے مُتّصِف بھی ہے اور اس کی رحمت اور قدرت کسی وقت بھی اس بات کو گوارا نہیں کرتی کہ اس کی ملکیتیں ایک دوسرے کے وُقوف سے منکر ہو جائیں کیونکہ ایسا ہونے سے اس کی قدرت پر حرف آتا ہے۔ اس طرح ہر نقطۂِ تخلیق پر اللہ تعالیٰ کے دو اَوصاف رحمت اور قدرت کا مسلط ہونا لازم ہے چنانچہ یہی دونوں اَوصاف افرادِ کائنات کا باہمی رشتہ ہیں۔
اب یہ حقیقت مُنکشِف ہو جاتی ہے کہ نظامِ کائنات کے قیام، ترتیب اور تدوین پر اللہ تعالیٰ کے دو اسماء کی حکمرانی ہے۔ ایک اسم اللہ اور دوسرا اسم قدیر۔ تمام اسماءِ صفَت میں سے ہر اسم ان دونوں اسماء کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو افرادِ کائنات ایک دوسرے سے رُوشناس نہیں رہ سکتے تھے اور نہ ان سے ایک دوسرے کی خدمت گزاری ممکن تھی۔
اسمِ ذات
اب ہم لفظ اللہ یعنی اسمِ ذات کے موضوعات کا تذکرہ کرینگے۔
اللہ کا الف احدیّت کے تمام دائروں کی تجلّی کا نام ہے۔ احدیّت کی تجلّی سے مراد تخلیق کی وہ ساخت ہے جو تنزّلِ ذات یعنی واجب کے انوار ہیں۔ مَوجودات میں یہ انوار نہرِ تسوید کے ذریعے منتشر ہوتے ہیں۔ یہی نہرِ تسوید ہر ثابِتہ کے لطیفۂِ اخَفیٰ کو سیراب کرتی ہے۔ اس طرح ہر لطیفۂِ اخَفیٰ ایک دوسرے سے متعارف اور رُوشناس ہے۔ کائنات کے ان ذی روح افراد میں جن میں لطیفۂِ اخَفیٰ موجود ہے وہ سب کے سب نہرِ تسوید کے ذریعے اس مَخفی رشتہ میں ایک دوسرے سے منسلک اور ایک دوسرے سے رُوشناس ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کے ذریعے ہم مَوجودات کی ہر چیز کو جانتے ہیں۔ نہرِ تسوید کے لطیف انوار ہی وہ شعاعیں ہیں جو انسان، جنّات اور ذی روح افراد کے حافظے کا کام دیتی ہیں۔ ان ہی شعاعوں میں مَوجودات کا پورا ثبت (ریکارڈ) ہے۔ جب ہم کسی چیز کو یاد کرنا یا جاننا چاہتے ہیں تو یہی شعاعیں حرکت کر کے اَعیان اور اَعیان سے جَویَّہ میں منتقل ہو کر ہمارا شعور بنتی ہیں۔ اور ہم کسی بھولی ہوئی چیز کو یا جانی ہوئی چیز کو اپنے شعور میں محسوس کر لیتے ہیں۔ اس حقیقت کے ذریعے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ انسان کے لطیفۂِ اخَفیٰ میں ازل سے ابد تک کی تمام معلومات کا ذخیرہ محفوظ ہے۔ اگر وہ اس ذخیرہ سے اِستفادہ کرنے کی مشق کرے تو مختلف زمانوں کے مختلف واقعات، حادثات اور معلومات اخَفیٰ کی شعاعوں سے فراہم کر سکتا ہے۔
مَوجودات کی زندگی کے تمام اَجزاء وہی ہیں جو کائنات کے وُجود میں آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے علم میں تھے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مَوجودات کے تمام اَجزاء ترکیبی وہی ہو سکتے تھے جو پیشتر سے اللہ تعالیٰ کے ذہن میں موجود تھے۔ ان ہی اَجزاء ترکیبی کا ایک قانون کے تحت مرتّب ہونا بقاء اور حیات کی شکل میں رُونما ہوا۔ اس مفہوم کو زیادہ واضح کرنے کے لئے ایک سوال قائم کرتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں قانون کی کئی حیثیتیں مُنکشِف ہو جائیں گی۔
سوال: حیات کیا ہے؟
جواب: مثلاً اللہ تعالیٰ کے ذہن میں انسان اور انسان کی شکل وصورت اُسی طرح موجود تھی جس طرح انسان بحالت موجودہ پیدا ہو کر بالغ خدّوخال حاصل کر کے ایک عمر تک ایک خاص مظہر کی حیثیت میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اس مثال کی وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ انسان کی ذات ایک حرکت ہے۔ وہ حرکت اللہ تعالیٰ کے حکم سے شروع ہوتی ہے۔ اس حرکت کے ہزاروں اَجزاء ہیں اور ان اَجزاء میں سے ہر چیز ایک حرکت ہے۔ گویا انسان کی ذات لاشمار حرکتوں کا مجموعہ ہے۔ جب انسان نے اپنی زندگی کی پہلی حرکت کی تو اس حرکت کی إبتداء کو الگ اور انتہا کو الگ مظہر بننے کا موقع ملا۔ ابتداءً جو حرکت وقوع میں آئی، وہ خالقیّت کی صفَت کا مظہر تھی۔ وہ حرکت ابتدائی مراحل سے گزر کر تکمیل تک پہنچی۔ پہلا جُزو ابتدائی حرکت اور دوسرا جُزو تکمیل۔ دونوں مل کر حیات انسانی کی ایک تمثیل بنی۔ اس حرکت کے فوراً بعد حیات انسانی کی دوسری حرکت شروع ہو گئی۔ پھر اس کی بھی تکمیل ہوئی۔ یہ دونوں تمثیلیں ہوئیں۔ پہلی تمثیل ایک ریکارڈ تھی اور دوسری تمثیل بھی ایک جداگانہ ریکارڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ پہلی تمثیل کا ریکارڈ اگر محفوظ نہ ہوتا تو زندگی کی پہلی حرکت جو زندگی کا ایک جُزو ہے فنا ہو جاتی۔ اِسی طرح دوسری تمثیل کا ریکارڈ نہ رہتا تو دوسری حرکت فنا ہو جاتی۔ اگر فنائیت کا یہ سلسلہ جاری رہتا تو زندگی کی ہر حرکت جیسے ہی وقوع میں آتی ویسے ہی فنا ہو جایا کرتی۔ اس طرح کسی انسان کی تمام زندگی کی نفی ہو جاتی اور پھر کسی طرح بھی ہم زندگی کو زندگی نہیں کہہ سکتے تھے۔ اس لئے یہ ضروری ہوا کہ زندگی کی ہر حرکت محفوظ رہے۔ زندگی کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کی صفَتِ خالقیّت کے تحت واقع ہوئی ہے یعنی صفَتِ خالقیّت کی حدود میں ظاہر ہوئی۔ اس حرکت کا محفوظ رہنا اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی صفَت میں ممکن تھا جو احاطہ کر سکتی ہو اور حفاظت کی صلاحیّت رکھتی ہو۔ چنانچہ یہ لازم ہو گیا کہ حرکت صفَتِ خالقیّت کے تحت شروع ہوئی تھی اس کی تکمیل صفَتِ قدرت کی حدود میں ہو۔ اب ہر حرکت کے لئے لازم ہو گیا کہ وہ صفَتِ خالقیّت یعنی رحمت کی حدوں میں شروع ہو اور صفَتِ مالکیّت یعنی صفَتِ قدرت کی حدوں میں تکمیل پذیر ہو۔ اس اُصول سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ رحمت اور قدرت کے سائے میں ہی حرکت وُجود پا سکتی تھی۔ ان دونوں صفات کا سہارا لئے بغیر حرکت کا وُجود ناممکن ہے۔
اس بیان سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ زندگی رحمت اور قدرت کا مجموعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جس قدر صفات ہیں ان میں سے ہر صفَت کے ساتھ رحمت اور قدرت کا جذب ہونا یقینی ہے۔
’’الف‘‘ جن انوار کا نام ہے ان کو تصوّف کی زبان میں ’’سِرّ‘‘ کہتے ہیں۔ سِرّ وہ انوار ہیں جو اپنی لطافت کی وجہ سے اعلیٰ ترین شُہود رکھنے والوں کو نظر آتے ہیں۔ یہی وہ انوار ہیں جو نہرِ تسوید کے ذریعے مَوجودات کو سیراب کرتے ہیں۔ ان ہی انوار کے ذریعے سالک اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے۔
نہرِ تجرید، نہرِ تشہید اور نہرِ تظہیر کے انوار معرفتِ ذات تک نہیں پہنچا سکتے۔ ذات کی معرفت حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ سالک ان انوار کی معرفت حاصل کرے جن کا نام الف ہے۔
لوحِ محفوظ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی فرد دوسرے فرد سے رُوشناس ہوتا ہے تو اپنی طبیعت میں اس کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس طرح دو افراد میں ایک فرد اثر ڈالنے والا اور دوسرا فرد اثر قبول کرنے والا ہوتا ہے۔ اِصطلاحاً ہم ان دونوں میں سے ایک کا نام حسّاس اور دوسرے کا نام محسوس رکھتے ہیں۔ حسّاس محسوس کا اثر قبول کرتا ہے اور مغلوب کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً زید جب محمود کو دیکھتا ہے تو محمود کے متعلّق اپنی معلومات کی بناء پر کوئی رائے قائم کرتا ہے۔ یہ رائے محمود کی صفَت ہے جس کو بطورِ احساس زید اپنے اندر قبول کرتا ہے۔ یعنی انسان دوسرے انسان یا کسی چیز کی صفَت سے مغلوب ہو کر اور اس چیز کی صفَت کو قبول کر کے اپنی شکست اور محکومیت کا اعتراف کرتا ہے۔ یہاں آ کر انسان، حیوانات، نباتات، جمادات سب کے سب ایک ہی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں اور انسان کی افضیلت گم ہو کر رہ جاتی ہے۔ اب یہ سمجھنا ضروری ہو گیا کہ آخر انسان کی وہ کون سی حیثیت ہے جو اس کی افضلیت کو قائم رکھتی ہے اور اس حیثیت کا حاصل کرنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے۔
انبیاء اس حیثیت کو حاصل کرنے کا اہتمام اس طرح کیا کرتے تھے کہ وہ جب کسی چیز کے متعلّق سوچتے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کوئی رشتہ براہِ راست قائم نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ ان کی طرزِ فکر یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں کا اور ہمارا مالک اللہ تعالیٰ ہے ۔کسی چیز کا رشتہ ہم سے براہِ راست نہیں ہے بلکہ ہم سے ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ رفتہ رفتہ ان کی یہ طرزِ فکر مستحکم ہو جاتی تھی اور ان کا ذہن ایسے رجحانات پیدا کر لیتا تھا کہ جب وہ کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے تھے تو اس چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف خیال جاتا تھا۔ انہیں کسی چیز کی طرف توجہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاً ہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہِ راست کوئی تعلّق نہیں رکھتی۔ اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہے۔
جب ان کی طرزِ فکر یہ ہوتی تھی تو ان کے ذہن کی ہر حرکت میں اللہ تعالیٰ کا احساس ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہی بحیثیت محسوس کے ان کا مخاطب اور مدنظر قرار پاتا تھا اور قانون کی رُو سے اللہ تعالیٰ کی صفات ہی ان کا احساس بنتی تھیں۔ رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کی صفات ان کے ذہن میں ایک مستقل مقام حاصل کر لیتی تھیں یا یوں کہنا چاہئے کہ ان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفات کا قائم مقام بن جاتا تھا۔ یہ مقام حاصل ہونے کے بعد ان کے ذہن کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کی صفات کی حرکت ہوتی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی کوئی حرکت قدرت اور حاکمیت کے وصف سے خالی نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ ان کے ذہن کو یہ قدرت حاصل ہو جاتی تھی کہ وہ اپنے ارادوں کے مطابق مَوجودات کے کسی ذرّہ، کسی فرد اور کسی ہستی کو حرکت میں لا سکتے تھے۔
بسم اللہ شریف کی باطنی تفسیر اس ہی بنیادی سبق پر مبنی ہے۔ اولیاءِ کرام میں اہل نظامت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی ذہن عطا کیا جاتا ہے اور قربِ نوافل والے اولیاءِ کرام اپنی ریاضت اور مجاہدوں کے ذریعے اس ہی ذہن کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
روح کی مرکزیّتیں اور تحریکات
لطائف کا بیان پہلے آ چکا ہے۔ روح کے چھ لطائف دراصل روح کی چھ مرکزیّتیں ہیں جن کو بہت وسعتیں حاصل ہیں۔ ان مرکزیّتوں کی حرکت دن رات کے وقفوں سے یکے بعد دیگرے صادِر ہوتی رہتی ہیں۔ چھ لطیفوں میں سے تین لطیفوں کی حرکت بیداری میں اور باقی تین لطیفوں کی حرکت نیند میں عمل کرتی ہے۔ ان لطیفوں کی حرکات کو ہم مندرجہ ذیل حصّوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
یہ حصّے بیداری یا نیند کے وقفے ہیں۔ بیداری کے وقفوں میں سب سے پہلا وقفہ وہ ہے جب انسان سو کر اٹھتا ہے اور اس کے اوپر نیم بیداری کی حالت طاری ہوتی ہے۔ اس وقفہ میں لطیفۂِ نفسی حرکت کرتا ہے اور اس کی وسعتوں میں جس قدر فکر و عمل کی طرزیں ہیں وہ سب یکجا دَور کرنے لگتی ہیں۔
دوسرا وقفہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب خمار اتر چکتا ہے اور پوری بیداری کی حالت ہوتی ہے۔ اس وقطہ میں لطیفۂِ قلبی کی تمام صلاحیّتیں اپنی وسعتوں میں جنبش کرتی رہتی ہیں۔ یہ وقفہ متوازن طور پر کُلفت و سُرور کی حالت پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس وقفہ میں کُلفت و سُرور کے احساسات متوازن ہوتے ہیں یا کبھی کُلفت کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
بیداری کا تیسرا وقفہ خوشی، وِجدان اور سُرور کی قوّت کے غالب ہونے کا دَور ہے۔ اس وقفہ میں مسلسل لطیفۂِ روحی کی حرکت قائم رہتی ہے۔
بیداری کے ان تینوں وقفوں کے بعد نیند کا پہلا وقفہ شروع ہو جاتا ہے جس کو غُنودگی کہتے ہیں۔ اس حالت میں لطیفۂِ سری حرکت میں رہتا ہے۔ نیند کی دوسری حالت جسے ہلکی نیند کہنا چاہئے۔ لطیفۂِ خَفی کی حرکت کا وقفہ ہوتی ہے۔ نیند کی تیسری حالت میں جب نیند پوری طرح گہری ہو جاتی ہے تو لطیفۂِ اخَفیٰ کی تحریکات صادِر ہوتی ہیں۔ ان تمام حالتوں کے آغاز میں انسان پر سُکوت کی حالت ضرور طاری ہوتی ہے۔ مثلاً جب کوئی شخص سو کر اٹھتا ہے تو آنکھیں کھولنے کے بعد چند لمحے قطعی سُکوت کے ہوتے ہیں اور جب حواس کو رفتہ رفتہ بیدار ہونے کا موقع ملتا ہے تو ابتدائی طور پر حواس میں کچھ نہ کچھ سُکوت ضرور ہوتا ہے۔ اس طرح وِجدانی حالت شروع ہونے سے پہلے انسان کی طبیعت چند لمحوں کے لئے ساکِت ضرور ہوتی ہے۔ جس طرح تینوں بیداری کی حالتیں ابتدائی چند لمحات کے سُکوت سے شروع ہوتی ہیں، اس ہی طرح غُنودگی شروع ہونے کے وقت پہلے حواس پر بہت ہلکا سا سُکوت طاری ہوتا ہے اور چند لمحے گزر جانے کے بعد حواس کا یہ سُکوت بوجھل ہو کر غُنودگی کی صورت اِختیار کر لیتاہے۔ اس کے بعد ابتدائی نیند کے چند ساکِت لمحات سے ہلکی نیند کی شروعات ہوتی ہے پھر گہری نیند کی ساکِت لہریں ذرا سی دیر کے لئے انسانی جسم پرغلبہ حاصل کر لیتی ہیں۔ یہ غلبہ بعد میں گہری نیند بن جاتا ہے۔ اب ہم ہر لطیفہ کی حرکت اور حرکت سے متعلّق حالت کو مختصراً بیان کریں گے۔
لطیفۂ نفسی کی حرکت
جب نیند سے آنکھ کھلتی ہے تو سب سے پہلی حرکت پلک جھپکنے کی ہوتی ہے۔ پلک جھپکنے کا عمل باصرہ(نگاہ) کو حرکت دیتا ہے۔ باصرہ یا نگاہ ایسی حالت ہے جو کسی چیز سے واقف ہونے کی تصدیق کرتی ہے، اس طرح کہ وہ چیز فی الوقت موجود ہے یعنی ایک تو کسی چیز کا ذہنی طور پر وُقوف حاصل ہے۔ یہ عمل تو حافظہ سے تعلّق رکھنے والی بات ہے لیکن جب حافظہ اپنی یادداشت کو تازہ کرنا چاہتا ہے یا کوئی بیرونی محسوس حافظہ میں کسی یادداشت کو بیدار کرتا ہے اس وقت باصرہ جو پلک کے مسلسل عمل سے اس وُقوف کے خدّوخال اور شکل وصورت دیکھنے کے لائق ہو چکی ہے۔ اس کے سامنے ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ پلک جھپکنے کا یہ عمل اس ہی وقت شروع ہوتا ہے جب لطیفۂِ نفسی حرکت میں آ چکا ہو۔ لطیفۂِ نفسی کی حرکت کسی چیز کی طرف رجحان پیدا کرنے کی إبتداء کرتی ہے۔ لطیفۂِ نفسی کے متحرّک ہونے پر انسان کی لطیف حِس یعنی نگاہ رجحانِ طبیعت کی إبتداء کرتی ہے۔ آنکھ کھلتے ہی لاشعوری طور پر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ سمجھے کہ ارد گرد میں کیا چیزیں موجود ہیں اور ماحول میں کس قسم کے خدّوخال پائے جاتے ہیں۔ وہ ان سب کی معلومات چاہتا ہے اور معلومات اس طرح کی جو مصدّقہ ہوں۔ بغیر اِس کے کہ جب تک انسان کے اپنے احساسات میں کوئی حِس موجود چیزوں کی تصدیق کرنے والی نہ ہو وہ مطمئن نہیں ہوتا۔ چنانچہ سب سے پہلے اس کی نگاہ یہ کام انجام دیتی ہے۔ آنکھیں بند ہونے کی صورت میں نگاہ کا کام معطّل تھا۔ پلک جھپکنے سے وہ تعطّل ختم ہو گیا اور بصارت کام کرنے لگی۔
قانون:
تخلیط کے قوانین میں سے ایک قانون یہ ہے کہ جب تک آنکھوں کے پردے حرکت نہ کریں اور آنکھوں کے ڈیلوں پر ضرب نہ لگائیں، آنکھ کے اعصاب کام نہیں کرتے۔ ان اعصاب کی حِسیں اُس وقت کام کرتی ہیں جب اُن کے اوپر آنکھ کے پردوں کی ضرب پڑتی ہے۔ اُصول یہ ہوا کہ بند آنکھیں جیسے ہی کھلتی ہیں پہلے دو تین لمحوں کے لئے کھل کر ساکِت ہو جاتی ہیں۔ یہ سُکوت لطیفۂِ اخَفیٰ کی حرکت کو ختم کرتا ہے جس کے بعد فوراً جیسے ہی لطیفۂِ نفسی کی مرکزیّت کو جنبش ہوتی ہے مِیلان، رجحان یا خواہش کی شروعات ہو جاتی ہے مثلاً جاگنے والا اپنے گِردو پیش کو جاننا چاہتا ہے اور اپنے ماحول کو سمجھنے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ یہ لطیفۂِ نفسی کی پہلی حرکت ہے۔ اس مِیلان یا خواہش کے بعد اور خواہشات مسلسل اور یکے بعد دیگرے پیدا ہو جاتی ہیں۔ جب تک لطیفۂِ نفسی کی حرکت بند نہ ہو یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور بصارت کی طرح جسمِ انسانی کی تمام حِسیں پیدا شدہ خواہشات کی تائید، تصدیق اور تکمیل میں لگی رہتی ہیں۔ اگر لطیفۂِ نفسی کی روشنی کسی طرف مِیلان کرتی ہے تو انسان کے تمام محسوسات اپنے دروازے اس ہی طرف کھول دیتے ہیں۔ حسّیات میں سب سے زیادہ لطیف حِس بصارت ہے جو سب سے پہلے لطیفۂِ نفسی کی روشنی سے متاثر ہوتی ہے۔ یہ روشنی انسان کو ابتداءً عالمِ خیال سے رُوشناس کراتی ہے۔ اس عالم میں ذہن دو قسم کے تصوّرات پیش کرتا ہے۔ ایک قسم وہ ہے جو معنوی تصوّرات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور دوسری قسم تصویری تصوّرات ہوتے ہیں۔ معنوی تصوّرات سے یہ مراد نہیں ہے کہ ذہنِ انسانی میں کوئی معنی بغیر خدّوخال یا شکل وصورت کے آ سکتے ہیں۔ معانی کی نوعیت چاہے وہ کتنی ہی لطیف ہو شکل وصورت اور خدّوخال پر مبنی ہوتی ہے۔ پہلے پہل جب قوّتِ باصرہ حرکت کرتی ہے تو نگاہ خارج کی چیز کو داخل میں اور داخل کی چیزوں کو خارج میں دیکھتی ہے۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے آئینہ کی مثال دی جا سکتی ہے۔
مثال:
آئینہ کی مثال کی ایک طرز ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ دوسری طرز یہ ہے کہ آئینہ دیکھنے والی نگاہ کو خَیرہ کر لیتا ہے اور اُس کی تمثیل کو جو اُس کے سامنے ہے نگاہ پر مُنکشِف کر دیتا ہے۔
یہ وہ دیکھتا ہے جو داخل سے خارج میں آ کر منظر کی شکل اِختیار کرتا ہے۔ اس کے برخلاف جب دیکھنے کا عمل خارج سے داخل میں ہوتا ہے تو کوئی ’’مُھیِّج‘‘(جو چیز کسی حِس کے ذریعے ذہنِ انسانی کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے اس کو ’’مُھیِّج‘‘ کہتے ہیں) نگاہ کے سامنے آ کر خود نگاہ کو آئینہ کی حیثیت قرار دیتا ہے اور اپنے خدّوخال سے ذہنِ انسانی کو اطّلاع بخشتا ہے۔ جب ان دونوں زاویوں میں نظر ِتحقیق کی جائے تو یہ بات مُنکشِف ہو جاتی ہے کہ ذہنِ انسانی ہر حالت میں آئینہ کا کام انجام دیتا ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے روحِ انسانی اپنے تصوّرات کو تجسّم کی شکل وصورت میں دیکھتی ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ذہنِ انسانی میں اشیاء کی موجودگی کا لامُتناہی سلسلہ قائم رہتا ہے۔ جس ذہن میں اشیاء کی موجودگی کے سلسلے کا قیام ہے وہ ذہن لطیفۂِ نفسی کے انوار کی تخلیق ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ لطیفۂِ نفسی کی روشنیاں اپنی وسعتوں کے لحاظ سے لامُتناہی حدوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر ان لامُتناہی روشنیوں کی حد بندی کرنا چاہیں تو پوری کائنات کو ان لامحدود روشنیوں میں مُقیّد تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ روشنیاں مَوجودات کی ہر ایک چیز کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان کے احاطے سے باہر کسی وہم، خیال یا تصوّر کا نکل جانا ممکن نہیں۔ تصوّف کی زبان میں روشنیوں کے اس دائرے کو جَویَّہ کہتے ہیں۔ جَویَّہ میں جو کچھ واقع ہوا تھا یا بحالتِ مَوجودہ وقوع میں ہے یا آئندہ واقع ہو گا وہ سب ذاتِ انسانی کی نگاہ کے بالمقابل ہے۔ خارج کے اندر جو کچھ موجود ہے، بیداری میں نگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے۔ اگر نگاہ کی رسائی وہاں تک نہ ہو تو تصوّرات اس کے ہونے کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ اگر تصوّرات کی دسترس بھی وہاں تک نہ ہو تو خیال معنوی خدّوخال میں اُس کو پیش کر دیتا ہے۔ اگر کوئی چیز خیال کی حدوں سے بھی بالاتر ہے تو وہم کسی نہ کسی طرح اس کی موجودگی کا احساس دلا دیتا ہے۔ قانونی طور پر یہ ماننا پڑتا ہے کہ جَویَّہ کی روشنیاں ذاتِ انسانی کو لامُتناہی حدوں تک وسیع کر دیتی ہیں۔
صاحبانِ شُہود نے سُلوک کی راہوں میں نگاہ کو ‘‘جَویَّہ’’ کی تمام وسعتوں میں دیکھنے پر مجبور کیا ہے۔ انبیاءؑ کی تعلیمات میں اس کوشش کا پہلا سبق دن رات کے اندر اکیس گھنٹے بیس منٹ جاگ کر پورا کیا جاتا ہے۔
انبیاءؑ کی تعلیمات یعنی تفہیم کا دوسرا سبق تاریکی میں طویل وقفہ تک بغیر پلک جھپکائے نظر جمانا ہے۔ پہلے عمل کو تَلوین اور دوسرے عمل کو اِسترخاء کہتے ہیں۔
حضرت اُویس قرنیؓ کے مکان پر جب ابن ہشام ملنے کے لئے گئے تو انہیں بہتر گھنٹے یعنی تین دن اور تین راتیں انتظار کرنا پڑا۔ مسلسل بہتر گھنٹے نوافل پڑھنے کے بعد حضرت اُویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا کی:
’’بارالٰہی! میں زیادہ سونے سے اور زیادہ کھانے سے تیری ہی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
ایک صوفی اِس طرح مسلسل بیدار رہ کر اپنے اندر شُہود کی قوّتیں بیدار کر لیتا ہے۔ پہلے اس کا مختصر تذکرہ آ چکا ہے کہ انسان میں ایسی صلاحیّتیں پائی جاتی ہیں جو وقتاً فوقتاً اپنے اَوصاف کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ باصرہ انسان کی ایک حِس ہے۔ یہاں اس کی تخلیق و ترتیب بیان کی جاتی ہے۔
باصرہ اور شُہود نفسی
ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ لطیفۂِ نفسی کی روشنیاں مَوجودات کے ہر ذرّے کا احاطہ کرتی ہیں۔ اس ہی لطیفۂِ نفسی کی ایک شعاع کا نام باصرہ ہے۔ یہ شعاع کائنات کے پورے دائرے میں دور کرتی رہتی ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ تمام کائنات ایک دائرہ ہے اور لطیفۂِ نفسی کی روشنی ایک چراغ ہے۔ اس چراغ کی لو کا نام باصرہ ہے۔ جہاں اس چراغ کی لو کا عکس پڑتا ہے وہاں ارد گرد اور قرب و جوار کو چراغ کی لو دیکھ لیتی ہے۔ اس چراغ کی لو میں جس قدر روشنیاں ہیں ان میں درجہ بندی اور تنوّع پایا جاتا ہے۔ کہیں لَو کی روشنی بہت ہلکی، کہیں ہلکی، کہیں تیز اور کہیں بہت تیز پڑتی ہے۔ جن چیزوں پر لَو کی روشنی بہت ہلکی پڑتی ہے، ہمارے ذہن میں اُن چیزوں کا تُواہُم پیدا ہوتا ہے۔ جن چیزوں پر لَو کی روشنی ہلکی پڑتی ہے، ہمارے ذہن میں اُن چیزوں کا خیال رُونما ہوتا ہے۔ جن چیزوں پر لَو کی روشنی تیز پڑتی ہے، ہمارے ذہن میں اُن چیزوں کا تصوّر جگہ کر لیتا ہے اور جن چیزوں پر لو کی روشنی بہت تیز پڑتی ہے اُن چیزوں تک ہماری نگاہ پہنچ کر اُن کو دیکھ لیتی ہے۔ اس طرح لطیفۂِ نفسی کی روشنیوں کے چار ابتدائی مرحلے ہوتے ہیں۔ اُن میں سے ہر مرحلہ لطیفۂِ نفسی کی روشنیوں کے شُہود کا ایک قدم ہے۔ شُہود کسی روشنی تک خواہ وہ بہت ہلکی ہو یا تیز ہو نگاہ کے پہنچ جانے کا نام ہے۔ شُہود نفسی ایک ایسی صلاحیّت ہے جو ہلکی سی ہلکی روشنی کو نگاہ میں منتقل کر دیتا ہے تا کہ ان چیزوں کو جواب تک محض تُواہُم تھیں خدّوخال، شکل وصورت، رنگ اور روپ کی حیثیت میں دیکھا جا سکے۔
روح کی وہ صلاحیّت جس کا نام شُہود ہے وہم کو، خیال کو یا تصوّر کو نگاہ تک لاتی ہے اور ان کی جزئیات کو نگاہ پر مُنکشِف کر دیتی ہے۔ روح کی یہ صلاحیّت جب لطیفۂِ نفسی کی حدوں میں عَوّد کرتی ہے اور لطیفۂِ نفسی کی روشنیوں میں قانونی اُصول بن کر رُونما ہوتی ہے تو وہ ایسی شرائط پوری کرتی ہے جو بیداری کی حسّیات کا خاصہ ہیں اور ان خاصّوں کے مظہر کا نام شُہود نفسی ہے۔ جن حدوں میں شُہود نفسی عمل کرتا ہے ان حدوں کا نام جَویَّہ ہے۔ ان حدوں کی جزئیات بیداری کا نصبُ العین، بیداری کی حرکتیں، بیداری کا مفہوم اور بیداری کے نتائج پیدا کرتی ہیں۔ یہ مرحلہ شُہود نفسی کا پہلا قدم ہے۔ اس مرحلہ میں سارے اعمال باصرہ یا نگاہ سے تعلّق رکھتے ہیں۔ اس شُہود کی مزید ترقی یافتہ شکلیں وہی حالت پیدا کرتی ہیں جو بیداری کے عالم میں باصرہ کے علاوہ اور چار حسّیات جن کے نام، شامّہ، سماعت، ذائقہ اور لامِسہ ہیں، پیدا کرتی ہیں۔
جب لطیفۂِ نفسی کی روشنیاں مَضروب ہو جاتی ہیں یعنی جب باصرہ کی کسی حِس کا بار بار اعادہ ہوتا ہے تو درجہ بدرجہ باقی حِسیں ترتیب پا جاتی ہیں۔ اس ترتیب کا دارومدار لطیفۂِ نفسی کی روشنیوں کے زیادہ سے زیادہ ہو جانے میں ہے۔ یہ اضافہ زیادہ سے زیادہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص بیداری میں ذہنی رجحانات کو مسلسل ایک ہی نقطہ پر مرکوز کرنے کا عادی ہو جائے۔ اور یہ چیز عملِ اِسترخاء کے پَے در پَے کرنے سے حاصل ہو جاتی ہے۔
عملِ اِسترخاء
لطیفۂِ نفسی کی روشنی میں عملِ اِسترخاء کا پہلا قدم سماعت کا حرکت میں آ جانا ہے۔ یہ قدم انسان یا کسی ذی روح کے اندر کے خیالات کو آواز بنا کر صاحبِ شُہود کی سماعت تک پہنچا دیتا ہے۔ تفہیم کے سبق میں اس شُہود کو تقویت پہنچانے کے لئے کئی مادّی چیزیں بھی استعمال کی جاتی ہیں جن میں سے ایک سیاہ مرچ کا سفوف ہے۔ اس سفوف کو پانی کے ایک دو قطروں کے ذریعے روئی کے چھوٹے سے پھوئے پر لپیٹ کر کانوں کے سوراخوں میں رکھ لیتے ہیں۔ مراقبہ کے وقت بھی اور استرخاء کے وقت بھی۔
عملِ اِسترخاء کا دوسرا قدم یہ ہے کہ لطیفۂِ نفسی کی روشنیاں شامّہ اور لامِسہ کو ترتیب دے سکتی ہیں اور صاحبِ شُہود کسی چیز کو خواہ اس کا فاصلہ لاکھوں برس کی روشنی کے سالوں کا ہو، سونگھ سکتا ہے اور چھو سکتا ہے۔ روشنی کی رفتار فی سیکنڈ دو لاکھ میل سے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ لطیفۂِ نفسی کی روشنیاں بڑھانے میں کئی طرح کی فکریں خاص طور سے کام میں لائی جاتی ہیں۔ شغل اور فکر کی دو ایک مثالیں دینا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
نمبر۱:
الف انوار جن کے تذکرے پر یہ تمام باب مشتمل ہے، اللہ تعالیٰ کی ایک صفَت ہے، ایسی صفَت جس کا تجزیہ ہم ذات انسانی میں کر سکتے ہیں۔ یہی صفَت انسان کا لاشعور ہے۔ عَمومی طرزوں میں لاشعور اعمال کی ایسی بنیادوں کو قرار دیا جاتا ہے جن کا علم عقلِ انسانی کو نہیں ہوتا۔ اگر ہم کسی ایسی بنیاد کی طرف پورے غور و فکر سے مائل ہو جائیں جس کو ہم یا تو نہیں سمجھتےہیں یا سمجھتے ہیں تو اس کی معنویّت اور مفہوم ہمارے ذہن میں صرف ’’لا‘‘ کی ہوتی ہے یعنی ہم اس کو صرف نفی تصوّر کرتے ہیں۔
ہر ابتداء کا قانون لوحِ محفوظ کی عبارتوں میں ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم جب ابتداء کی معنویّت سے بحث کرتے ہیں یا اپنے ذہنی مفہوم میں کسی چیز کی ابتداء کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس وقت ہمارے تصوّر کی گہرائیوں میں صرف ’’لا‘‘ کا مفہوم ہوتا ہے یعنی ہم ابتداء کے پہلے مرحلے میں صرف نفی سے متعارف ہوتے ہیں حالانکہ عقل کی عام قدروں نے اس معانی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ لیکن لوحِ محفوظ کا قانون ہمیں اس حقیقت کو پوری طرح سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس ’’لا‘‘ کا تجزیہ کئے بغیر ہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ہر وہ حقیقت جس سے ہم کسی طرح، چاہے توہماتی طور پر یا خیالاتی طرزوں پر یا تصوّراتی طرز پر رُوشناس ہیں ایک ہستی رکھتی ہے، خواہ وہ ہستی ’’لا‘‘(نفی) یا إثبات ہو۔ جب ہم لوحِ محفوظ کے قانون کی طرزوں کو سمجھ چکے ہوں تو کسی حقیقت کو خواہ وہ نفی ہو یا إثبات ہو ایک ہی تصوّر کی روشنی میں دیکھیں گے۔ جب ہم إثبات کو ’’ہے‘‘ کہتے ہیں یعنی اس کو ایک ہستی سمجھتے ہیں تو نفی کو ’’نہیں ہے‘‘ کہتے ہیں یعنی اس کو بھی ایسی ہستی قرار دیتے ہیں جس کے ہونے کا علم ہمیں حاصل نہیں۔ گویا ہم لاعلمی کا نام نفی رکھتے ہیں اور علم کا نام إثبات۔ جس کا نام ہم إثبات یا علم رکھتے ہیں وہ، بغیر اس کے کہ ہم لاعلمی سے واقفیّت رکھتے ہوں، ہماری شناخت میں نہیں آ سکتا۔ بالفاظ دیگر پہلے ہم نے لاعلمی کو پہچانا، پھر علم کو۔
علم لا اور علم اِلّا
جب ہمیں ایک چیز کی معرفت حاصل ہو گئی، خواہ وہ لاعلمی ہی کی معرفت ہو، بَہرصورت معرفت ہے اور ہر معرفت لوحِ محفوظ کے قانون میں ایک حقیقت ہُوا کرتی ہے۔ پھر بغیر اس کے چارہ نہیں کہ ہم لاعلمی کی معرفت کا نام بھی علم ہی رکھیں۔ اہل تصوّف لا علمی کی معرفت کو علمِ ’’لا‘‘ اور علم کی معرفت کو علمِ ’’اِلّا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دونوں معرفتیں الف انوار کی دو تجلّیاں ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک تجلّی ’’لا‘‘ اور دوسری تجلّی ’’اِلّا‘‘۔
جب کوئی فرد اپنے ذہن میں ان دونوں حقیقتوں کو محفوظ کر لے تو اس کے لئے شُہود کے اَجزاء کو سمجھنا آسان ہے۔ چنانچہ ہر شُہود کے یہی دو اَجزاء ہیں جن میں سے پہلا جُزو یعنی علمِ’’لا‘‘ کو لاشعور کہتے ہیں۔ جب کوئی طالبِ روحانیت لاشعور یعنی علم ’’لا‘‘سے متعارف ہونا چاہتا ہے تو اسے خارجی دنیا کے تمام تُواہَمات، تصوّرات اور خیالات کو بھول جانا پڑتا ہے۔ اُس کو اپنی ذات یعنی اپنے ذہن کی داخلی گہرائیوں میں فکر کرنی چاہئے۔ یہ فکر ایک ایسی حرکت ہے جس کو ہم کسی فکر کی شکل اور صورت میں محدود نہیں کر سکتے۔ ہم اس فکر کو ’’فِکرِ لا‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی ہمارے ذہن میں تھوڑی دیر کے لئے یا زیادہ دیر کے لئے ایسی حالت وارِد ہو جائے جس میں ہر زاویہ لاعلمی کا ہو۔ اس ’’فِکرِ لا‘‘ کو ہم عملِ اِسترخاء کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ عملِ اِسترخاء کے تواتُر سے ذہن کے اندرونی دائرے ہر فکر سے خالی ہو جاتے ہیں۔ گویا اس وقت ذہن ’’فِکرِ لا‘‘میں مُستَغرق ہو جاتا ہے اور اس اِستَغراق میں لاشعور کا شُہود حاصل ہو جاتا ہے۔
’’لا‘‘ کے انوار الٓمّٓ کے انوار کا جُزو ہیں۔ الٓمّٓ کے انوار کو سمجھنے کے لئے لا کے انوار کا تعیّن اور ان کی تحلیل ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ لا کے انوار اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات ہیں جو وحدانیت کا تعارف کراتی ہیں۔ کئی مرتبہ لوگ یہ سوال کر بیٹھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے پہلے کیا تھا؟ ایک صوفی کے یہاں جب سُلوک کا ذہن پوری طرح تربیت پا جاتا ہے اور لا کے انوار کی صفَت سے واقف ہو جاتا ہے تو پھر اس کے ذہن سے اس سوال کا خانہ حذف ہو جاتا ہے کیونکہ صوفی اللہ تعالیٰ کی صفَت لا سے واقف ہونے کے بعد خیال کو بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی سے پہلے بھی کسی موجودگی کا امکان ہے۔ لا کے انوار سے واقف ہونے کے بعد سالک کا ذہن پوری طرح وحدانیت کے تصوّر کو سمجھ لیتا ہے۔ یہی وہ نقطۂِ اوّل ہے جس سے ایک صوفی یا سالک اللہ تعالیٰ کی معرفت میں پہلا قدم رکھتا ہے۔ اس قدم کے حدود اور دائرے میں پہلے پہل اسے اپنی ذات سے رُوشناس ہونے کا موقع ملتا ہے۔ یعنی وہ تلاش کرنے کے باوجود خود کو کہیں نہیں پاتا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا صحیح احساس اور معرفت کا صحیح مفہوم اس کے احساس میں کروٹیں بدلنے لگتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس کو فنائیت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کو بعض لوگ فناءِ الٰہیت بھی کہتے ہیں۔ جب تک کسی سالک کے ذہن میں ’’لا‘‘ کے انوار کی پوری وسعتیں پیدا نہ ہو جائیں وہ اس وقت تک ’’لا‘‘ کے مفہوم یا معرفت سے رُوشناس نہیں ہو سکتا۔ کوئی سالک إبتداء میں ’’لا‘‘ کے انوار کو اپنے اِدراک کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے۔ یہ احساس شعور کی حدوں سے بہت دُور اور بعید تر رہتا ہے۔ اس ہی لئے اس احساس کو شعور سے بالاتر یا لاشعور کہہ سکتے ہیں لیکن فکر کی پرواز اس کو چھو لیتی ہے۔ وہ حالات جو عام طور سے اللہ تعالیٰ کی محبّت کا اِستَغراق پیدا کرتی ہے، سالک کے ذہن میں اُس فکر کو تخلیق کرتی ہے اور تربیت دیتی ہے۔ تفہیم کے اسباق میں پہلا سبق جو جاگنے کا عمل ہے، اُس اِستَغراق کے حصول میں بڑی حد تک معاون ہوتا ہے جب اس سبق کے ذریعے صوفی کا ذہن اِستَغراق کے نقش و نگار کی إبتداء کر چکتا ہے اور اس کے اندر قدرے قوّتِ اَلقاء پیدا ہو جاتی ہے تو اس فکر کی بنیادیں پڑ جاتی ہیں۔ پھر استرخاء کے ذریعے اُس فکر میں حرکت، آب و تاب اور توانائی آنے لگتی ہے۔ جب یہ توانائی نشوونما پا چکتی ہے، اس وقت ’’لا‘‘ کے انوار وَرود میں نگاہِ باطن کے سامنے آنے لگتے ہیں اور پھر ان انوار کا وَرود اس فکر کو اور زیادہ لطیف بنا دیتا ہے، جس سے لاشُہود نفسی کی بناء قائم ہو جاتی ہے۔ اِس ہی لاشُہود کے ذہن میں خضر علیہ السّلام، اولیائے تکوین اور ملائکہ پر نظر پڑنے لگتی ہے اور اُن سے گفتگو کا اتفاق ہونے لگتا ہے۔ اِس ہی لاشُہود نفسی کی ایک صلاحیّت خضر علیہ السّلام، اولیائے تکوین اور ملائکہ کے اشارات و کنایات کا ترجمہ سالک کی زبان میں اس کی سماعت تک پہنچاتی ہے۔ رفتہ رفتہ سوال و جواب کی نوبت آ جاتی ہے اور ملائکہ کے ذریعے غیبی انتظامات کے کتنے ہی انکشافات ہونے لگتے ہیں۔
’’لا‘‘ کے مراقبے میں آنکھوں کے زیادہ سے زیادہ بند رکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔ مناسب ہے کہ کوئی روئیں دار رومال یا کپڑا آنکھوں کے اوپر بطور بندش استعمال کیا جائے۔ بہتر ہو گا کہ کپڑا تولیہ کی طرح روئیں دار ہو یا اس قسم کا تولیہ ہی استعمال کیا جائے۔ جس کا رؤاں لمبا اور نرم ہو۔ لیکن رؤاں باریک نہ ہونا چاہئے۔ بندش میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ آنکھوں کے پپوٹے تولیہ یا کپڑے کے روئیں کی گرفت میں آ جائیں۔ یہ گرفت ڈھیلی نہیں ہونی چاہئے۔ اور نہ اتنی سخت کہ آنکھیں درد محسوس کرنے لگیں۔ منشاء یہ ہے کہ آنکھوں کے پپوٹے تھوڑا سا دباؤ محسوس کرتے رہیں۔ مناسب دباؤ سے آنکھوں کے ڈیلوں کی حرکت بڑی حد تک معطّل ہو جاتی ہے۔ اس تعطّل کی حالت میں جب نگاہ سے کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے تو آنکھ کی باطنی قوّتیں جن کو ہم روحانی آنکھ کی بینائی کہہ سکتے ہیں، حرکت میں آ جاتی ہیں۔
لا کا مراقبہ
مراقبہ کی حالت میں باطنی نگاہ سے کام لینا ہی مقصود ہوتا ہے۔ یہ مقصد اس ہی طرح پورا ہو سکتا ہے کہ آنکھ کے ڈیلوں کو زیادہ سے زیادہ معطّل رکھا جائے۔ آنکھ کے ڈیلوں کے تعطّل میں جس قدر اضافہ ہو گا اس ہی قدر باطنی نگاہ کی حرکت بڑھتی جائے گی۔ دراصل یہی حرکت روح کی روشنی میں دیکھنے کا مِیلان پیدا کرتی ہے۔ آنکھ کے ڈیلوں میں تعطّل ہو جانے سے لطیفۂِ نفسی میں اشتعال ہونے لگتا ہے۔
اور یہ اشتعال باطنی نگاہ کی حرکت کے ساتھ تیز تر ہوتا جاتا ہے جو شُہود میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
مثال:
انسان کے جسم کی ساخت پر غور کرنے سے اس کی حرکتوں کے نتائج اور قانون کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ بیداری میں آنکھوں کے ڈیلوں پر جِلدی غلاف متحرّک رہتا ہے۔ جب یہ غلاف حرکت کرتا ہے تو ڈیلوں پر ہلکی ضرب لگاتا ہے اور آنکھ کو ایک لمحہ کے لئے روشنیوں اور مناظر سے منقطع کر دیتا ہے۔ غلاف کی اس حرکت کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خارجی چیزیں جس قدر ہیں آنکھ اُن سے بالتدریج مُطّلع ہوتی ہے اور جس جس طرح مُطّلع ہوتی جاتی ہے ذہن کو بھی اطّلاع پہنچاتی رہتی ہے۔ اُصول یہ بنا کہ مادّی اشیاء کا احساس ہلکی ضرب کے بعد روشنیوں سے اِنقطاع چاہتا ہے۔ اس اثناء میں وہ ذہن کو بتا دیتا ہے کہ میں نے کیا دیکھا ہے جن چیزوں کو ہم مادّی خدّوخال میں محسوس کرتے ہیں ان چیزوں کے احساس کو بیدار کرنے کے لئے آنکھوں کے مادّی ڈیلے اورغلاف کی مادّی حرکات ضروری ہیں۔ اگر ہم ان ہی چیزوں کی معنوی شکل وصورت کا احساس بیدار کرنا چاہیں تو اس عمل کے خلاف اہتمام کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں آنکھ کو بند کر کے آنکھ کے ڈیلوں کو معطّل اور غیر متحرّک کر دینا ضروری ہے۔ مادّی اشیاء کا احساس مادّی آنکھ میں نگاہ کے ذریعے واقع ہوتا ہے۔ اور جس نگاہ کے ذریعے مادّی احساس کا یہ عمل وقوع میں آتا ہے وہی نگاہ کسی چیز کی معنوی شکل وصورت دیکھنے میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ یا یوں کہیئے کہ نگاہ مادّی حرکات میں اور روحانی حرکات میں ایک مشترک آلہ ہے۔ دیکھنے کا کام بہر صورت نگاہ ہی انجام دیتی ہے۔ جب ہم آنکھوں کے مادّی وسائل کو معطّل کر دیں گے اور نگاہ کو متوجّہ رکھیں گے تو لوحِ محفوظ کے قانون کی رُو سے قوّتِ اَلقاء اپنا کام انجام دینے پر مجبور ہے۔ پھر نگاہ کسی چیز کی معنوی شکل و صورت کو لازمی دیکھے گی۔ اس لئے کہ جب تک نگاہ دیکھنے کا کام انجام نہ دے دے، قوّتِ اَلقاء کے فرائض پورے نہیں ہوتے۔ اس طرح جب ہم کسی معنوی شکل وصورت کو دیکھنا چاہیں، دیکھ سکتے ہیں۔ اہل تصوّف نے اس ہی قسم کے دیکھنے کی مشق کا نام مراقبہ رکھا ہے۔ یہاں ایک اور ضمنی قانون بھی زیر بحث آتا ہے۔ جس طرح لوحِ محفوظ کے قانون کی رُو سے مادّی اور روحانی دونوں مشاہدات میں نگاہ کا کام مشترک ہے ، اس ہی طرح مادّی اور روحانی دونوں صورتوں میں ارادے کا کام بھی مشترک ہے۔ جب ہم آنکھیں کھول کر کسی چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں تو پہلی حرکت ارادہ کرنا ہے یعنی پہلے قوّت اِرادی میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ اس حرکت سے نگاہ اس قابل ہو جاتی ہے کہ خارجی اطّلاعات کو محسوس کر سکے۔ اس ہی طرح جب تک قوّت اِرادی میں حرکت نہ ہو گی معنوی شکل وصورت کی اطّلاعات فراہم نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی شخص عادتاً نگاہ کو معنوی شکل وصورت کے دیکھنے میں استعمال کرنا چاہے تو اسے پہلے پہل ارادے کی حرکت کو معمول بنانا پڑے گا۔ یعنی جب مراقبہ کرنے والا آنکھیں بند کرتا ہے تو سب سے پہلے ارادے میں تعطّل واقع ہوتا ہے۔ اس تعطّل کو حرکت میں تبدیل کرنے کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔ یہ بات مسلسل مشق سے حاصل ہو سکتی ہے۔ جب آنکھ بند کرنے کے باوجود ارادہ میں اضمحلال پیدا نہ ہو اور ارادہ کی حرکت متوسط قوّت سے جاری رہے تو نگاہ کو معنوی شکل و صورت دیکھنے میں تساہل نہ ہو گا اور مَخفی حرکات کی اطّلاعات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ جب ہر قسم کی مشق مکمل ہو چکے گی تو اسے آنکھ کھول کر دیکھنے میں یا آنکھ بند کر کے دیکھنے میں کوئی فرق محسوس نہ ہو گا۔
لوحِ محفوظ کے قانون کی رُو سے قوّتِ اَلقاء جس طرح مادّی اثرات پیدا کرنے کی پابند ہے، اس ہی طرح معنوی خدّوخال کے تخلیق کرنے کی بھی ذمّہ دار ہے۔ جتنا کام کسی شخص کی قوّتِ اَلقاء مادّی قدروں میں کرتی ہے۔ اتنا ہی کام روحانی قدروں میں بھی انجام دیتی ہے ۔ دو آدمیوں کے کام کی مقدار کا فرق ان کی قوّتِ اَلقاء کی مقدار کے فرق کی وجہ سے ہوا کرتا ہے۔
قوّتِ اَلقاء
قوّتِ اَلقاء کی تفصیل یہ ہے کہ صوفی جس کا نام ’’ھُوئیت‘‘ رکھتے ہیں اس کو تفصیلی طور پر ذہن نشین کر لیا جائے۔ دراصل ’’ھُوئیت‘‘ ’’لا‘‘ کی تجلّیات کا مرکز ہے۔ اس مرکزیّت کا تحقّق قوّتِ اَلقاء کی بناء قائم کرتا ہے۔ اس کی شرح یہ ہے کہ ذات کی تجلّیات جب تنزّل کر کے ’’واجب‘‘ کی اِنطباعیت میں منتقل ہوتی ہیں تو مَوجودات کے بارے میں علمِ الٰہی کا عَرف تخلیق پا جاتا ہے۔ یہ پہلا تنزّل ہے۔ اس چیز کا تذکرہ ہم نے پہلے ’’علمُ القلم‘‘ کے نام سے بھی کیا ہے۔ یہ تجلّیات ایسے اَسرار ہیں جو مشئیّت ایزدی کا پورا احاطہ کر لیتے ہیں۔ جب مشئیّت ایزدی ایک مرتبہ اور تنزّل کرتی ہے تو یہی اَسرار لوحِ محفوظ کے اَجمال کی شکل اِختیار کر لیتے ہیں۔ ان ہی شکلوں کا نام مذہب ’’تقدیرِ مُبرّم‘‘ رکھتا ہے۔ دراصل یہ عَرف کی عبارتیں ہیں۔ عَرف سے مراد وہ معنویّت ہے جو حکمِ الٰہی کی بساط بنتی ہے۔
یہ عَرف اَجمال کی نوعیت ہے۔ اس میں کوئی تفصیل نہیں پائی جاتی۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ابھی تک ’’دَورِ اَزلیہ‘‘ کا اجراء پایا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں جہاں تک اِفادہ بالفعل یا فعلیّت کی شاخیں یعنی اِختراعات و ایجادات کا سلسلہ جاری ہے، دَورِ اَزلیہ شمار ہو گا۔ قیامت تک اور قیامت کے بعد ابد الآباد تک جو جو نئے اعمال پیش آتے رہیں گے۔ خواہ اس میں جنت و دوزخ کے قرونِ اُوّلیٰ، قرون وُسطیٰ اور قرون اُخریٰ ہی کیوں نہ ہوں، دَورِ اَزلیہ کے حدود میں ہی سمجھے جائیں گے۔ ابد تک ممکنات کا ہر مظاہرہ ازل ہی کے احاطے میں مُقیّد ہے۔ اس ہی لئے جو بھی تنزّل علمُ القلم کے اَسرار کا پیش آ رہا ہے یا پیش آئے گا وہ اس ہی اَجمال کی تفصیل ہو گی جو لوحِ محفوظ کی کلیات کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں لوحِ محفوظ کا مالک ہوں جس حکم کو چاہوں برقرار رکھوں اور جس حکم کو چاہوں منسوخ کر دوں۔
لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ (38) يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ (39)
(سورۂِ رعد)
ترجمہ: ہر وعدہ ہے لکھا ہوا۔ مٹاتا ہے اللہ جو چاہے اور رکھتا ہے اور اس کے پاس ہے اصل کتاب۔
یہ فرمان اس ہی اَجمال کے بارے میں ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب چاہیں اور جس طرح چاہیں اَسرار کے مفہوم اور رجحانات بدل سکتے ہیں۔
یہاں ذرا شرح اور بسط کے ساتھ مذکورہ بالا آیت پر غور کرنے سے دَورِ اَزلیہ کی وسعتوں کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنی کسی مصلحت کو تخلیقی اِختراعات اور ایجادات کے اَجمال میں بدلنا پسند فرماتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے منافی نہیں ہے۔ دوسرے تنزّل کے بعد اَجمال کی تفصیل اَحکامات کے پورے خدّوخال پیش کرتی ہے۔ یہاں تک مکانیت اور زمانیت کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ البتہ ’’جُو‘‘ یعنی تیسرے تنزّل کے بعد جب کوئی شئے عالمِ تخلیط کی حدود میں داخل ہو کر عنصریت کے لباس کو قبول کرتی ہے۔ اس وقت مکانیت کی بنیادیں پڑتی ہیں۔ یہ اَلقاء کی آخری منزل ہے۔ اس منزل میں جو حالتیں اور صورتیں گزرتی ہیں ان کو اِفادہ بالفعل کہتے ہیں۔ اس کی مثال سینما سے دی جا سکتی ہے۔ جب آپریٹر مشین کو حرکت دیتا ہے تو فلمی رِیل کا عکس کئی لینسوں (LENSES) کے ذریعے خلاء سے گزر کر پردہ پر پڑتا ہے۔ اگرچہ خلاء میں ہر وہ تصویر جو پردہ پر نظر آ رہی ہے، اپنے تمام خدّوخال اور پوری حرکات کے ساتھ موجود ہے لیکن آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی۔ زیادہ سے زیادہ وہ شعاع نظر آتی ہے جس شعاع کے اندر تصویریں موجود ہیں۔ جب یہ تصویریں پردہ سے ٹکراتی ہیں اس وقت ان کی فعلیّت پوری طرح دیکھنے والی آنکھ کے احاطے میں سما جاتی ہے۔ اس مظاہرہ کا نام ہی اِفادہ بالفعل ہے۔ اس مظاہرہ کی حدود میں ہی ہر مکانیت اور ہر زمانیت کی تخلیق ہوتی ہے۔ جب تک کوئی چیز صرف اللہ تعالیٰ کے علم کے حدود میں تھی اس وقت تک اس نے واجب کا لینس (LENS) عبور نہیں کیا تھا یعنی اس میں حکم کے خدّوخال موجود نہیں تھے لیکن واجب کے لینس سے گزرنے کے بعد جب اس چیز کے وُجود نے کلیات یا لوحِ محفوظ کی حدود میں قدم رکھا۔ اس وقت حکم کے خدّوخال مرتّب ہو گئے۔ پھر اس لینس سے گزرنے کے بعد ’’جُو‘‘ میں جس کو عالمِ تَمثال بھی کہتے ہیں تمثُّلات یعنی تصویریں جو حکم کے مضمون اور مفہوم کی وضاحت کرتی ہیں وُجود میں آ گئیں۔ اب یہ تصویریں’’جُو‘‘کے لینس سے گزر کر ایک کامل تمثُّل کی حیثیت اِختیار کر لیتی ہیں۔ اس عالم کو عالمِ تخلیط یا عالم تمثُّل بھی کہتے ہیں۔ لیکن ابھی عنصریت ان میں شامل نہیں ہوئی یعنی ان تصویروں نے جسم یا جسدِ خاکی کا لباس نہیں پہنا۔ جب تک ان تصویروں کو عنصریت سے واسطہ نہ پڑے، یہ احساس سے رُوشناس نہیں ہوتیں۔
اَلقاء کی إبتداء پہلے لینس کے عُبوری دَور سے ہوتی ہے جب تک مَوجودات کی تمام فعلیّتیں اللہ تعالیٰ کے علم میں رہیں، اَلقاء کی پہلی منزل میں تھیں اور جب لوحِ محفوظ کے لینس سے گزریں تو اَحکامات الٰہیہ میں خدّوخال اور آثار پیدا ہو گئے۔ یہ اَلقاء کی دوسری منزل ہے۔
جب اَحکام اور مفہوم کی فعلیّتیں ’’جُو‘‘ کے لینس سے گزر کر شکل وصورت اِختیار کر لیتی ہیں تو یہ اَلقاء کی تیسری منزل ہوتی ہے۔ اس منزل سے عبور حاصل کرنے کے بعد تمام تصاویر عالمِ ناسُوت کے مرحلے میں داخل ہو جاتی ہیں۔ یہاں ان کو مکانیت اور زمانیت اور احساس سے سابقہ پڑتا ہے۔ یہ اَلقاء کی چوتھی منزل ہے۔
سالک مجذوب، مجذوب سالک
اَلقاء دو علم پر مشتمل ہے۔ تصوّف میں ایک کا نام حُضوری اور دوسرے کا نام علمِ حُصولی ہے۔
جب کوئی امر عالمِ تحقیق یعنی واجب، کلیات یا ’’جُو‘‘ کے مرحلوں میں ہوتا ہے، اُس وقت اُس کا نام علمِ حُضوری ہے۔ علمِ حُضوری قربِ فرائض اور قربِ نوافل دونوں صورتوں میں سالک یا مجذوب کی منزل ہے۔ اکثر اہل تصوّف کو سالک اور مجذوب کے معنی میں دھوکا ہوتا ہے۔ سالک کسی ایسے شخص کو سمجھا جاتا ہے جو ظاہری اعمال یا ظاہری لباس سے مزین ہو۔ یہ غلط ہے۔ کسی شخص کا واجبات اور مستحبات ادا کر لینا جن میں فرائض اور سنتیں بھی شامل ہیں۔ سالک ہونے کے لئے بالکل ناکافی ہے۔ صاحبِ سُلوک ہونے کے لئے باطنی کیفیات کو بصورت اُفتادِ طبَعی طورپر موجود ہونا یا بصورتِ اکتساب لطائف کا رنگِ محبّت اور توحیدِ افعالی کا رنگ قبول کرنا شرط اوّل ہے۔ اگر کسی شخص کے لطائف میں حرکت نہیں ہے اور وہ توحیدِ افعالی سے رنگین نہیں ہوئے ہیں تو اس کا نام سالک نہیں رکھا جا سکتا۔ کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ یہ رنگینی اور کیفیت کسی کے اپنے اِختیار کی بات نہیں ہے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ چیز اِختیاری نہیں۔ اس لئے جو لوگ سُلوک کو اِختیاری چیز سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ البتہ سُلوک کی راہوں میں کوشش امرِ اِختیاری ہے۔ بادئُ النّظر میں اپنی کوشش کا نام سُلوک رکھا جاتا ہے۔ لوگ اس شخص کو سالک کہتے ہیں جو اس راہ میں کوشاں ہو۔ فی الواقع سالک وہی ہے جس کے لطائف رنگین ہو چکے ہیں۔ اگر کسی کے لطائف رنگین نہیں ہوئے ہیں۔ اس کا نام سالک رکھنا صرف اشارہ ہے۔ لوگ منزل رسیدہ کو شیخ اورصاحب ولایت کہتے ہیں۔ حالانکہ منزل رسیدہ وہ ہے جس کے لطائف رنگین ہو چکے ہیں اور جس کے لطائف رنگین ہو چکے ہیں وہ صرف سالک کہلانے کا مستحق ہے۔ ایسا شخص شیخ یا صاحبِ ولایت کہلانے کا حق ہرگز نہیں رکھتا۔ شیخ یا صاحبِ ولایت اس شخص کو کہتے ہیں جو توحیدِ افعالی سے ترقی کر کے توحیدِ صفاتی کی منزل تک پہنچ چکا ہو۔
لفظ مجذوب کے استعمال میں اور اس کی معنویّت اور تفہیم میں بھی اس ہی قسم کی شدید غلطیاں واقع ہوتی ہیں۔ لوگ پاگل اور بدحواس کو مجذوب کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کسی پاگل یا دیوانہ کا نام ہی غیر مُکلَّف اور مجذوب ہے۔ یہ ایسی غلطی ہے جس کا اِزالہ اَلقاء کے تذکرے میں کر دینا نہایت ضروری ہے۔ عام طور سے لوگ مجذوب سالک یا سالک مجذوب کے بارے میں بحث و تمحیص کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مجذوب سالک سے افضل اور اُولیٰ ہے لیکن وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ مجذوب سالک کون ہے اور سالک مجذوب کون ہے۔ یہاں اس کی شرح بھی ضروری ہے۔
مجذوب صرف اس شخص کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کھینچ لیا ہو۔ مجذوب کو جذب کی صفَت قربِ فرائض یا قربِ و جود کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اس صفَت کے حصول میں قربِ نوافل کو ہرگز کوئی دخل نہیں۔
جذب کسی ایسے شخص کی ذات میں واقع ہوتا ہے جو توحیدِ افعالی یعنی لطائف کی رنگینی سے جَست کر کے یک بیک توحیدِ ذاتی کی حد میں داخل ہو جائے اسے توحیدِ صفاتی کی منزلیں طے کرنے اور توحیدِ صفاتی سے رُوشناس ہونے کا موقع نہیں ملتا۔
جس شخص کی روح میں فطری طور پر اِنسلاخ واقع ہوتا ہے اس کو لطائف کے رنگین کرنے کی جدوجہد میں کوئی خاص کام نہیں کرنا پڑتا یعنی کسی خاص واقعہ یا حادثہ کے تحت جو محض ذہنی فکر کی حدود میں رُونما ہُوا ہے، اس کے باطن میں توحیدِ افعالی مُنکشِف ہو جاتی ہے۔ وہ ظاہری اور باطنی طور پر کسی علامت کے ذریعے یا کوئی نشانی دیکھ کر یہ سمجھ جاتا ہے کہ پس پردہ نور غیب میں ایک تحقّق موجود ہے اور اُس تحقّق کے اشارے پر عالمِ مَخفی کی دنیا کام کر رہی ہے اور اُس عالمِ مَخفی کے اعمال و حرکات و سکنات کا سایہ یہ کائنات ہے۔ قرآنِ پاک میں جہاں اس کا تذکرہ ہے کہ اللہ اسے اُچک لیتا ہے وہ اِس ہی کی طرف اشارہ ہے۔
ذاتِ باری تعالیٰ سے نَوعِ انسانی یا نَوع اجِنّہ کا ربط دو طرح پر ہے۔ ایک طرح جذب کہلاتی ہے اور دوسری طرح علم۔ صحابۂِ کرامؓ کے دور میں اور قرونِ اُولیٰ میں جن لوگوں کو مرتبۂِ احسان حاصل تھا، ان کے لطائف حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی محبّت سے رنگین تھے۔ انہیں اِن دونوں قسم کے ربط کا زیادہ علم نہیں تھا۔ ان کی توجہ زیادہ تر حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کے متعلّق غور و فکر میں صَرف ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے روحانی قدروں کے جائزے زیادہ نہیں لئے کیونکہ ان کی روحانی تشنگی حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کے اقوال پر توجہ صَرف کرنے سے رفع ہو جاتی تھی۔ ان کو احادیث میں بہت زیادہ شغَف تھا۔ اِس اِنہماک کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اُن لوگوں کے ذہن میں احادیث کی صحیح ادبیّت، ٹھیک ٹھیک مفہوم اور پوری گہرائیاں موجود تھیں۔ احادیث پڑھنے کے بعد اور احادیث سننے کے بعد وہ احادیث کے اَنوار سے پورا اِستفادہ کرتے تھے۔ اس طرح انہیں الفاظ کے نوری تمثُّلات کی تلاش کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہ الفاظ کے نوری تمثُّلات سے، بغیر کسی تعلیم اور بغیر کسی کوشش کے رُوشناس تھے۔
جب مجھے عالمِ بالا کی طرف رجوع کرنے کے مواقع حاصل ہوئے تو میں نے یہ دیکھا کہ صحابۂِ کرامؓ کی ارواح میں ان کے ’’عَین‘‘ قرآنِ پاک کے انوار اور احادیث کے انوار یعنی نورِ قُدس اور نُورِ نبوّت سے لبریز ہیں۔ جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ ان کو لطائف کے رنگین کرنے میں جدوجہد نہیں کرنا پڑتی تھی۔ اس دور میں روحانی قدروں کا ذکر و فکر نہ ہونا اور اس قسم کی چیزوں کا تذکروں میں نہ پایا جانا غالباً اس ہی وجہ سے ہے۔ البتّہ تبَع تابعین کے بعد لوگوں کے دلوں سے قرآنِ پاک کے انوار اور احادیث کے انوار معدوم ہونے لگے۔ اُس دور میں لوگوں نے اِن چیزوں کی تشنگی محسوس کر کے وصول اِلی اللہ کے ذرائع تلاش کئے۔ چنانچہ شیخ نجم الدین اور ان کے شاگرد مثلاً شیخ شہاب الدین سہروردیؒ ، خواجہ معیّن الدین چشتیؒ ایسے لوگ تھے جنہوں نے قربِ نوافل کے ذریعے وصول اِلی اللہ کی طرزوں میں لاشمار اِختراعات کیں اور طرح طرح کے اذکار و اشغال کی إبتداء کی۔ یہ چیزیں شیخ حسن بصریؒ کے دور میں نہیں ملتیں۔ اُن لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے وہ ربط تلاش کیا جس کو علمی ربط کہا جا سکتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کے جاننے میں ان لوگوں نے اِنہماک حاصل کیا اور پھر ذات کو سمجھنے کی قدریں قائم کیں۔ اس ہی ربط کا نام صوفی لوگ ’’نسبتِ علمیہ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ اس ربط یا نسبت کے اَجزاء زیادہ تر جاننے پر مشتمل ہیں۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے کے لئے کوئی صوفی فکر کا اہتمام کرتا ہے۔ اس وقت وہ معرفت کی اُن راہوں پر ہوتا ہے جو ذکر کے ساتھ فکر کے اہتمام سے لبریز ہوتی ہیں۔ اس حالت میں کہہ سکتے ہیں کہ کسی ایسے سالک کو ’’نسبتِ علمیہ‘‘ حاصل ہے۔ یہ راستہ یا نسبت، جذب کے راستے یا نسبت سے بالکل الگ ہے۔ اس ہی لئے اس راستے کو قربِ نوافل کہتے ہیں۔
خواجہ بہاؤالدین نقشبندیؒ اور حضرت غوث الاعظمؒ کے علاوہ جذب سے اس دور کے کم لوگ رُوشناس ہوئے۔
نسبت کا بیان
نسبتِ اُویسیہ
نسبتِ اُویسیہ کا انکشاف پہلے پہل حضرت غوث الاعظمؒ کے طریق میں ہُوا جس کی مثال پانی کے ایسے چشمے سے دی جا سکتی ہے جو کسی پہاڑ کے اندر یا کسی میدان میں یکایک پھوٹ پڑے اور کچھ دور بہہ کر پھر زمین میں جذب ہو جائے اور مَخفی طور پر زمین کے اندر بہتے بہتے پھر کسی جگہ فوّارہ صفَت پھوٹ نکلے۔ علیٰ ہٰذالقیاس حضرت غوث الاعظمؒ کے بعد یہ سلسلہ اِسی طرح جاری ہے۔ لوگ اس ہی نسبت کو نسبتِ اُویسیہ کہتے ہیں۔ اِس نسبت کا فیضان مَخفی طور سے یا تو ملاءِ اعلیٰ کے ذریعے یا پھر انبیاء کی ارواح کی معرفت یا قربِ فرائض کے اولیائے سابقین کی روحوں کے واسطے سے ہوتا ہے۔
نسبتِ سُکینہ
یہ نسبت اوّل جذب، پھر عشق اور پھر سُکینہ کی نسبتوں کے مجموعے پر مشتمل ہے۔ سکینہ وہ نسبت ہے جو اکثر صحابہ کرامؓ کو حاصل تھی۔ یہ نسبت حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی محبّت کے ذریعے نورِ نبوت کے حصول سے پیدا ہوتی ہے۔
نسبتِ عشق
جب قلبِ انسانی میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور احسان کا ہُجوم ہوتا ہے اور انسان قدرت کے عطیات میں فکر کرتا ہے، ا س وقت نورُ اللہ کے تمثُّلات بار بار طبیعتِ انسانی میں موجزن ہوتے ہیں۔ یہاں سے اِس ربط یا نسبتِ عشق کی داغ بیل پڑ جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ اِس نسبت کے باطنی اِنہماک کی کیفیتیں رُونما ہونے لگتی ہیں پھر اُن لطیفوں یا روشنی کے دائروں پر جو انسانی روحوں کو گھیرے ہوئے ہیں روشنی کا رنگ چڑھنے لگتا ہے۔ یعنی ان دائروں میں انوارِ الٰہیہ پَے در پَے پیوست ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح نسبتِ عشق کی جڑیں مستحکم ہو جاتی ہیں۔
نسبتِ جذب
اس نسبت کا تیسرا جُزو نسبتِ جذب ہے۔ یہ وہ نسبت ہے جس کو تبع تابعین کے بعد سب سے پہلے خواجہ بہاء الحق والدین نقشبندی نے نشانِ بے نشانی کا نام دیا ہے۔ اس ہی کو نقشبندی جماعت یادداشت کا نام دیتی ہے جب عارف کا ذہن اُس سمت میں رجوع کرتا ہے جس سمت میں ازل کے انوار چھائے ہوئے ہیں اور ازل سے پہلے کے نُقوش موجود ہیں۔ تو یہی نُقوش عارف کے قلب میں بار بار دَور کرتے ہیں اور صرف’’وَحدت‘‘ فکرِ عارف کا احاطہ کر لیتی ہے۔ اور ہر طرف ’’ھُوئیت‘‘ کا تسلط ہو جاتا ہے تو یہاں سے اِس نسبت کی شعاعیں روح پر نزول کرتی ہیں۔ جب عارف اِن میں گِھر جاتا ہے اور کسی طرف نکلنے کی راہ نہیں پاتا تو عقل و شعور سے دست بردار ہو کر خود کو اِس نسبت کی روشنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔
تنزّلات
اب ہم تنزّلات کا تذکرہ کرتے ہیں تا کہ اس نسبت کی حقیقت واضح ہو جائے۔ جَلِی تنزّلات تین ہیں۔ ان تنزّلات میں ہر جَلِی تنزّل کے ساتھ ایک خَفی تنزّل بھی ہے۔ ہر جَلِی اور خَفی تنزّل کے ساتھ ایک وَرود یا ایک شُہود کا تعلّق ہے۔ پہلا جَلِی تنزّل سرِّاکبر ہے، دوسرا جَلِی تنزّل روحِ اکبر ہے اور تیسرا جَلِی تنزّل شخصِ اکبر ہے۔ شخصِ اکبر اُس مظہر کا نام ہے جس کو کائنات کہتے ہیں۔ اس ہی کائنات کو مادّی آنکھ دیکھتی ہے اور پہچانتی ہے۔ کائنات کی ساخت میں بساطِ اوّل وہ روشنی ہے جس کو قرآنِ پاک نے ماء (پانی) کے نام سے یاد کیا ہے۔
موجودہ دور کی سائنس میں اس کو گیسوں GASESکے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان ہی صَدہا گیسوں کے اجتماع سے اوّلاً جو مرکّب بنا ہے اس کو پارہ یا پارہ کی مختلف شکلیں بطور مظہر پیش کرتی ہیں۔ ان ہی مرکّبات کی بہت سی ترکیبوں سے مادّی اَجسام کی ساخت عمل میں آتی ہے اور ان ہی مادّی اَجسام کو مَوالیدِ ثلاثہ یعنی حیوانات، نباتات اور جمادات کہتے ہیں۔ تصوّف کی زبان میں ان گیسوں میں سے ہر گیس کی ابتدائی شکل کا نام نَسمہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں نَسمہ حرکت کی ان بنیادی شعاعوں کے مجموعہ کا نام ہے جو وُجود کی ابتداء کرتی ہے۔
حرکت اس جگہ ان لکیروں کو کہا گیا ہے جو خلاء میں اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ نہ تو وہ ایک دوسرے سے فاصلہ پر ہیں اور نہ ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ یہی لکیریں مادّی اَجسام میں آپس کا واسطہ ہیں۔ ان لکیروں کو صرف شُہود کی وہ آنکھ دیکھ سکتی ہے جو روح کی نگاہ کہلاتی ہے۔ کوئی بھی مادّی خوردبین اس کو کسی شکل وصورت میں نہیں دیکھ سکتی۔ البتہ ان لکیروں کے تأثرات کو مادّیت مظہر کی صورت میں پا سکتی ہے۔ ان ہی لکیروں کو اہلِ شُہود کی تحقیق میں تمثُّل کی نمود کہا جاتا ہے۔
ٹائم اسپیس کا قانون
جب اسکولوں میں لڑکوں کو ڈرائنگ سکھائی جاتی ہے تو ایک کاغذ جس کو گراف کہتے ہیں۔ ڈرائنگ کی اصل میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کاغذ میں گراف یعنی چھوٹے چھوٹے چوکور خانے ہوتے ہیں۔ ان چوکور خانوں کو بنیاد قرار دے کر ڈرائنگ سکھانے والے استاد چیزوں، جانوروں اور آدمیوں کی تصویریں بنانا سکھاتے ہیں، استاد یہ بتاتے ہیں کہ ان چھوٹے خانوں کی اتنی تعداد سے آدمی کا سر، اتنی تعداد سے ناک، اتنی تعداد سے منہ اور اتنی تعداد سے گردن بنتی ہے۔ ان خانوں کی ناپ سے وہ مختلف اعضاء کی ساخت کا تناسب قائم کرتے ہیں جس سے لڑکوں کو تصویر بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ گویا یہ گراف تصویروں کی اصل ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں اس گراف کو ترتیب دینے سے تصویریں بن جاتی ہیں۔ بالکل اِسی طرح نَسمہ کی یہ لکیریں تمام مادّی اَجسام کی ساخت میں اصل کا کام دیتی ہیں۔ ان ہی لکیروں کی ضرب تقسیم مَوالیدِ ثلاثہ کی ہیئیتیں اور خدّوخال بناتی ہیں۔ لوحِ محفوظ کے قانون کی رُو سے دراصل یہ لکیریں یا بے رنگ شعاعیں چھوٹی بڑی حرکات ہیں۔ ان کا جتنا اجتماع ہوتا جائے گا اتنی ہی اور اس طرز کی ٹھوس حسّیات ترکیب پاتی جائیں گی۔ ان ہی کی اجتماعیت سے رنگ اور کشش کی طرزیں قیام پاتی ہیں۔ اور ان ہی لکیروں کی حرکت اور گردشیں وقفہ پیدا کرتی ہیں۔ ایک طرف ان لکیروں کی اجتماعیت مکانیت بناتی ہے اور دوسری طرف ان لکیروں کی گردش زمانیت کی تخلیق کرتی ہے۔
تصوّف کی اِصطلاح میں لکیروں کے اس قانون کو نَسمہ کا جذب کہتے ہیں۔ یعنی نَسمہ اپنی ضرورت اور اپنے طبَعی تقاضوں کے تحت ’’ممکن‘‘ کی شکل وصورت اِختیار کر لیتا ہے۔ تصوّف میں ’’ممکن‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں جس کو آخری درجہ میں یا تکمیل کے بعد مادّی آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ یہ مادّی ہیئیّت جو مَوالیدِ ثلاثہ کی کسی نَوع میں دیکھی جاتی ہے تشخّص کہلاتی ہے۔ یہ لکیریں تشخّص سے پیشتر جن بنیادی ہیئیّت کی تخلیق کرتی ہیں ان ہیئیّت کا نام تصوّف کی زبان میں تحقّق ہے۔ اس ہیئیّت کو تمثُّل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ہیئیّت دراصل مُفرد ہے۔ لوحِ محفوظ کے قانون میں نَسمہ کی وہ شباہت جس کو مادّی آنکھ نہیں دیکھ سکتی ہیئیّتِ مُفرد، تحقّق یا تمثُّل کہلاتی ہے۔ اور نَسمہ کی وہ شکل و صورت جس کو مادّی آنکھ دیکھ سکتی ہے ہیئیّتِ مرکّب، تشخّص یا جسم کہلاتی ہے۔ جب ہیئیّتِ مُفرد اجتماعیت کی صورت میں اقدام کر کے اپنی منزل تک پہنچ جاتی ہے تو ہیئیتِ مرکّب ہو جاتی ہے۔ گویا ابتدائی حالت ہیئیتِ مُفرد ہے اور انتہائی حالت ہیئیتِ مرکّب ہے۔ ابتدائی حالت کو روح کی آنکھ اور انتہائی حالت کو جسم کی آنکھ دیکھتی ہے۔
نَسمہ وہ مَخفی روشنی ہے جس کو نور کی روشنیوں میں دیکھا جا سکتا ہے اور نور وہ مَخفی روشنی ہے جو خود بھی نظر آتی ہے اور دوسری مَخفی روشنیوں کو بھی دکھاتی ہے۔
حواسِ خمسہ
نَسمہ = مشہود + نور ، اور
نُور = شاہد + مشہود
1. باصِرہ کے نَسمہ کی ساخت (نقشہ)
2. ناطِقہ کے نَسمہ کی ساخت (نقشہ)
3. سامِعہ کے نَسمہ کی ساخت (نقشہ)
4. ذائقہ کے نَسمہ کی ساخت (نقشہ)
5. شامّہ کے نَسمہ کی ساخت (نقشہ)
مثلاً:
سونا =نَسمہ نمبر ۳ + ۳۵ + ۳۱ + ۵۰ + ۵۱
گیرو = نَسمہ نمبر۵ + ۳۱ + ۳۵ + ۴۹
سیب =نَسمہ نمبر ۳ + ۲ + ۵ + ۳۲ + ۳۶ + ۴۵ + ۲۰ + ۲۱ + ۲۹
گلاب کا پھول =نَسمہ نمبر ۵ + ۳۶ + ۳۱ + ۴۳ + ۲۹ + ۲۴
تمباکو =نَسمہ نمبر ۳ + ۳۶ + ۴۳ + ۳۴ + ۳۵ + ۳۰ + ۳۱ + ۲۸ + ۲۲
پانی =نَسمہ نمبر ۲ + ۳۶ + ۵۳ + ۴۹ + ۵۲ + ۲۳ + ۲۷ + ۱۹ + ۵۵ + ۴۰ + ۳۹ + ۳۸ + ۵۸ + ۶۱ + ۶۰ + ۴۸
پارہ =نَسمہ نمبر۱ + ۵۰ + ۵۴ + ۳۶ + ۵۳ + ۴۲ + ۳۹ + ۲۴ + ۲۹ + ۵۲ + ۵۸ + ۴۸
شیشہ =نَسمہ نمبر ۱ + ۵۰ + ۳۵ + ۳۱ + ۵۵ + ۴۹ + ۴۸ + ۵۹ + ۶۱ + ۳۹ + ۵۲ + ۵۳ + ۴۲ + ۵۴
لکڑی =نَسمہ نمبر ۳ + ۳۶ + ۴۲ + ۵۳ + ۶۲ + ۴۸ + ۲۷
لوہا (فولاد) =نَسمہ نمبر ۱ + ۳۵ + ۴۲ + ۳۰ + ۴۸ + ۲۴ + ۵۹ + ۶۲
ٹماٹر =نَسمہ نمبر ۵ + ۳۶ + ۵۰ + ۴۵ + ۳۲ + ۶۲ + ۳۱ + ۴۲ + ۳۴ + ۲۱ + ۲۹
آلو =نَسمہ نمبر ۲ + ۴۶ + ۳۶ + ۲۵ + ۲۹ + ۴۲ + ۳۲ + ۳۵ + ۵۴
مندرجہ بالا نقشہ کی رُو سے ہم نَسمہ کی اجتماعیت اور اجتماعیت کے مدارِج کا قدرے اندازہ لگا سکتے ہیں۔
واضح ہو کہ جس چیز کا نام حِس رکھا جاتا ہے اس کے دو اَجزاء ہوتے ہیں۔ ان دو اَجزاء کو ہم دو رخ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی ایسے جسم میں جس کو مادّی کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے مُلحِق ہوتے ہیں۔ عام نظریات میں کوئی چیز ان ہی دو رخوں کا مجموعہ سمجھی جاتی ہے۔ لوحِ محفوظ کا یہی قانون ہے۔ کوئی چیز مجرّد ہو یا مادّی، غیر مَرئی ہو یا مَرئی بہرحال اس قانون کی پابند ہے۔ یہ دونوں رخ کسی بھی چیز میں ضرور پائے جاتے ہیں۔ مَرئی اشیاء میں تو یہ چیز مشاہدہ میں ہوتی ہے لیکن غیر مَرئی اشیاء میں اگرچہ جسمانی آنکھ اس حالت کا مشاہدہ نہیں کرتی پھر بھی حقیقت اس کے سوا نہیں ہے۔ چنانچہ غیر مَرئی چیزوں میں بھی جب کسی طرح مشاہدہ کیا جاتا ہے تو یہی قانون وہاں بھی جاری و ساری نظر آتا ہے۔ مَرئی چیزوں میں جس طرح یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے مُلحِق ہوتے ہیں اس ہی طرح غیر مَرئی چیزوں میں بھی یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے وابستہ پائے جاتے ہیں۔ خواہ وابستگی کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ اس ہی قانون کے تحت ’’احساس‘‘ یا ’’حِس‘‘ کے بھی یہی دو رخ یا دو مراتب ہیں۔
ایک رخ یا ایک مرتبہ وہاں پایا جاتا ہے جہاں مشاہدہ کرنے والی قوّت موجود ہے اور محسوس کرتی ہے اور دوسرا رخ وہاں پایا جاتا ہے جہاں مشاہدہ کرنیوالی قوّت کی نگاہ پڑ رہی ہے یعنی جہاں محسوس کرنے والی حِس مرکوز ہے۔
لوحِ محفوظ کے قانون کی رُو سے یہ دونوں مراتب ملا کر کسی ماہیت کا فعل یا حکم بنتے ہیں اور ایک ہی قالب گنے جاتے ہیں مثلاً ہم سیاہ رنگ کو تختۂ سیاہ پر دیکھتے ہیں۔ اس کا تجزیہ اس طرح ہو سکتا ہے۔
تختۂ سیاہ =نَسمہ نمبر ۳۱ + ۳۵
اس مثال میں تختہ کا سیارہ رنگ حِس کا ایک مرتبہ ہے اور دیکھنے والی آنکھ کا احساس حِس کا دوسرا مرتبہ ہے۔ اس طرح یہ دونوں مرتبے مل کر ایک مخصوص ماہیت کا ایک فعل، یا ایک حکم، یا ایک حرکت بنتے ہیں۔ تصوّف کی زبان میں حِس کے ان دونوں مرتبوں کی یک جائی کا نام تمثُّل ہے۔ گویا یہ ایک قالب ہے جہاں دو مراتب کی شکل اپنی پوری صفات کے ساتھ مُجتمع ہو گئی ہے۔ مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ کوئی چیز مَرئی ہو یا غیر مَرئی بغیر شکل و صورت کے نہیں ہو سکتی کیونکہ بغیر شکل و صورت کے کسی چیز کا قیام حقیقت کی رُو سے ناممکن ہے۔ تصوّف کی زبان میں جس جگہ دو مراتب کی شکل و صورت جمع ہو کر ایک وُجود کی تخلیق کرتی ہے، اس وُجود کو تمثُّل کہتے ہیں۔ اگرچہ اس وُجود کو جسمانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی لیکن روح کی آنکھ اس وُجود کو اس ہی طرح دیکھتی ہے جس طرح کہ جسمانی آنکھ کسی مادّی قالب کو دیکھتی اور محسوس کرتی ہے۔
جسم کی طرح تمثُّل میں بھی إبعاد یعنی DIMENSIONS ہوتے ہیں اور روحانی آنکھ ان إبعاد کے طول و عرض کو مشاہدہ ہی نہیں کرتی بلکہ ان کی مکانیت کو محسوس بھی کرتی ہے۔ صوفیاء حضرات اس ہی تمثُّل کو ہیولیٰ کہتے ہیں۔ دراصل یہ محسوسات کا ڈھانچہ ہے جس میں وہ تمام اَجزاءِ ترتیبی موجود ہوتے ہیں جن کا ایک قدم آگے بڑھنے کے بعد جسمانی آنکھ باقاعدہ دیکھتی اور جسمانی لامِسہ باقاعدہ احساس کرتا ہے۔
کسی چیز کی موجودگی پہلے ایک تمثُّل یا ہیولیٰ کی شکل وصورت میں وُجود پذیر ہوتی ہے۔ یہ ہیولیٰ نسمۂِ مُفرد کی ترکیبی ہیئیّت ہے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں یہ نسمۂِ مُفرد جب نسمۂِ مرکّب کی شکل اِختیار کرتا ہے تو اس کی حرکت میں انتہائی سستی اور جمود پیدا ہو جاتا ہے۔ اس ہی سستی اور جمود کا نام ’’ٹھوس حِس‘‘ ہے۔
ہم نے اوپر نَسمہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ مُفرد اور مرکّب۔ یہاں اس کی تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے۔ دراصل نسمۂِ مُفرد ایسی حرکات کا مجموعہ ہے جو ایک سمت سے دوسری سمت میں جاری و ساری ہیں۔
ایک خاص تنزّل کی حد تک نَسمہ کی حرکت مُفرد وضع پر رہتی ہے۔ یہ وضع یا تنزّل بالکل ایک پردہ کی طرح ہے یعنی ایک ایسا پردہ پڑا ہوا ہے جو ایسی بے رنگ شعاعوں سے مل کر بنا ہے جن کا رخ ایک سمت سے دوسری سمت کی طرح حرکت کر رہاہے۔ یہ بے رنگ شعاعیں گویا متحرّک لکیریں ہیں جو کپڑے کے تانے کی طرح اگرچہ ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں مگر ایک دوسرے میں پیوست بھی ہیں۔ یہ کپڑا جب تک اس حالت میں بغیر بانے کے یعنی اِکہرا رہا اس وقت تک یہ نسمۂِ مُفرد کی کیفیت پر قائم ہے۔ اس کپڑے کے اندر جتنے نقش و نگار بنائے جائیں گے ان کا نام جنّات اور جنّات کی دنیا ہے۔
لیکن جب یہ کپڑا ایسے تنزّل کی حدوں میں داخل ہوتا ہے جہاں اس کے اوپر کپڑے کے بانے کی طرح ایک دوسری حرکت جو پہلی حرکت کی خلاف سمت میں جاری و ساری ہے، آ کر پیوست ہو جاتی ہے نیز اس کپڑے کے اندر بہت سے نقش و نگار بن جاتے ہیں تو ان نقش و نگار کا نام انسان اور انسان کی دنیا ہے۔ گویا نسمۂِ مُفرد یا حرکت ِمُفرد جنّات کی دنیا ہے اور نسمۂِ مرکّب یا حرکتِ مرکّب انسان کی دنیا ہے۔ ہم نے جس کا نام ’’حرکت‘‘ رکھا ہے یہ وہی ’’احساس‘‘ ہے جس کے ہیولیٰ کو ہم اوپر تمثُّل کہہ چکے ہیں۔ جب تک یہ حرکت غیر محسوس دائرے میں رہتی ہے تمثُّل کہلاتی ہے اور جب یہ حرکت محسوس دائرے میں آ جاتی ہے تو اس کا نام جسم ہو جاتا ہے۔ اس ہی جسم کو ہم ٹھوس مادّیت کا نام دیتے ہیں۔
تصویر: جِنّ یا جِنّ کی دنیا – نَسمہ مُفرد یا حرکتِ مُفرد
تصویر: انسان یا انسان کی دنیا – نَسمہ مُرکّب یا حرکتِ مُرکّب
پچھلے صفحات میں ہم نے گراف بنا کر اُن کے اندر ایک فرضی جن اور ایک فرضی آدمی کا نقش دیا ہے۔ اس نقش کو غور سے دیکھا جائے تو اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ یہ لکیریں جو ایک سمت سے دوسری سمت میں رخ کئے ہوئے ہیں دراصل حرکات کی شبیہ ہیں۔ ان حرکات میں صرف حرکات کا طول تمام قسم کی صفات کا نمونہ بنتا ہے۔ مثلاً ایک حرکت جس کی طوالت مخصوص ہے اس کی صفات بھی مخصوص ہیں۔ لوحِ محفوظ کے قانون میں جو طوالت کے پیمانے کسی صفَت کے لئے معیّن ہیں وہ کسی ساخت اور نقش کا بنیادی اُصول ہے۔ کائنات میں جتنی چیزیں، جتنے رنگ روپ، جتنی صلاحیّتیں ہوتی ہیں اُن میں سے ہر ایک کے لئے مخصوص طولِ حرکت مقرّر ہے۔ مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ اگر حرکت کی پیمائش’’الف‘‘ ہے تو اس ’’الف‘‘ پیمائش کی حرکت سے جو ظُہور بھی تخلیق پائے گا وہ ازل سے ابد تک ایک ہی طرز پر ہو گا۔اُس نقش یا ظُہور کی شکل، اُس کا رنگ، اُس کے إبعاد، اُس کی صلاحیّتیں ہمیشہ معیّن اور مقرّر ہوں گی۔ نہ ان میں کوئی چیز کم ہو سکے گی نہ زیادہ اور ان ہی حرکات کی ایک مخصوص آمیزش کا نتیجہ کسی نَوع کے فرد کی شکل وصورت میں برآمد ہوتا ہے خواہ وہ نَوعِ انسانی دنیا کی نباتات، جمادات، حیوانات ہو یا جنّات کی دنیا کی نباتات، جمادات یا حیوانات ہو۔ یہ پہلی صورت میں وہ نسمۂِ مرکّب یعنی دو متضاد حرکات کا نتیجہ ہو گی جس کو ہم دوہری حرکت کہہ سکتے ہیں اور دوسری صورت میں وہ صرف ایک طرفہ حرکت کا نتیجہ ہو گی جس کو ہم اِکہری حرکت بھی کہہ سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے ہر چیز کو دو قسم پر پیدا کیا ہے:
وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقنَا زَوْجَیْنِ لَعلکُمْ تَذَکَّرُوْنَ
(پارہ ۲۷، رکوع ۲، آیت ۴۹)
ترجمہ مع قَوسین مولانا تھانوی: اور ہم نے ہر چیز کو دو دو قسم بنایا تا کہ تم (ان مصنوعات سے توحید کو) سمجھو۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس حرکت کی تخلیق میں دو دو قسم کی کیا نوعیت ہے اس نوعیت کے تجزیہ میں ’’احساس‘‘ یا ’’حِس‘‘ کو اچھی طرح جاننا ضروری ہے۔ ہم نے تختۂ سیاہ کی مثال میں ’’حِس‘‘ کے دونوں رخوں کا تذکرہ کیا ہے۔ دراصل وہی دونوں رخ یہاں بھی زیر بحث آتے ہیں۔
جس چیز کو ہم حرکت کا نام دیتے ہیں وہ محض ایک حِس ہے جس کا ایک رخ خارجی سمت میں اور دوسرا رخ داخل کی طرف ہے۔ جب نَسمہ کے اندر ایک نقش خاص طرزوں کے تحت تخلیق پاتا ہے تو وہ ایسی حرکت کا مجموعہ بنتا ہے جو ایک رخ پر خود نقش کا احساس ہے اور دوسرے رخ پر نقش کی دنیا کا احساس ہے۔
ہم اس کی شرح یوں کر سکتے ہیں کہ اہل تصوّف جس کا نام ظاہرُ الوجود رکھتے ہیں وہ دو مراتب پر مشتمل ہے جس میں سے ایک مرتبہ کوئی إبعاد نہیں رکھتا اور دوسرے مرتبہ میں پہلے مرتبہ کے نقش و نگار إبعاد کے ساتھ رُونما ہوتے لیکن یہاں تک محض طبَعی صفات کا وُجود ہوتا ہے، طبیعت کی فعلیّت نہیں ہوتی۔ مذہب نے پہلے مرتبہ کا نام عالم ارواح رکھا ہے اور اس عالم کے اَجزاء کو روح کا نام دیا ہے۔ دوسرا مرتبہ عالمِ مثال کا ہے اور اِصطلاح میں دوسرے مرتبہ کے اَجزاء کے ہر جُزو کا نام تَمثال ہے۔ ان دونوں مرتبوں میں وہی فرق ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔
زمانیت اور مکانیت کا راز
قرآنِ پاک کے ان الفاظ ’’وَمِنْ کُلِ شَیْءٍ خَلَقْنَازَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے مکانیت اور زمانیت کا راز بیان فرمایاہے۔
کسی چیز کے وُجود میں تین طرزیں ہوا کرتی ہیں۔ ایک طرز اَحوال، دوسری طرز آثار اور تیسری طرز ان دونوں طرزوں کا مجموعہ ہے جس کو اَحکام کہتے ہیں۔ کسی چیز کے دو قسم ہونے سے مراد اس کے دو رخ ہیں۔ یہ دونوں رخ ایک دوسرے کے متضاد ہوتے ہیں۔ یہ دونوں رخ متضاد ہونے کے ساتھ ایک دوسرے سے بالکل متّصل بھی ہوتے ہیں۔ اگرچہ ایک دوسرے سے متضاد ہونے کا سبب صفَت کا امتیاز (فاعل مفعول یا جاعل مجعول ہونا) ان دونوں رخوں کو ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ کر دیتا ہے، تا ہم ان دونوں رخوں کا مجموعہ ہی وُجود شئے کہلاتا ہے۔ بالفاظ دیگر جب یہ دونوں رخ ایک جگہ ہوتے ہیں تو ان ہی کی اجتماعیت محسوس شئے بن جاتی ہے۔ شئے کا ایک رخ محسوس کرنے والا یعنی احساس ہوتا ہے اور شئے کا دوسرا رخ وہ ہے جو محسوس کیا جاتا ہے۔ شئے میں جو رخ حسّاس ہے اس کو تصوّف میں اَحوال کہتے ہیں۔ شئے کا دوسرا رخ محسوس ہے اس کو تصوّف میں آثار کہتے ہیں۔ ان دونوں کا مجموعی نام اَحکام ہے۔ مذہب کی زبان میں اس ہی کو امرِ ربّی کہا جاتا ہے چنانچہ امرِ ربّی کے دو رخ یا دو اَجزاء ہوئے۔ ایک رخ اَحوال جو صفَت اور صلاحیّت کا جاننے والا یا استعمال کرنے والا ہے اور دوسرا رخ جس کو آثار کہتے ہیں صفَت اور صلاحیّت ہے۔ یہ دونوں اَجزاء مل کر ایک امرِ ربّی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں اَجزاء متّصل ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ دراصل یہی علیحدگی وہ فعل ہے جو تنزّل کے بعد ایک اعتبار سے زمان اور دوسرے اعتبار سے مکان کہلاتے ہیں۔ جب یہ فعل حِس کے حدودِ ذہن کے اطراف میں واقع ہوتا ہے تو اس کا نام زمان ہے اور جب یہ فعل حِس کی شکل وصورت کے اطراف میں واقع ہوتا ہے تو اس کا نام مکان ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ وُجود اشیاء کو جوڑے جوڑے نہ بناتے تو یہ درمیانی فصل جو زمان و مکان بنتا ہے، پیدا نہ ہوتا۔ یہ فعل اس وقت تخلیق پاتا ہے جب وُجود شئے میں إبعاد واقع ہو جاتے ہیں۔ اور إبعاد کا وقوع عالمِ مثال میں ہوتا ہے، عالم ارواح میں نہیں ہوتا۔ اس ہی لئے عالمِ ارواح میں زمان اور مکان نہیں ہوتے۔ وہاں وُجود شئے صرف امرِ ملکّ ہوتا ہے، امرِ متحرّک نہیں ہوتا۔ چنانچہ نَسمہ کی دنیا وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے حرکت کا آغاز ہوتا ہے۔
تمثیل:
مثلاً نماز پڑھنے والے کے ذہن میں جب نماز کی حِس پیدا ہوتی ہے تو اس کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک رخ خود نماز کی ہیئیّت اور دوسرا رخ نماز کا احساس کرنے والا ذہن۔
اگر اوپر بیان کئے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فرمان کی ذرا اور تشریح کی جائے تو حِس کے بہت سے دو دو رخوں کا تذکرہ کرنا پڑے گا۔ ان میں سے ایک رخ عَمومی اور دوسرا رخ خُصوصی ہے۔ خُصوصی رخ جس کا تذکرہ ہم کر چکے ہیں، اس کے مقابل حِس کا عَمومی رخ وہ ہے جو غالب کا درجہ رکھتا ہے۔ اس موقع پر شخصِ اکبر کا تذکرہ کر دینا ضروری ہے۔ گویا ’’شخص‘‘ کے بھی دو رخ ہیں۔ ایک شخصِ اکبر، دوسرا شخصِ اصغر۔ شخصِ اکبر کی نوعیت غالب کی ہے اور شخصِ اصغر کی حیثیت مغلوب کی ہے۔ ایک طرح ہم ان دونوں کو نَوع اور فرد کا نام بھی دے سکتے ہیں جس میں ایک مَصدر ہے اور دوسرا مَشتق۔ اب اگر ہم عَمومی حِس کا بیان کریں تو اس حِس کو شخصِ اکبر کی حِس شمار کریں گے۔
گزشتہ صفحات میں شخصِ اکبر کا تذکرہ ہُوا ہے۔ یہاں اس کے بارے میں مختصر بتا دینا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاءَ کُلَّھَا
ترجمہ: اور علم دیا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو (ان کو پیدا کر کے) سب چیزوں کے اسماء کا (مع ان چیزوں کے خواص و آثار کے)۔
غرض تمام مَوجودات روئے زمین کے اسماء اور خواص کا علم دے دیا۔ لوحِ محفوظ کی اِصطلاح میں اسماء مُرّادف ہے چیزوں کے عنوان اور ان کی خاصیتوں اور ماہیتوں کے بیان کا۔
اس رکوع کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے آدم کے نائب بنانے کا تذکرہ کیا ہے اور دوسری آیت میں یہ بتا دیا ہے کہ میں نے آدم کو علمُ الاسماء دیا ہے۔ اب حکمتِ تکوین کی روشنی میں ان دونوں کا رابطہ تلاش کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نیابت کا تعلّق علمُ الاسماء سے بہت ہی گہرا ہے۔
کائنات کی ساخت
نقشہ: کائنات کی ساخت
جَدوَل: عالمِ خفیف – عالمِ شدید
نیابت کیا ہے
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کائنات کے انتظامی امور کو سمجھنا اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علمُ الاسماء کی روشنی میں ان انتظامی امور کو چلانا نیابت کے دائرے میں آتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلیفۃُ اللہ بنا دیا تو یہ امر یقینی ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے جس قدر شعبے ہیں اُن شعبوں میں اللہ کے نائب کا کہیں نہ کہیں اور کوئی نہ کوئی تعلّق ہے۔
حکمتِ تکوین کی روشنی میں یہاں علمُ الاسماء کا تھوڑا سا تجزیہ کر دینا ضروری ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کُن فیکُون۔ میں نے کہا ہو جا اور وہ ہو گیا۔ یعنی یہ تمام کائنات (مَوجودات) میں نے کُن کہہ کر بنا دی۔ کُن کے چار تکوینی شعبے ہیں۔ پہلا شعبہ اِبداء جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ظُہورِ مَوجودات کے کوئی اسباب و وسائل موجود نہیں تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کُن تو یہ ساری مَوجودات بغیر اسباب و وسائل کے مرتّب اور مکمل ہو گئیں۔ یہ تکوین کا پہلا شعبہ ہے۔
تکوین کا دوسرا شعبہ خَلق ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جو کچھ مَوجودات کی شکل و صورت میں ظاہر ہُوا اُس میں حرکت و سُکون کی طرزیں رُونما ہو گئیں اور زندگی کے مراحل یکے بعد دیگرے وقوع میں آنا شروع ہو گئے یعنی مَوجودات کے عملِ زندگی کا آغاز ہو گیا۔
تکوین کا تیسرا شعبہ تدبیر ہے۔ یہ مَوجودات کے اعمالِ زندگی کی ترتیب اور محلِ وقوع کے ابواب پر مشتمل ہے۔
حکمتِ تکوین کا چوتھا شعبہ تدلّٰی ہے۔ تدلّٰی کا مطلب حکمتِ تکوین کا وہ شعبہ ہے جس کے ذریعے قضا و قدر کے نظم و ضبط کی کڑیاں اور فیصلے مُدوّن ہوتے ہیں۔
انسان کو بحیثیتِ خلیفۃُ اللہ علمُ الاسماء کی حکمتِ تکوین کے اَسرار و رُموز اس لئے عطا کئے گئے ہیں کہ وہ نظامتِ کائنات کے امور میں نائب کے فرائض پورے کر سکے۔
کائنات کی ساخت کو سمجھنے کے لئے اس کے مَراتب اور اجزا کا جاننا ضروری ہے۔ خاکہ میں شخصِ اکبر کو باطنُ الوجود، عالمِ خَفیف کے تین مراتب اور عالمِ شدید کے تین مراتب کو ظاہرُ الوجود کا نام دیا گیا ہے۔ ان دونوں عالموں کے چھ مراتب میں ہر مرتبہ کا تعلّق ایک نَوع سے ہے۔ گویا یہ چھ اَنواع ہوئیں۔ ان کے علاوہ ایک نَوع کو جس کانام نَوعِ آدم ہے شخصِ اصغر کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ شخصِ اصغر خُلاصہ ہے ان چھ اَنواع کا اور برزخ یعنی واسطہ ہے شخصِ اکبر، باطن اور ظاہرُ الوجود کا۔
ذکر شدہ چھ اَنواع میں سے ہر نَوع لاشمار افراد پر مشتمل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہر نَوع کا ایک نفسِ کُلّیہ ہے۔ اس ہی نفسِ کُلّیہ کو ہم نَوع کہتے ہیں۔ گویا یہ نفسِ کُلّیہ اپنی نَوع کے تمام افراد کے اصلوں کا مجموعہ ہے۔ ہر نَوع کی ماہیت، کیفیت اور فعلیّت اس نَوع کے اپنے نفسِ کُلّیہ میں قرار پذیر ہے۔ یہ تینوں حیثیّتیں (ماہیت، کیفیت اور فعلیّت) اس ’’نفسِ کُلّیہ کے تعیّنات‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ ایک طرح کے معیّن نقش و نگار ہیں جو ازل تا ابد کی مکانیت اور زمانیت کو احاطہ کرتے ہیں۔
جب عالمِ ناسُوت میں ان نقش و نگار کا نزول ہوتا ہے تو حرکت یا فعلیّت ان ہی نقش و نگار کو زمان اور مکان کے مراتب بخش دیتی ہے۔
روح میں مَطلقیّت کے سوا حرکت کے تمام شعبے داخل ہیں۔ مَطلقیّت سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ تجلّی ہے جس کو تصوّف میں تسوید کا نام دیا جاتا ہے۔ اس مطلق تجلّی کے دو شعبے ہیں۔ نیچے درجے کا شعبہ خَفی اور اونچے درجے کا شعبہ اخَفیٰ ہے۔ اوّل شعبۂ اخَفیٰ سے تجلّیِٔ الٰہیہ کا نزول شعبۂ دوئم خَفی کی طرف ہوتا ہے۔ یہ تجلّی کا آخری شعبہ ہے۔ اس کے بعد مدارجِ ظاہری یعنی حرکت شروع ہو جاتی ہے۔ اس حرکت کا پہلا شعبہ لطیفۂِ سری ہے۔ دوسرا، تیسرا اور چوتھا لطیفۂِ روحی، لطیفۂِ قلبی اور لطیفۂِ نفسی ہے۔ ان لطائف میں قلبی اور نفسی دو شعبے نَسمہ کہلاتے ہیں۔ یہ دونوں مدارج حرکت کے آخری اَجزاء ہیں۔ لطیفہ سری اور روحی کے شعبے کو مدارجِ ماہیت کہا جاتا ہے۔ لطیفۂِ قلبی کو کیفیت اور لطیفۂِ نفسی کو فعلیّت کا نام دیا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا بیان کے مطابق روح کے چھ شعبے ہوئے، دو شعبے باطنی اور چار شعبے ظاہری۔ شعبہ ہائے ظاہری سے مراد شعبہ ہائے حرکت ہیں اور شعبہ ہائے باطنی سے مراد تجلّیِٔ مُطلق کے مدارج ہیں جس کے بارے میں حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی حدیث ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اللہ کی صفَت رَبّانیّت کو پہچان لیا۔
یہی صفَت رَبّانیّت باطن کے دو شعبوں پر منقسم ہے جو تجلّی کی مستقل اور مسلسل رَو کی صورت میں باطن انسان سے گزرتی ہے۔ باطن کے دو شعبوں اخَفیٰ اور خَفی اور ظاہر کے دو شعبوں سری اور روحی کا تعلّق شخصِ اکبر سے ہے اور ظاہر کے دو شعبوں قلبی اور نفسی کا تعلّق شخصِ اصغر سے ہے۔
تجلّی کی سب سے پہلی رَو کا نام نہرِ تسوید ہے اور دوسری رَو کا نام نہرِ تجرید، تیسری رَو کا نام نہرِ تشہید اور چوتھی رَو کا نام نہرِ تظہیر ہے۔ نہرِ تسوید کی تجلّی لطیفۂِ اخَفیٰ، لطیفہ خَفی کو بالتّرتیب سیراب کرتی ہے۔ اخَفیٰ، خَفی یہ دونوں شعبے اصلِ نفس ہیں۔ تجلّی کا تنزّل فی الواقع لطیفۂِ سری سے شروع ہوتا ہے۔ یہی مرحلہ اہل روحانیت کے لئے خطرناک ہے جب کہ وہ ملکوتیت سے تنزّل کرکے ناسُوتیت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ شیطانی وسوسوں کی إبتداء لطیفۂِ سری سے ہوتی ہے کیونکہ یہی لطیفہ روحِ انسانی کا پہلا شعبہ ہے۔ اس ہی شعبہ سے انسان مَطلقیّت کو بھولنے کی اور رَبّانیّت سے منکر ہونے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی اصل سے گریزاں رہتا ہے۔
اگر وہ اپنی اصل کا مشاہدہ کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کی کھلی ہوئی نشانیاں موجود ہیں۔ مثلاً آدمی کا سانس لینا اس کے شعور سے الگ ایک چیز ہے۔ وہ سانس لیتا ہے لیکن سانس لینے کی إبتداء اس کے ارادے سے نہیں ہوتی۔ پلک جھپکتا ہے لیکن اس کا تعلّق اس کے شعور سے کچھ نہیں۔ اس ہی طرح خون کا گردش کرنا اور جسم کی اندرونی حرکات ایسے افعال ہیں جو انسان کی اپنی اصل یعنی وراءِ شعور سے تعلّق رکھتے ہیں جب انسان اپنی اصل یعنی وراءِ شعور سے تنزّل کر کے شعور کی دنیا میں قدم رکھتا ہے اس وقت وہ اپنی زندگی کی فعلیّتوں سے باخبر ہوتا ہے حالانکہ تمام ماہیات اور کیفیات وراءِ شعور میں واقع ہوئی تھیں۔
رَبّانیّت کی پہلی تجلّی جس کا نام تسوید ہے شخصِ اکبر یعنی نفسِ کُلّی میں سب سے پہلے رَبّانیّت کا کردار پورا کرتی ہے۔ اور اس کردار کو قرآن کریم نے یوں بتایا ہے :
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکوٰۃٍ فِیْھَا مِصْبَاحُٗ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ(سورۂ نور۔ آیت ۳۵)
ترجمہ: اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اس نور کی مثال طاق کی مانند ہے جس میں چراغ رکھا ہو اور وہ چراغ شیشے کی قندیل میں ہے۔
یعنی بَرتَر اَز وراءِ شعور۔ اور وراءِ شعور کی ترتیب اور تدوین اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس کی بنیادیں خود اللہ تعالیٰ کی تجلّی ہی پر قائم ہیں۔ تسوید کی سیرابی کا تعلّق اخَفیٰ اور خَفی سے ہے۔ یہ دونوں شعبے بَرتَر اَز وَراءِ شعور ہیں۔ ان ہی دو شعبوں کو تصوّف میں مَطلقیّت کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دونوں شعبے تجلّی کے اوپر والے دائرے ہیں۔ پہلا دائرہ اخَفیٰ، دوسرے دائرہ خَفی سے محض اس لئے الگ ہے کہ دائرۂِ خَفی کی تجلّی اس سے کم لطیف ہے۔ یہ وہی دو شعبے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نُوْرُ السَّمٰوٰاتِ کہا ہے۔ ان کے بعد لطیفۂِ سری اور لطیفۂِ روحی کے دو شعبے آتے ہیں۔ یہ دونوں شعبے تنزّل شدہ تجلّی کے مزید دو دائرے ہیں جن میں پہلا دائرہ زیادہ لطیف نورانیت رکھتا ہے اور دوسرا کم لطیف نورانیت رکھتا ہے۔ ان دونوں شعبوں کو اللہ تعالیٰ نے شیشے کی قندیل کہا ہے۔
یہ چاروں شعبے یعنی تجلّی ، چاروں دائرہ، علم عالمِ خَفیف یا عالمِ غیب میں شمار ہوتے ہیں اور ان ہی چار دائروں کا نام شخصِ اکبر ہے۔
روح کے آخری دو شعبے لطیفۂِ قلبی اور لطیفۂِ نفسی کے دو روشن دائرے ہیں جن کو نَسمہ یا عالمِ شدید کہتے ہیں۔ نَسمہ کی مثال اللہ تعالیٰ نے چراغ کی لو سے دی ہے۔ یہی عالمِ حرکت یا عالمِ شہادت ہے۔ یہی عالم زمانیت و مکانیت دونوں کا مجموعہ ہے۔ روح کے ان دونوں دائروں کو شخصِ اصغر کہتے ہیں۔ نفسِ کُلّی شخصِ اکبر ہے جو چار شعبوں کامجموعہ ہے اور نفسِ جُزوی شخصِ اصغر ہے جو دو شعبوں کا مجموعہ ہے۔ نفسِ کُلّی غیب ہے اور نفسِ جُزوی حضور ہے۔ نفسِ کُلّی صفات اور ماہیت کا نام ہے۔ نفسِ جُزوی کیفیت اور فعلیّت کا نام ہے۔ نفسِ کُلّی علمِ تخلیق ہے اور نفسِ جُزوی تخلیق۔ نفسِ کُلّی احاطہ کئے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفَت رَبّانیّت کا شعبہ ہے۔
تخلیق کی ساخت دو قسموں اور دو وضع پر ہے۔ اوّل نفسِ کُلّی یا علمِ شئے اور دوئم نفسِ جُزوی یا خود شئے۔ گویا علمِ شئے، پھر شئے اور شئے کے بعد علمِ شئے ہے۔
مثال:
جب ہم گلاب کو دیکھتے ہیں تو یقین کی حد تک یہ سمجھتے ہیں کہ گلاب کے اوپر کی نسلیں موجود تھیں۔ یہ نسلیں علمِ شئے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگرچہ وہ باغبان کے سامنے موجود نہیں ہیں اور باغبان ان کو دیکھ بھی نہیں سکتا لیکن گلاب کا موجود ہونا اوپر کی نسلوں کے موجود ہونے کی شہادتِ کامل ہے۔ شئے کے بعد پھر علمِ شئے آتا ہے یعنی گلاب کے بعد گلاب کی آئندہ نسلوں کا ہونا یقینی ہے حالانکہ گلاب کی آئندہ نسلیں بھی باغبان کے سامنے نہیں ہیں۔
علمِ شئے کو بقائے دوام حاصل ہے اور اِسی کا دوسرا نام عدَم ہے۔ علمِ توحید کی ابتداء یہیں سے ہوتی ہے۔ علمِ شئے کبھی فنا نہیں ہوتا۔ صرف شئے فنا ہوتی ہے جیسے گلاب کے اجداد اور گلاب کی اولاد۔ گلاب شئے ہے اور اجداد و اولاد علمِ شئے ہے اوریہی علمِ شئے صفَت رَبّانیّت ہے۔ صرف شئے یعنی گلاب فنا ہونے والی چیز ہے۔ لیکن علمِ شئے یا صفَت رَبّانیّت کو ہمیشگی حاصل ہے۔
لوحِ محفوظ کا قانون
تصرف
تجلّی تنزّل کر کے نور بنتی ہے اور نور تنزّل کر کے روشنی یا مظہر بن جاتا ہے۔ یہی مظہر شئے ہے جو تجلّی اور نور کی مظاہراتی شکل ہے۔
بہ الفاظِ دیگر تجلّی تنزّل کر کے نور بنی اور نور تنزّل کر کے شئے یا مظہر بنا۔ مظہر تجلّی اور نور سے تخلیق ہوا پھر نور اور تجلّی ہی میں فنا ہو گیا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس ناموجود کو پھر موجود کر دے گا۔ عارف علمِ شئے میں ہی تصرف کرتا ہے جس کا اثر شئے پر براہِ راست پڑتا ہے۔
تصرف کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ معجزہ
۲۔ کرامت
۳۔ اِستدراج
یہاں تینوں کا فرق سمجھنا ضروری ہے۔ اِستدراج وہ علم ہے جو اعراف کی بری روحوں یا شیطان پرست جنّات کے زیر سایہ آدمی میں خاص وجوہ کی بنا پر پرورش پا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کے دور میں بھی پیش آئی ہے۔
اس دور میں صاف اِبن صیّاد نام کا ایک لڑکا مدینے کے قریب کسی باغ میں رہتا تھا۔ موقع پا کر شیطان کے شاگردوں نے اسے اچک لیا اور اس کی چھٹی حِس کو بیدار کر دیا۔ وہ چادر اوڑھ کر آنکھیں بند کر لیتا اور ملائکہ کی سرگرمیوں کو دیکھتا اور سنتا رہتا۔ وہ سرگرمیاں عوام میں بیان کر دیتا۔ جب حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے اس کی شہرت سنی تو ایک روز حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’آؤ، ذرا اِبن صیّاد کو دیکھیں!‘‘
اس وقت وہ مدینے کے قریب ایک سرخ ٹیلے پر کھیل رہا تھا۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے اس سے سوال کیا۔
’’بتا! میں کون ہوں؟‘‘
وہ رُکا اور سوچنے لگا۔ پھر بولا:
’’آپ امّیوں کے رسول ہیں لیکن آپ کہتے ہیں کہ میں خدا کا رسول ہوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے فرمایا:
’’تیرا علم ناقص ہے، تو شک میں پڑ گیا۔ اچھا بتا! میرے دل میں کیا ہے؟‘‘
اس نے کہا۔ ’’دَخّ ہے۔‘‘ (ایمان نہ لانے والا) یعنی آپﷺ میرے متعلّق یہ سمجھتے ہیں کہ میں ایمان نہ لاؤں گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے فرمایا۔
’’پھر تیرا علم محدود ہے۔ تو ترقی نہیں کر سکتا۔ تُو اس بات کو بھی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
’’یا رسول اللہﷺ! اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کی گردن مار دوں۔‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے جواب دیا:
’’اے عمر! اگر یہ دجال ہے تو اس پر تم قابو نہیں پا سکو گے اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا قتل زائد ہے۔ اس کو چھوڑ دو۔‘‘
غیب کی دنیا میں لفظ اور معنی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر چیز شکل و صورت رکھتی ہے خواہ وہ وہم ہو، خیال ہو یا احساس۔ اگر کسی انسان کی چھٹی حِس بیدار ہے تو اس کے ذہن میں غیب بینی کی صلاحیّت پیدا ہو جاتی ہے۔ عبرانی زبان میں نبی غیب بین کو کہتے ہیں۔ اور رسول غیب کے قاصد کو۔ اس ہی وجہ سے اِبن صیّاد حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کے مرتبۂِ رسالت کو صحیح نہیں سمجھ سکا۔ اس نے جو کچھ دیکھا وہ یہ تھا کہ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام غیب کے قاصد ہیں اور اس کی غیب کی رُوشناسی اپنی ہی حد تک تھی یا ان اجِنّہ کی حد تک تھی جو اس کے دوست یا استاد تھے۔ جب اس نے حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کو سمجھنے کی کوشش کی تو معرفتِ الٰہی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے
حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کو غیب کا رسول قرار دیا۔ اس کی غیب بینی صرف اس حد تک تھی کہ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام ایک اُمّی قوم میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کے معجزات کا مظاہرہ اُمّی قوم میں ہوا۔ اس فکر کے تحت اس نے حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کو اُمّیوں کا رسول کہا۔ جب حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے اس کو اِستدراج کی حدوں میں مُقیّد دیکھا تو اس سے یہ سوال کیا کہ بتا میرے دل میں کیا ہے؟ جس کے جواب میں اس نے دَخّ کہا اور حضورﷺ نے جب یہ دیکھا کہ اِبن صیّاد کو معرفت حاصل نہیں ہو گی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو ترقی نہیں کر سکتا۔
چنانچہ اِبن صیّاد کی طرح کسی بھی صاحب اِستدراج کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی۔ علم اِستدراج اور علمِ نبوت میں یہی فرق ہے کہ اِستدراج کا علم غیب بینی تک محدود رہتا ہے۔ اور علمِ نبوت انسان کو غیب بینی کی حدوں سے گزار کر اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچا دیتا ہے۔
علمِ نبوت کے زیر اثر جب کوئی خارقِ عادت نبی سے صادِر ہوتی تھی اس کو معجزہ کہتے تھے اور جب کوئی خارقِ عادت ولی سے صادِر ہوتی ہے تو اس کو کرامت کہتے ہیں لیکن یہ بھی علمِ نبوت کے زیر اثر ہوتی ہے۔ معجزہ اور کرامت کا تصرف مستقل ہوتا ہے۔ مستقل سے مراد یہ ہے کہ جب تک صاحبِ تصرف اس چیز کو خود نہ ہٹا دے وہ نہیں ہٹے گی۔ لیکن اِستدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے وہ مستقل نہیں ہوتا اور اس کا اثر فضا کے تأثرات بدلنے سے خود بہ خود ضائع ہو جاتا ہے۔ اِستدراج کے زیر اثر جو کچھ ہوتا ہے اس کو جادو کہتے ہیں۔
تجلّی کی جو رَو بَرتَر اَز وراءِ شعور ہے اس ہی سے تخلیق کی تمام اصلیں متّصل ہیں۔ یہ اَجزاءِ کائنات کے ہر ذرّے میں محدود ترین مرکزیّت کی آخری حد تک گشت کرتی ہے۔ اگر اس تجلّی کو محدود ترین مرکز کائنات سے گزرتے وقت کوئی ناپسندیدہ امر پیش آ جائے تو اس کے اندر ایک طرح کی حالت جلال پیدا ہو جاتی ہے۔
اِستدراج کے اُصول محدود ترین مرکز میں کوئی ناخوشگوار اثر پیدا کر دیتے ہیں۔ اس ناخوشگوار اثر کی وجہ سے تجلّی جو خیر کی حقیقت ہے بیزار ہو جاتی ہے اور بیزاری کے نتیجے میں کوئی نہ کوئی تخریبی اثر مرتّب ہو جاتا ہے۔ جب کوئی شخص محدود ترین مرکز کے خول میں کسی قسم کا تعفن یا کسی قسم کی کثافت پیدا کر لیتا ہے تو اس کی قوّتیں تخریب اور شکست و ریخت پر قابو پا جاتی ہیں وہ صرف اس لئے کہ تجلّی نے بے رخی اِختیار کر لی ہے اور اس کی بے رخی سے خیر کی تاثیرات معطّل ہو گئیں۔ محدود ترین مرکز کا خول انسانی جسم ہے۔
مثلاً سادھو اپنے محدود ترین مرکز کے خول یعنی جسم پر راکھ مل کر جلدی مسامات کو بالکل بند کر لیتے ہیں۔ چنانچہ ان کے جسم کی اندرونی روشنیاں جن کو زندگی کا قوام کہنا چاہئے، کثیف ہو کر رقیق بن جاتی ہیں۔ یہی تعفن کسی دوسرے جسم یا اَجسام کے محدود ترین مرکزوں کی طرف بہنے لگتا ہے اور وہاں اپنی تاثیریں پیدا کر دیتا ہے جس سے وہ جسم یا اَجسام تخریبی سرگرمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ہر مذہب میں عبادت کے لئے غسل یا وضو کا اہتمام کیا جاتا ہے حالانکہ عبادت کا تعلّق صرف ذہن سے ہے جسم سے نہیں۔ غسل اور وضو کا منشا طبیعت کو شگفتہ کر کے اِنہماک پیدا کرنا ہے۔
قانون:
یہاں یہ سمجھناپڑے گا کہ ہمارے اشغال و اعمال جو جسمانی اعضاء کے ذریعے صادِر ہوتے ہیں کہاں تخلیق پاتے ہیں اور ان کی تخلیق کس طرح ہوتی ہے۔ اب ذرا ماہیت کی طرف رجوع کیجئے۔ یہ ماہیت شخصِ اکبر کا خاصہ ہے۔ اور شخصِ اکبر تمام مخلوقات کی مختلف اَنواع کا مجموعہ ہے جن میں سے ہم کتنی ہی اَنواع و مخلوقات کو جانتے ہیں۔ شیر، گھوڑا، شاہین، ستارے، چاند، سورج، زمین، آسمان، جن، فرشتے، انسان، ہوا، پانی، چاندی، سونا، جواہرات، کنکر پتھر، پہاڑ، سمندر، سبزہ اور حشرات الارض ان میں سے ہر ایک، ایک نَوع یا مخلوق ہے۔ ان کی نَوع یا نوعیت ہی ان کی ماہیت ہے۔ اس ماہیت کا وقوع ہمیشہ ایک ہی طرز پر ہوتا ہے۔ جیسے شیر ایک شکل وصورت اور ایک خاص طبیعت رکھتا ہے۔ اس کی آواز بھی مخصوص ہے۔ یہ چیزیں اس کی پوری نَوع پر مشتمل ہیں۔ بالکل اِسی طرح انسان بھی خاص شکل و صورت، خاص عادتیں اور خاص صلاحیّتیں رکھتا ہے لیکن یہ دونوں نوعیں اپنی ماہیتوں میں ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ البتہ اصل ماہیت دونوں کی ایک ہے اور دونوں میں یکساں جسمانی تقاضے پیار اور رنج و غضب پایا جاتا ہے۔ یہ اشتراک نَوع کی ماہیت میں نہیں بلکہ اصلِ ماہیت میں ہے یہ اصلِ ماہیت زندگی کا وہ مرکز ہے جہاں زندگی کی انتہاؤں میں چھوٹے چھوٹے کیڑے کی زندگی اور چاند سورج کی زندگی مجتمع ہو جاتی ہے۔ اس قانون سے ہمیں روح کے دو حصّوں کی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ایک ہر نَوع کی جداگانہ ماہیت ، دوسرے تمام اَنواع کی واحد ماہیت۔ یہی واحد ماہیت روحِ اعظم اور شخصِ اکبر ہے اور ہر نَوع کی جداگانہ ماہیت شخص ِاصغر ہے۔ اور اس ہی شخص ِاصغر کے مظاہر افراد کہلاتے ہیں۔ مثلاً تمام انسان شخصِ اصغر کی حدود میں ایک ہی ماہیت ہیں۔
اوّل ہر نَوع کے افراد شخصِ اصغر کی حدود میں یعنی اصغر ماہیت کے دائرے میں ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں۔ دوئم ہر فرد تمام اَنواع کے افراد سے شخصِ اکبر کی حدود یعنی اکبر ماہیت کے دائرے میں متعارف ہے۔ شیر دوسرے شیر کو بحیثیت شیر کے شخصِ اصغر کی صلاحیّت سے شناخت کرتا ہے مگر یہی شیر کسی آدمی کو یا دریا کے پانی کو یا اپنے رہنے کی زمین کو یا سردی گرمی کو شخصِ اکبر کی صلاحیّت سے شناخت کرتا ہے۔ اصغر ماہیت کی صلاحیّت ایک شیر کو دوسرے شیر کے قریب لے آتی ہے۔ لیکن ایک شیر کو جب پیاس لگتی ہے اور وہ پانی کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کی طبیعت میں یہ تحریک اکبر ماہیت کی طرف سے ہوتی ہے اور وہ صرف اکبر ماہیت کی بدولت یعنی شخصِ اکبر کی وجہ سے یہ بات سمجھتا ہے کہ پانی پینے سے پیاس رفع ہو جاتی ہے۔
کشش کا قانون
چنانچہ ذی روح یا غیر ذی روح ہر فرد کے اندر اکبر صلاحیّت ہی اجتماعی زندگی کی فہم رکھتی ہے۔ ایک بکری سورج کی حرارت کو اس لئے محسوس کرتی ہے کہ وہ اور سورج شخصِ اکبر کی حدود میں ایک دوسرے سے الحاق رکھتے ہیں۔ اگر کوئی انسان شخصِ اکبر کی حدود میں فہم و فراست نہ رکھتا ہو تو وہ کسی دوسری نَوع کے افراد کو نہیں پہچان سکتا اور نہ اس کا مَصرف جان سکتا ہے۔ جب آدمی کی آنکھ ستارہ کو ایک مرتبہ دیکھ لیتی ہے تو اس کا حافظہ ستاروں کی نَوع کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے۔ حافظہ کو یہ صلاحیّت شخصِ اکبر سے حاصل ہوتی ہے لیکن جب کوئی انسان اپنی نَوع کے کسی انسان کو دیکھتا ہے تو اس کی طرف ایک کشش محسوس کرتا ہے۔ یہ کشش شخصِ اصغر کا خاصہ ہے۔ یہاں سے اصغر ماہیت اور اکبر ماہیت کی تخصیص ہو جاتی ہے۔ اکبر ماہیت کششِ بعید کا نام ہے اور اصغر ماہیت کششِ قریب کا۔
تجلّی کی رَو تمام اَنواع کی مخلوقات میں کشش بعید کا باہمی تعلّق پیدا کرتی ہے۔ یہی تجلّی جب تنزّل کر کے نور کی شکل اِختیار کرتی ہے تو کشش قریب بن جاتی ہے تیسرے درجہ میں جب یہ تجلّی نور سے تنزّل کر کے روشنی کی صورت اِختیار کرتی ہے تو ایک ہی نَوع کے دو افراد کے درمیان باہمی کشش کو حرکت میں لاتی ہے۔
روحانی دنیا میں غیر اِرادی حرکت کا نام کشش اور اِرادی حرکت کا نام عمل ہے۔ غیر اِرادی تمام حرکات شخصِ اکبر کے ارادے سے واقع ہوتی ہیں لیکن فرد کی تمام حرکات فرد کے اپنے ارادے سے عمل آتی ہیں۔ جہاں تک نہرِ تسوید، تجرید اور تشہید کے اَوصاف ذات ِانسانی میں حرکت کرتے ہیں۔ وہاں تک اس کا مقام اجتماعی اور شخصِ اکبر کا مقام ہے۔ البتہ جہاں سے نہرِ تظہیر کا وصف حرکت میں آتا ہے وہاں سے ذات انسانی کا مقام انفرادی ہے۔
نہرِ تسوید، نہرِ تجرید اور نہرِ تشہید کی حدودِ حرکت میں جب کوئی خرقِ عادت پیش آتی ہے تو کرامت کہلاتی ہے۔ جب نہرِ تظہیر کی حدود میں حرکت میں کوئی خرقِ عادت پیش آتی ہے تو اِستدراج ہوتی ہے۔
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اَللہُ نُوْرُ السّمٰوٰاتِ وَالْاَرْض۔ اس کا تذکرہ پہلے آ چکا ہے۔ اس کی مزید تشریح یہ ہے کہ تمام مَوجودات ایک ہی اصل سے تخلیق ہوتی ہیں خواہ وہ مَوجودات بلندی کی ہوں یا پستی کی۔ ہم ساخت کی ترتیب کو حسب ذیل مثال سے واضح کر سکتے ہیں۔
شیشے کا ایک بہت بڑا گلوب ہے۔ اس گلوب کے اندر دوسرا گلوب ہے۔ اس دوسرے گلوب کے اندر ایک تیسرا گلوب ہے۔ اس تیسرے گلوب میں حرکت کا مظاہرہ ہوتا ہے اور یہ حرکت شکل وصورت، جسم و مادّیت کے ذریعے ظُہور میں آتی ہے۔ پہلا گلوب تصوّف کی زبان میں نہرِ تسوید یا تجلّی کہلاتا ہے۔ یہ تجلّی مَوجودات کے ہر ذرّہ سے لمحہ بہ لمحہ گزرتی رہتی ہے تا کہ اس کی اصل سیراب ہوتی رہے۔
دوسرا گلوب نہرِ تجرید یا نور کہلاتا ہے۔ یہ بھی تجلّی کی طرح لمحہ بہ لمحہ کائنات کے ہر ذرّہ سے گزرتا رہتا ہے۔
تیسرا گلوب نہرِ تشہید یا روشنی کا ہے۔ اس کا کردار زندگی کو برقرار رکھتا ہے۔
چوتھا گلوب نَسمہ کا ہے جو گیسوں کا مجموعہ ہے۔ اس ہی نَسمہ کے ہُجوم سے مادّی شکل وصورت اور مظاہرات بنتے ہیں۔
انجیل کے اندر اس ہی چیز کو حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
انجیل۔ اعمال، باب نمبر ۱۷، آیت ۲۴ تا ۲۸
نمبر ۱۔ آیت نمبر ۲۴
جس خدا نے دنیا اور اس کی سب چیزوں کو پیدا کیا وہ آسمانوں اور زمین کا مالک ہو کر ہاتھ کے بنائے ہوئے مندروں میں نہیں رہتا۔
اس آیت میں نہرِ تسوید اور نہرِ تجرید کا بیان ہے۔ اوّل اللہ تعالیٰ کی قوّت خالقیّت پوری کائنات کے ذرّہ ذرّہ پر مسلط ہے۔ اس ہی قوّت کے تسلط کو روحانیت کی زبان میں نہرِ تجرید یا نور کہتے ہیں۔ (دنیا اور اس کی سب چیزوں کو پیدا کیا۔۔۔ نہرِ تسوید، آسمانوں اور زمین کا مالک ہو کر ۔۔۔نہرِ تجرید)
نمبر۲۔ آیت نمبر۲۵
نہ کسی چیز کا محتاج ہو کر آدمیوں کے ہاتھوں سے خدمت لیتا ہے کیونکہ وہ تو خود ہی سب کو زندگی، سانس اور سب کچھ دیتا ہے۔
(زندگی نہرِ تشہید، سب کچھ نہرِ تظہیر یا نَسمہ)
نمبر۳:
نہرِ تشہید یا روشنی جسے انجیل کی زبان میں زندگی کہا گیا ہے۔ اس کی عطا کا سلسلہ ازل سے ابد تک جاری ہے۔
نمبر۴:
نہرِ تظہیر کی رَو جس کا دوسرا نام نَسمہ ہے کائنات کے مادّی اَجسام کو محفوظ اور متحرّک رکھتی ہے۔
* (نوٹ): اللہ تعالیٰ کے یہ چاروں تسلط مسلسل اور مستقل ہیں۔ ان میں سے کوئی تسلط اگر منقطع ہو جائے تو کائنات فنا ہو جائے گی۔ وہ تسلط خالقیّت کا ہو، مالکیّت کا ہو یا عطائے زندگی کا ہو یا عطائے نَسمہ کا۔
تشریح:
نمبر۱، کائنات کا لاشعور، نہرِ تسوید۔
نمبر ۲، کائنات کا شعور، نہرِ تجرید۔
نمبر۳، کائنات کا ارادہ، نہرِ تشہید۔
نمبر۴، کائنات کی حرکت، نہرِ تظہیر ہے۔
نوٹ: تمام حرکات نَسمہ کا عمل ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے ’’میں نے کھایا یا میں نے لکھا۔‘‘ وہ یہ نہیں کہتا کہ میرے منہ نے کھایا یا میرے ہاتھ نے لکھا۔ شعوری طور پر نَسمہ ہی تمام اعمال کا دعویدار ہے اوربرائی بھلائی کا صُدور اِسی سے ہوتا ہے۔ اس ہی کی تشریح انجیل، باب۱۷ آیت ۲۷۔۲۸ میں کی گئی ہے۔
’’تا کہ خدا کو تلاش کریں شاید کہ اسے پا لیں ہر چند وہ ہم میں سے کسی سے دور نہیں ہے۔’’
’’(نہرِ تجرید) کیوں کہ ‘‘ اس ہی میں ہم جیتے’’(نہرِ تشہید)، ‘‘چلتے پھرتے(نہرِ تظہیر)، اور ’’موجود ہیں‘‘ (نہرِ تسوید) ہے۔
نوٹ: ان دونوں آیتوں میں بھی چاروں نہروں کا تذکرہ ہے جن میں سے ایک نہرِ تظہیر یا نَسمہ ہے۔ اس ہی مفہوم کو حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے مَنْ عَرَفْ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ میں بیان فرمایا ہے۔ جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا یعنی سب انسان کے نفس ناطقہ سے بالکل متّصل ہے۔ یہاں پڑھنے والے کے ذہن میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ برائی بھلائی سب کا خالق اللہ ہے۔ یہ بات صحیح ہے۔ اسلام اس کا شاہد ہے لیکن برائی بھلائی کا خالق ہونے سے اللہ تعالیٰ پر کسی فعل کے صُدور کی ذمّہ داری عائد نہیں ہوتی جب کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو برائی یا بھلائی کرنے کا اِختیار دیا ہے۔ اس کی سب سے پہلی مثال حضرت آدمؑ کے لئے شجر ممنوعہ کے قریب جانے کی ممانعت تھی۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ممانعت کرنے سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو یہ اِختیار دے دیا تھا کہ وہ شجر ممنوعہ کے قریب جائیں یا نہ جائیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں برائی بھلائی کا خالق ہونا اللہ تعالیٰ کا وصف ہے لیکن برائی کرنا یا نہ کرنا انسان کا اپنا اِختیار ہے۔ ) *
اب ہم نَسمہ کی صلاحیّتوں کا تذکرہ کریں گے۔ اس تذکرہ کے بعض حصّے اِستدراج کے خُصوصی بیانات ہیں۔ قرآنِ پاک سے یہ بات ثابت ہے کہ ازل سے ابد تک اللہ تعالیٰ کا حکم نافذ ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر محیط ہیں
أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَاءِ رَبِّهِمْ ۗ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ
(آیت ۵۴، سورۃ حٰم السجدہ، پارہ ۲۵)
اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی اور اللہ تعالیٰ کے علم سے کسی چیز کا باہر ہونا ناممکن ہے۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ریکارڈ علم کا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفَت ہے اور ایک ریکارڈ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔
اللہ تعالیٰ کی معرفت قدیم ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرح ہمیشہ اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ چنانچہ یہ دونوں ریکارڈ اللہ تعالیٰ کی صفَتِ علم اور صفَتِ حکم میں موجود ہیں۔ صفَتِ علم کو ’’علمُ القلم‘‘ اور صفَتِ حکم کو ’’لوحِ محفوظ‘‘ کہتے ہیں۔ ان دونوں ریکارڈوں کی موجودگی ایسی غیب کی دنیا کا پتہ دیتی ہے جس سے ہماری دنیا کی إبتداء ہوتی ہے۔ لوحِ محفوظ کے تمام اَحکامات بصورتِ تَمثال عالمِ غیب میں موجود ہیں اور یہ اَحکامات علمِ الٰہی کے مطابق تفصیل کے ساتھ عالمِ ناسُوت یعنی اس مادّی دنیا میں نازل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا ہے۔ میں نے ہر چیز کو دو رُخوں پر پیدا کیا ہے۔ اس نزول کا ایک رُخ عمل کرانے والے یعنی فرشتے ہیں اور دوسرا رخ عمل کرنے والی عالمِ ناسُوت کی مخلوق ہے۔
نہروں کی حدود چار عالموں سے موسوم ہیں۔
① نہرِ تسوید کی حدود عالمِ لاہوت
② نہرِ تجرید کی حدود عالمِ جبروت
③ نہرِ تشہید کی حدود عالمِ ملکوت اور
④ نہرِ تظہیر کی حدود عالمِ ناسُوت ہے۔
عالمِ لاہوت وہ دائرہ ہے جس کے اندر علمِ الٰہی بصورت غیب متمکن ہے۔ اس دائرہ کی تجلّی میں ایسے لاشمار دائرے ہیں جو خَفیف ترین نقطہ سے دائرہ کی شکل میں توسیع اِختیار کر کے پوری کائنات کو محیط ہوتے رہتے ہیں۔ تجلّی کا ہر نقطہ جب دائرہ بنتا ہے تو پہلے ہر نقطہ کے دائرے سے بڑا ہوتا ہے۔ تجلّی کے یہ لاشمار دائرے کائنات کی تمام اصلوں کی اصل ہیں۔ ہم اس غیب کا نام بَرتَر اَز وَراءِ شُہود (غیبُ الغیب) رکھ سکتے ہیں۔ لاشعور کی اصل تجلّی کے ان ہی دائروں سے اَنواع کائنات کی اصلیں بنتی ہیں۔ اگر ساری مَوجودات کی صلاحیّتیں جمع کی جائیں اور ہم ان صلاحیّتوں کی ماہیت کو تلاش کرنا چاہیں تو اس تلاش کی انتہا پر تجلّی کے دائرے پائیں گے۔ لیکن ان دائروں کو صرف روح کی نگاہ دیکھ سکتی ہے جو تخلیق کی اصل ہے۔
جب یہ تجلّی اپنی حد سے نزول کرتی ہے تو اَنواع کائنات کی ماہیت (تصوّر) بن جاتی ہے۔ ہم اس کو عام الفاظ میں لاشعور (غیب) کہہ سکتے ہیں۔ تصوّف میں ایسی ماہیت کی حدود کا نام نہر ِتجرید ہے۔ جب یہ نہر اپنی حدوں سے نزول کرتی ہے تو شعور بن جاتی ہے۔ اس ہی دائرۂِ شعور کا نام نہرِ تشہید ہے۔ جب نہرِ تشہید اپنی حدوں سے نزول کرتی ہے تو عالم محسوس کی حدوں میں داخل ہو جاتی ہے جس کو عالمِ ناسُوت یا مادّی دنیا بھی کہتے ہیں۔ یہی دنیا حرکت کا ظُہور ہے۔ اس ہی کو تصوّف کی زبان میں مظہر کہتے ہیں۔
علم کی دو قسمیں ہیں:
① علمِ حُضوری، اور
② علمِ حُصولی۔
علمِ حُضوری کی دو قسمیں ہیں:
① غیبُ الغیب (علمُ القلم)، اور
② غیب (علمِ لوح)
علمِ حُصولی کی بھی دو قسمیں ہیں:
① علمِ شعور، اور
② علمِ احساس
علمِ حُضوری کائنات کے صفاتی احساس کا مجموعہ ہے۔
علمِ حُضوری روح کی بیداری سے میسر آتا ہے۔
علمِ حُصولی اگرچہ محض روح کی تحریکات کا نتیجہ ہے لیکن اس کا اظہار جسم کے ذریعے ہوتا ہے۔
فلسفی علماء
ایک عارف مظہر یعنی عالمِ ناسُوت سے صَعود کر کے زینہ بہ زینہ عالمِ ملکوت، جبروت اور لاہوت تک جا پہنچتا ہے۔ یہ ترقی جسمانی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ اس راستہ میں صرف روح کی کوششیں کام دیتی ہیں۔
انسان کی پیدائش سے لے کر حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام تک جس قدر صحیفے نازل ہوئے ہیں ان میں اس بات کی پوری وضاحت کی گئی ہے۔ یونانی فلسفہ نے بھی ان ہی صحائف سے فائدہ اٹھایا ہے اگرچہ یہ فائدہ انہیں انبیاء کے شاگردوں ہی سے پہنچا لیکن ان کی اپنی عقل کی کارفرمائی نے اس کو زیادہ سے زیادہ الجھا دیا ہے اور ایسی متبدّل تحریفات کیں جن سے ان کے شاگرد غلط راستے پر پڑ گئے۔ ان یونانی فلسفیوں کے علاوہ اور ممالک کے فلسفی بھی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام سے پیشتر ان تحریفات میں شریک تھے۔ فلسفہ کی تعلیمات کا یہ خُصوصی زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کے بعد اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش سے پہلے کا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کی تعلیمات میں جس ’’انا‘‘ کی وضاحت کی گئی ہے اس ’’انا‘‘ کو اہل فلسفہ کی کوششوں نے مبہم ہی نہیں بلکہ مہمل کر دیا۔ بالخصوص تیسری، چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں علماءِ اسلام یونانی فلسفہ سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ان کی طرزِ فکر عقل کی ایسی راہوں پر گامزن نظر آتی ہے جو فلسفہ نے نکالی تھیں دراصل اس قسم کے علماءِ فریب ا س معرفت سے دور ہو چکے تھے جو حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام سے صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کو پہنچی تھی۔
جس ’’انا‘‘ کا ہم نے تذکرہ کیا ہے، قرآنِ پاک میں کئی جگہ اس کی طرف اشارات ملتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے ذہن میں یہ تجسّس پیدا ہوا کہ میرا رب کون ہے؟ کہاں ہے؟ اور اس تجسّس میں ان کا ذہن ستارہ، چاند اور سورج کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ قرآنِ پاک کی آیت۔۔۔۔۔۔
وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ (75) فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ (76) فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ (77) فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَبِّي هَٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ (78) إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (79) وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللہ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ (80) وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللہ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (81) الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ (82) وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (83)
ترجمہ: اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات دکھائیں تا کہ وہ عارف ہو جائیں اور کامل یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ پھر جب رات کی تاریکی ان پر چھا گئی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا۔ آپ نے فرمایا۔ یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا میں غروب ہوجانے والوں سے محبّت نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا یہ میرا رب ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا، اگر مجھ کو میرا رب ہدایت نہ کرتا رہے تو میں گمراہ لوگوں میں شامل ہو جاؤں۔ پھر جب آفتاب کو دیکھا چمکتا ہوا تو فرمایا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے، سو جب وہ غروب ہو گیا تو آپ نے فرمایا۔ اے قوم بے شک میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں نہیں ہوں۔ اور ان سے ان کی قوم نے حجت کرنا شروع کی۔ آپ نے فرمایا۔ تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ اس نے مجھ کو طریقہ بتلا دیا تھا اور ان چیزوں سے جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو نہیں ڈرتا۔ ہاں لیکن اگر میرا پروردگار ہی کوئی امر چاہے۔ میرا پروردگار ہر چیز کو اپنے علم کے گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ کیا تم پھر خیال نہیں کرتے اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے۔ حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ سو ان دو جماعتوں میں سے امن کی زیادہ مستحق کون ہے، اگر تم خبر رکھتے ہو، جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔ ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہِ ہدایت پر چل رہے ہیں۔ اور یہ ہماری حجت تھی جو ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم کے مقابلے میں دی تھی۔ ہم جس کو چاہتے ہیں رتبے میں بڑھا دیتے ہیں۔ بے شک آپ کا رب بڑا علم والا بڑا حکمت والا ہے۔
(سورۃ انعام۔ آیت ۷۶ تا ۸۴۔ پارہ ۷)
لیکن جب وہ چاند، سورج کو اپنی آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ میں چھپنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ رب کی نفی نہیں ہو سکتی۔ رب وہ ہے جس کا انسان کے ضمیر سے جدا ہونا ہرگز ممکن نہیں۔ غیر رب وہ ہے جس کا انسان کے ضمیر سے جدا ہونا ممکن ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اس قول سے ’’انا‘‘ کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ اس ہی ’’انا‘‘ کو حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے ’’نفس‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے ’’حَبلِ الوَرید‘‘ فرمایا ہے۔ یہی وہ ذاتِ انسانی یا انا (ضمیر) ہے جس سے اس کا رب جدا نہیں ہو سکتا۔ اور یہی معرفتِ الٰہیہ کا پہلا قدم ہے۔ اگر ’’انا‘‘ اپنے رب کو خود سے جدا سمجھے تو وہ معرفتِ الٰہیہ سے محروم ہے۔
دنیا کا ہر انسان جانتا ہے کہ زندگی کی تجدید ہر لمحہ ہوتی رہتی ہے۔ اس تجدید کے ظاہری مادّی وسائل ہوا، پانی اور غذا ہیں لیکن انسانی جسم پر ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے جب ہوا، پانی اور غذا زندگی کی تجدید نہیں کر سکتی۔ مادّی دنیا میں ایسی حالت کو موت کہتے ہیں۔ جب موت وارِد ہو جاتی ہے تو کسی طرح کی ہوا، کسی طرح کا پانی اور کسی طرح کی غذا آدمی کی زندگی کو بحال نہیں کر سکتی۔ اگر ہوا، پانی اور غذا ہی انسانی زندگی کا سبب ہوتے تو کسی مُردہ جسم کو ان چیزوں کے ذریعے زندہ کرنا ناممکن نہ ہوتا۔ اب یہ حقیقت بے نقاب ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی کا سبب ہوا، پانی اورغذا نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ اس سبب کی وضاحت بھی قرآنِ پاک کے ان الفاظ سے ہوتی ہے:
سُبْحَانَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّھَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ وَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَo
(سورۃ یٰسین۔ آیت ۳۶)
پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کو دو قسموں پر پیدا کیا۔
اس آیت کی روشنی میں زندگی کے اسباب میں ایک طرف شعوری، اسباب ہیں اور دوسری طرف لاشعوری اسباب ہیں۔ ایک سبب غیر رب کی نفی ہے جو زندگی کو بحال رکھنے کے لئے جُزواعظم ہے۔ انسان شخصِ اکبر کے ارادے کے تحت اس امر کی تعمیل کرنے پر مجبور ہے۔ جب ہم آدمی کی پوری زندگی کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی زندگی کا نصف لاشعور کے اور نصف شعور کے زیر اثر ہے۔ پیدائش کے بعد انسانی عمر کا ایک حصّہ قطعی غیر شعوری حالت میں گزرتا ہے۔ پھر ہم تمام زندگی میں نیند کا وقفہ شمار کریں تو وہ عمر کی ایک تہائی سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر غیر شعوری عمر اور نیند کے وقفے ایک جگہ کئے جائیں تو پوری عمر کا نصف ہوں گے۔ یہ وہ نصف ہے جس کو انسان لاشعور کے زیر اثر بسر کرتا ہے۔ ایسا کوئی انسان پیدا نہیں ہوا جس نے قدرت کے اس قانون کو توڑ دیا ہو چنانچہ ہم زندگی کے دو حصّوں کو لاشعوری اور شعوری زندگی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہی زندگی کی دو قسمیں ہیں۔ لاشعوری زندگی کا حصّہ لازماً غیر رب کی نفی کرتا ہے اور اس نفی کا حاصل اسے غیر اِرادی طور پر جسمانی بیداری کی شکل میں ملتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص لاشعور کے زیر اثر زندگی کے وقفوں میں اضافہ کر دے تو اسے روحانی بیداری میسر آ سکتی ہے۔ اس اُصول کو قرآنِ پاک نے سورۂ مزمّل میں بیان فرمایا ہے:
’’اے کپڑوں میں لپٹنے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات (کہ اس میں قیام نہ کرو بلکہ آرام کرو) یا اس نصف سے کسی قدر کم کر دو یا نصف سے کسی قدر بڑھا دو اور قرآن خوب خوب صاف پڑھو (کہ ایک ایک حرف الگ الگ ہو)، ہم تم پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں۔ بے شک رات کے اٹھنے میں دل اور زبان کا خوب میل ہوتا ہے۔ اور بات خوب ٹھیک نکلتی ہے۔ بیشک تم کو دن میں بہت کام رہتا ہے (دنیاوی بھی اور دینی بھی) اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کر کے اس ہی کی طرف متوجّہ رہو۔ وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اس کے سوا کوئی قابلِ عبادت نہیں۔‘‘
متذکرہ بالا آیات کی رُو سے جس طرح جسمانی توانائی کے لئے انسان غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے کا پابند ہے۔ اس ہی طرح روحانی بیداری کے لئے شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنا ضروری ہے۔ سورۂ مزمل شریف کی مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہی قانون بیان فرمایا ہے جس طرح غیر شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے جسمانی زندگی تعمیر ہوتی ہے اس ہی طرح شعوری طور پر غیر رب کی نفی کرنے سے روحانی زندگی حاصل ہوتی ہے۔
جس چیز کو مذکورہ بالا عبارت میں لاشعور کہا گیا ہے اور حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی زبان میں ’’نفس‘‘ اور قرآنِ پاک کی زبان میں ’’حَبلِ الوَرید‘‘ اس ہی کو تصوّف کی زبان میں ’’انا‘‘ کہتے ہیں۔ جب غیر رب کی نفی کی جاتی ہے اور ’’انا‘‘ کا شعور باقی رہتا ہے تو یہی ’’انا‘‘ اپنے رب کی طرف صَعود کرتی ہے جب یہ ’’انا‘‘ صَعود کر کے صفَتِ الٰہیہ (شخصِ اکبر) میں جذب ہو جاتی ہے تو صفَتِ الٰہی کے ساتھ منسلک ہو کر حرکت کرتی ہے۔ ’’انا‘‘ کے صفَتِ الٰہیہ میں جذب ہو جانے کی کئی منزلیں ہیں۔ پہلی منزل ہے ایمان لانا۔ اس ایمان کے بارے میں قرآنِ پاک نے اپنی ابتدائی آیت میں شرائط بندی کر دی ہے۔
الٓمٓ o ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَo الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب….
ترجمہ: یہ کتابِ الٰہی ہے جس میں کوئی شبہ نہیں، راہ بتلانے والی ہے خدا سے ڈرنے والے لوگ ایسے ہیں کہ یقین لاتے ہیں چھپی ہوئی چیزوں پر ۔(سورۃ البقرہ)
قانون:
غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا ضروری ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں لوحِ محفوظ کا یہی قانون بیان ہوا ہے۔ نَوعِ انسانی اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اس قانون پر عمل پیرا ہے۔ یہ دن رات کے مشاہدات اور تجربات ہیں۔ جب تک ہم کسی چیز کی طرف یقین کے ساتھ متوجّہ نہیں ہوتے ہم اسے دیکھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔ اگر ہم کسی درخت کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو اس درخت کی ساخت، پتیاں، پھول، رنگ سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے لیکن پہلے ہمیں قانون کی شرط پوری کرنا پڑتی ہے یعنی پہلے ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے درخت ہے۔ اس یقین کے اسباب کچھ ہی ہوں تا ہم اپنے اِدراک میں کسی درخت کو جو ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے ایک حقیقتِ ثابِتہ تسلیم کرنے کے بعد اس درخت کے پھول، پتوں، ساخت اور رنگ و روپ کو دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہمارے ذہن میں درخت نہ ہو تو پھر اس کی تشریح کرنا ہماری بصارت کے لئے ناممکن ہے کیونکہ بصارت ہی یقین کی وضاحت کرتی ہے۔
ہماری روزمرّہ زندگی میں یہی قانون جاری و ساری ہے۔ جب ہم ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف سفر کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ہم جس شہر کی طرف جا رہے ہیں وہ موجود ہے اگر چہ اس شہر کو ہم نے دیکھا نہ ہو۔ لوحِ محفوظ کا یہی وہ قانون ہے جو مادّی دنیا اور روحانی دنیا دونوں میں یکساں نافذ ہے۔ بچہ کی تربیت کا سارا دارومدار اِسی قانون پر ہے۔ ہر بچہ بتائی ہوئی بات کو حقیقت تسلیم کر کے اِستفادہ کرتا ہے۔
اب ہم ’’انا‘‘ کے نزول اور صَعود کی تھوڑی سی تشریح کرتے ہیں۔ ’’انا‘‘ یا ذات انسانی یا نفس جس کو روح بھی کہتے ہیں۔ روشنی کا ایسا ہیولیٰ ہے جو ایک طرف اپنی اصل کے ساتھ اور دوسری طرف اپنی نَوع کے ساتھ منسلک ہے۔ اس کی اصل صفاتِ الٰہیہ کا وہ مجموعہ ہے جس کے ذریعے تمام کائنات کے حواس ایک رشتہ میں بندھے ہوئے ہیں، گویا لطیف روشنی کا ایک سمندر ہے جس کی سطح پر کائنات کی تمام شکلیں اور صورتیں ابھرتی ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک شکل وصورت اپنی نَوع کے اعمال اور اشغال انجام دے کر سمندر کے اندرڈوب جاتی ہیں۔ ہر نَوع کی کسی ایک شکل وصورت کا نام ’’فرد‘‘ ہے۔ اس فرد کا احساس دو اَجزاء سے مرکّب ہے۔ یہ احساس دریا کی تہہ سے اپنا سفر شروع کر کے دریا کی سطح تک پہنچتا ہے۔ سطح پر ابھرنے کے بعد ’’فرد‘‘ کا مَخفی احساس شعور بن جاتا ہے۔ اس حالت میں فرد سے جو حرکات صادِر ہوتی ہیں وہ تمام شعوری حرکات کہلاتی ہیں۔ یہی اس کی خارجی زندگی ہے لیکن فرد کا مَخفی احساس اس کا لاشعور ہے۔ دراصل یہ لاشعور سمندر کے تمام قطروں کے مَخفی احساسات کا مجموعہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو سمندر کا اجتماعی شعور کہنا چاہئے سمندر کا اجتماعی شعور فرد کا لاشعور ہوتا ہے۔ اِسی طرح تمام افراد جو سمندر کی تہہ سے ابھر کر سطح پر آتے ہیں وہ سب کے سب ایک مَخفی شعور کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ سمندر میں جب اس شعور کی ڈور ہلتی ہے تو سمندر کی سطح پر ابھرنے والے تمام افراد خود کو ایک دوسرے سے متعارف اور مانوس محسوس کرتے ہیں۔ جب ایک آدمی سورج کو دیکھتا ہے تو وہ ایسا محسوس کرتا ہے کہ سورج بھی میری طرح اس کائنات کا ایک فرد اور ایک رکن ہے۔ وہاں اس کو اپنے ذہن کی سطح پر اپنی ہستی اور سورج کی ہستی کا یکساں احساس ہوتا ہے حالانکہ ایک آدمی کی نَوع سورج کی نَوع سے بالکل الگ ہے۔ اس ہی ربط اور تعارف کو تصوّف میں نسبت کہتے ہیں۔ یہ نسبت وہ مَخفی احساس ہے جو سمندر کی تہہ میں ہر نَوع کے ہر فرد کو محیط ہے۔ اس ہی کی وجہ سے کائنات کا ہر ذرّہ کائنات کی مشترک صفات کا مالک ہے۔ انسان کی ’’انا‘‘ اپنے شعور میں اس ہی مَخفی احساس یا نسبت کے ذریعہ آہستہ آہستہ اپنی کوششوں سے کائنات کی مختلف صفات سے تعارف حاصل کر لیتی ہے۔ مَخفی طور پر تو انسان کی انا کائنات کی مشترک صفات سے پہلے ہی رُوشناس ہوتی ہے لیکن وہ اپنی کوششوں کے ذریعہ آہستہ آہستہ اس مَخفی احساس کو اپنے شعور میں منتقل کر لیتی ہے۔ اب اس میں یہ صلاحیّت پیدا ہو جاتی ہے کہ سمندر کے اندر کائنات کی مشترک صفات میں جو تحریکات ہوتی ہیں ان کو محسوس کرتی اور دیکھ لیتی ہے۔ جب سمندر کے اندر یا غیب میں حرکت ہوتی ہے تو فرد کو اس کا پورا علم ہوتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس کا قانون بیان فرمایا ہے جس کا تزکرہ آ چکا ہے۔
‘‘ہم نے سب چیزوں کو دو قسموں پر پیدا کیا ہے۔’’
دو قسمیں یا دو رُخ مل کر وُجود ہوتے ہیں مثلاً پیاس، شئے کا ایک رخ ہے۔ اور پانی دوسرا رخ۔ پیاس روح کی شکل وصورت ہے اور پانی جسم کی شکل و صورت یعنی اِمتِثال کے دو رخ ہیں۔ ایک روح، دوسرا جسم۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ہیں۔ اگر دنیا سے پیاس کا احساس فنا ہو جائے تو پانی بھی فنا ہو جائے گا۔ تصوّف کی زبان میں روح والے رخ کو تمثُّل کہتے ہیں اور مادّی رخ کو جسم کہتے ہیں۔ اگر دنیا میں کوئی وبا پھوٹ پڑے تو یہ امر یقینی ہے کہ اس کی دوا پہلے سے موجود ہے۔ اس ہی طرح وبائی مرض اور اس وبائی مرض کی دوا دونوں مل کر ایک اِمتِثال کہلائیں گے۔
قانون:
کسی شئے کی معنویّت، ماہیت یا روح علمِ شئے کہلاتی ہے اور اس کا جسمانی اِنشراح یا مظہر شئے کہلاتا ہے۔ اگر کسی طرح روح کا إثبات ہو جائے تو شئے کا موجود ہونا یقینی ہے۔
جس وقت ہم گرمی محسوس کرتے ہیں اس وقت ہمارے احساس کے اندرونی رخ میں برابر سردی کا احساس کام کرتا رہتا ہے۔ جب تک اندرونی طور پر سردی کا یہ احساس باقی رہتا ہے۔ ہم خارجی طور پر گرمی محسوس کرتے ہیں۔ یعنی لاشعور میں سردی کا احساس اور شعور میں گرمی کا احساس دونوں مل کر ایک اِمتِثال ہے۔ چنانچہ ایک رخ علمِ شئے اور دوسرا رخ شئے ہوتا ہے۔ اگر کہیں علمِ شئے کا سُراغ مل جائے تو پھر شئے کا وُجود میں آنا لازمی ہے۔ اگر کسی کی طبیعت کونین (QUININE) کی طرف رغبت کرنے لگے تو لازماً اس کے اندر ملیریا (MALARIA) موجود ہے جس کا واقع ہونا لازمی ہے کیونکہ کونین کی رغبت علمِ شئے ہے اور ملیریا شئے ہے۔
اَنا یا انسانی ذہن کی ساخت
جب ہم کسی چیز کی طرف دیکھتے ہیں تو طبی سائنس کی تحقیق کے مطابق اس چیز سے خارج ہونے والی روشنیاں آنکھوں کے ذریعہ دماغ کے معلوماتی ذخیرہ تک پہنچتی ہیں۔ ہم اس عمل کو دیکھنا کہتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ ہمارا علم داخلی ہے۔ اس داخلی علم کے کئی اَجزاء ہیں جسے باصرہ یا باصرہ کے علاوہ دیگر حِسوں کا نام دیا جاتا ہے اور یہی حِسیں مشاہدہ کا ذریعہ بنتی ہیں۔ یہ مشاہدات فکر سے شروع ہو کر دیکھنے، سننے، چکھنے، سونگھنے اور چھونے پر مکمل ہوتے ہیں۔ مشاہدات میں کسی جسمانی حرکت کو دخل نہیں ہوتا۔ یہ صرف انا کی تحریکات ہیں۔ مشاہدات میں مادّی اعضاء معطّل رہتے ہیں۔ فی الواقع زندگی ’’انا‘‘ کی تحریکات کا نام ہے۔ ’’انا‘‘ کے ہی جسم کو ’’روح مثالی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی جسم خواب میں چلتا پھرتا او رسارے کام کرتا ہے۔ یہ ’’جسمِ انا‘‘ خاکی جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے اور بغیر خاکی جسم کے بھی۔
اعمال کی دو قسمیں ہیں:
ایک قسم اُن اعمال کی جو بغیر خاکی جسم کے انجام پاتے ہیں جیسے خواب کے اعمال۔ دوسری قسم کے اعمال وہ ہیں جو ہم بیداری میں خاکی جسم کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ ان اعمال کی إبتداء بھی ذہنی تحریکات سے ہوتی ہے۔ بغیر ذہن کی رہنمائی کے خاکی جسم ہلکی سے ہلکی جنبش نہیں کر سکتا۔ گویا داخلی تحریکات ہی زندگی کے اصل اعمال ہیں۔
اب ہم ’’انا‘‘ کی فاعلیت کا تجزیہ کرتے ہیں۔
زید نے محمود کو دیکھا۔ زید ایک ’’انا‘‘ ہے۔ وہ صرف اپنی انا کی حد میں دیکھ سکتا ہے۔ وہ اپنی انا کی حد سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ گویا اس نے محمود کو اپنی حدِّ وُجود میں دیکھا ہے۔ مشاہدات کی زبان میں یوں کہا جائے گا کہ زید کی انا نے خود کو محمود بن کر دیکھا ہے کیونکہ زید محمود کی حد میں اور محمود زید کی حد میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ اگر زید محمود کی حد میں قدم رکھ سکتا تو اس کا نام زید نہیں رہتا بلکہ محمود بن جاتا اور اس کی اپنی انا تلف ہو جاتی۔ دیکھنے کا عمل جن حدود میں واقع ہوا وہ حدیں فقط زید کی انا سے وابستہ ہیں۔ دراصل ہر انا میں کائنات کی تمام انائیں موجو دہیں اور ہر انا ایک جداگانہ فرد کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
انا کی تحلیل
خاکی دنیا کے ساتھ ایک دوسری دنیا بھی آباد ہے۔ یہ دوسری دنیا مذہب کی زبان میں ’’اعراف‘‘ یا ’’برزخ‘‘ کہلاتی ہے۔ اس دنیا میں زندگی بھر انسان کا آنا جانا ہوتا رہتا ہے۔ اس آنے جانے کے بارے میں بہت سی حقیقتیں انسان کی نگاہ سے چھپی ہوئی ہیں لیکن یہ آمد و رفت غفلت کی حالت میں واقع ہوتی ہے جب انسان سو جاتا ہے تو خاکی دنیا ملکوتی دنیا میں منتقل ہو جاتی ہے۔ چلتی پھرتی، کھاتی پیتی اور وہ سارے کام کرتی ہے جو بیداری کی حالت میں کر سکتی ہے۔ انسانوں نے اس کا نام خواب رکھا ہے لیکن کبھی اس حقیقت پر غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ خواب بھی زندگی کا ایک جُزو ہے۔
اس مقام پر کائنات کی ساخت کا مُجمّل تذکرہ کر دینا ضروری ہے۔ عام اِصطلاح میں جس کو جمادات کہا جاتا ہے وہ حیات کا ابتدائی ہیولیٰ ہے۔
کائنات کی ساخت
کائنات کی ساخت میں نَسمہ(نظر نہ آنے والی روشنی) ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ احاطہ کرنے سے مراد ہر مثبت اور منفی زندگی کی بساط میں نَسمہ کا محیط ہونا ہے۔ گویا ہر چیز کے کم ترین اور لانشان جُزو ’’لاتجزأ‘‘ کی بنیاد دو قسموں پر ہے۔ ایک اس کی منفیت اور دوسری اس کی إثباتیت۔ ان ہی دونوں صلاحیّتوں کی یکجائی کا نام نَسمہ ہے۔
ہم عام گفتگو میں لفظ پیاس استعمال کرتے ہیں لیکن اس لفظ کے جو معنی سمجھتے ہیں وہ غیر حقیقی ہیں۔ اصل میں پیاس اور پانی دونوں مل کر ایک وُجود بناتے ہیں۔ منفیت پیاس، إثباتیت پانی۔ واضح طور پر اس طرح کہنا چاہئے کہ پیاس روح ہے اور پانی جسم۔ پیاس ایک رخ ہے اور پانی دوسرا رخ۔ اگرچہ یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے متضاد ہیں تا ہم ایک ہی وُجود کے دو اَجزاء ہیں۔ پیاس سے پانی کو اور پانی سے پیاس کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک دنیا میں پیاس موجود ہے پانی موجود ہے۔ یعنی پیاس کا ہونا پانی کے وُجود کی روشن دلیل ہے۔ اِسی طرح پانی کا ہونا پیاس کے وُجود کی روشن دلیل ہے۔ روحانیت میں یہ دونوں مل کر ایک وُجود ہیں لیکن ان کی پیوستگی ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح نہیں ہے جس طرح ایک ورق کے دو صفحات کی۔ ایک ورق کے دو صفحات ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں ہو سکتے لیکن پیاس اور پانی کا وُجود ایک ایسا ورق ہے جس میں صرف مکانی فاصلہ ہے، زمانی فاصلہ نہیں ہے۔ اس کے برخلاف کاغذ کے ورق میں صرف زمانی فاصلہ ہے، مکانی فاصلہ نہیں ہے۔ اشیاء کی ساخت میں اللہ تعالیٰ نے دو رخ رکھے ہیں۔ کسی شئے کے دو رخوں میں یا تو مکانی فاصلہ نمایاں ہوتا ہے یا زمانی فاصلہ نمایاں ہوتا ہے۔ ایک آدمی کرۂ ارضی پر پیدا ہوتا ہے اور رحلت کرتا ہے۔ ان دونوں رخوں کے درمیان زمانی فاصلہ ہے۔ اس زمانی فاصلہ کے نقش و نگار اس کی زندگی ہیں، جو حقیقتاً مکانیت ہے۔
ظاہر و باطن
اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کی حیات کا زمانی رخ باطن اور مکانی رخ ظاہر ہے۔ ہم جس چیز کو ظاہر کہتے ہیں اس کے تمام نقش و نگار ’’مکانیتِ زندگی‘‘ پر مشتمل ہیں لیکن یہ جس بساط پر قائم ہیں وہ زمانیت ہے۔ بغیر زمانیت کی بساط کے کائنات کا کوئی نقش ظُہور میں نہیں آ سکتا۔ جب یہ معلوم ہو گیا کہ ان تمام مظاہر کی بساط زمانیت ہے جس کو ہم مادّی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمام مظاہر کی بنیادیں ہماری آنکھوں سے مَخفی ہیں۔ تصوّف میں زمانیت کا دوسرا نام نَسمہ ہے۔ یہ ایسی روشنی ہے جس کو خلا کہہ سکتے ہیں۔ اور خلا ایک وُجود رکھتا ہے۔ دراصل یہ ایک حرکت ہے جو ازل سے ابد کی طرف حرکت کر رہی ہے۔ اس سفر کے پہلے دائرۂِ روانی کا نام ’’عالمِ ملکوت‘‘ ہے جس کو منفی عنصریت کا عالم کہہ سکتے ہیں۔ ہم پہلے نسمۂِ مُفرد اور نسمۂِ مرکّب کا تذکرہ کر چکے ہیں۔
زمانیت کی ترکیب نسمۂِ مُفرد سے ہوتی ہے اور مکانیت کی ترکیب نسمۂِ مرکّب سے۔ فرشتے، جنّات اور ان کے عالم وہ نقش و نگار ہیں جو زمانیت کی ترکیب پر مشتمل ہیں لیکن عالمِ مادّی اور اس کے مظاہر مکانیت کی ترکیب کا نتیجہ ہیں۔ خلا کی اکہری حرکت کا نام زمان یا نَسمہ مُفرد ہے اور فاصلہ کی دوہری حرکت کا نام ’’مکان‘‘ یا نسمۂِ مرکّب ہے۔ اوّل اوّل تو خلا میں جو لا محسوس حرکت واقع ہوتی ہے وہی ’’مَوالیدِ ثلاثہ‘‘ کی اصل ہے۔ اس حرکت میں جس قدر تیزئ رفتار پیدا ہوتی ہے اس ہی قدر نَسمہ کا ہُجوم بڑھ جاتا ہے ۔ یہ ہُجوم دو مراتب پر منقسم ہے۔ ایک مرتبہ ’’عَین‘‘ دوسرا ’’مکان‘‘۔ عین کی ماہیت اور مکان کو مظہر کہہ سکتے ہیں۔ عین گریز(منفی) ہے۔
مکان کشش مثبت ہے۔ جب دونوں کی اجتماعیت میں کشش کا غلبہ ہوتا ہے تو ’’عالمِ ناسُوت‘‘ (مادّی دنیا) کی شکلیں وقوع میں آتی ہیں۔ ان کو مادّی جسم کہا جاتا ہے۔ لیکن جب گریز کا غلبہ ہوتا ہے تو ملکوتی شکلیں وُجود میں آتی ہیں۔ ملکوتی مخلوق کے دو مراتب ہیں۔ ایک مرتبہ میں عین کی صفات کا ہُجوم امکان کی صفات کے ہُجوم پر غالب رہتا ہے۔ اس مرتبہ کی مخلوق کا نام ملائکہ ہے۔ دوسرے مرتبہ میں امکان کی صفات کا ہُجوم عین کی صفات کے ہُجوم پر غالب آ جاتا ہے۔ اس مرتبہ کی مخلوق کا نام جنّات ہے۔ نَسمہ جن دو رخوں پر مشتمل ہے، ان میں ایک رخ گریز ہے۔ گریز کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کی ذات جو روشنیوں کا مجموعہ ہے، اس کے اندر دو حرکات مسلسل واقع ہوتی رہتی ہیں۔ ایک حرکت ذات کے انوار کا خارج کی طرف متواتِر سفر کرتے رہنا۔ دوسری حرکت خارج سے نہروں کی روشنیاں برابر اپنے اندر جذب کرتے رہنا ہے۔ گویا نَسمہ کی دوصفات ہیں۔ ایک ملکوتی، دوسری بشری۔ ان دونوں صفات میں ہر صفَت ایک اُصول کی پابند ہے۔ کوئی فرد خارجی دنیا میں جتنا مُستَغرق ہوتا ہے اس کے نقطۂِ ذات کی روشنیاں اتنی ہی ضائع ہو جاتی ہیں۔ یہ روشنیوں کے گریز کا پہلو ہے۔ یہ وہی روشنیاں ہیں جن کی صفَت ’’مَلَکیّت‘‘ ہے۔ ان روشنیوں کے ضائع ہونے سے مَلَکیّت کی صفَت بھی ضائع ہو جاتی ہے۔ نقطۂِ ذات میں روشنیوں کی ایک معیّن مقدار ہوتی ہے جو مَلَکیّت اور بشریت کا توازن قائم رکھتی ہے۔ اگر اس روشنی کی مقدار کم ہو جائے گی تو حیوانی اور مادّی تقاضے بڑھ جائیں گے۔ مَلَکیّت کی صفَت عالمِ امَر میں صَعود کرتی ہے، اس لئے کہ اس صفَت کا مرکز ’’عالمِ امَر‘‘ ہے۔ اس کے برعکس جب مَلَکیّت کی صفَت کم ہو جاتی ہے تو مادّی تقاضے فرد کو اسفل میں کھینچ لاتے ہیں۔ وہ جتنا اسفل کی طرف بڑھتا ہے اتنا ہی کثافتوں اور ثقل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر اس کی توجہ ’’عالمِ امَر‘‘ سے ہٹ کر اَسفل میں مُقیّد ہو جاتی ہے۔
عالمِ امَر
حٰم (1) وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ (2) إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ (3) فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (4) أَمْرًا مِّنْ عِندِنَا ۚ إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ (5) رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (6) رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِن كُنتُم مُّوقِنِينَ (7) (سورۂ دخان)
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری پیشی سے حکم ہو کر طے کیا جاتا ہے۔ (سورۂ دخان، رکوع پہلا) حکمت والے معاملے سے مراد نَوعِ انسانی کی فکری وسعتیں اور ان کا عمل ہے۔ انسانوں کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہر قسم کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ جو طرزیں عالمِ ظاہر کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معیّن ہوتی ہیں وہ عالمِ امَر یا عالمِ مثال میں اصل نقش و نگار کی صورت رکھتی ہیں اور ایک ترتیب کے ساتھ عالمِ خلق یا عالمِ ظاہر میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اگرچہ عالمِ امَر عالمِ خلق کو محیط ہے مگر اس عالم کو خارج میں دیکھنے والی نگاہ نہیں دیکھ سکتی۔ البتہ نگاہ کے اس رخ سے دیکھا جا سکتا ہے جو داخل میں دیکھتا ہے۔
جب ہم کسی چیز کی طرف دیکھتے ہیں تو کوئی شئے ہمارے اور اس چیز کے درمیان مشترک ہوتی ہے۔ یہی مشترک شئے دیکھنے کا ذریعہ ہے اور کائنات کی دیگر اشیاء سے ہمارے اتصال کا باعث ہے۔ مثلاً سورج ہماری آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو ہمارے اور سورج کے درمیان سورج کے نقطۂِ ذات اور ہمارے نقطۂِ ذات کے علاوہ کوئی تیسری شئے موجود ہے۔ یہ شئے اتنی سریعُ السَّیر ہے کہ ہمارے نقطۂِ ذات اور سورج کے نقطۂِ ذات کے درمیانی فاصلے کو ہر آن ہم رشتہ رکھتی ہے۔ اس ہی کے ذریعہ ہماری ہستی سورج کی ہستی سے ابتدائے آفرینش سے متعارف ہے۔ ہزاروں سال پہلے کی دنیا بھی سورج سے اس ہی طرح متعارف تھی جس طرح آج کی دنیا متعارف ہے۔ تعارف کی طرز میں ردّ و بدل ہونا تعارف کے اصل نُقوش پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔ اگر ان نُقوش کے ذریعہ تعارف کی تلاش کی جائے تو صفاتِ تعارف کا سمجھ لینا ممکن ہو سکتا ہے۔
تعارف کی ایک صفَت یہ ہے کہ اب سے ہزاروں سال پیش تر کا انسان سورج کو جس شکل میں دیکھتا تھا، موجودہ دور کا انسان بھی اس ہی شکل میں دیکھتا ہے۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ تعارف کی روشنی ازل سے ایک ہی طرز پر قائم ہے۔ تمام افراد کا نقطۂِ ذات الگ الگ ہے اور ایک دوسرے سے رُوشناس ہے۔ یہ رُوشناسی اس روشنی کے ذریعہ قائم ہے جو نگاہ کی ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتی بلکہ داخلی رخ سے دیکھی جا سکتی ہے۔ اس روشنی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم نگاہ کے ظاہری رخ سے دیکھی جا سکتی ہے اور دوسری نگاہ کے داخلی رخ سے۔ جو قسم نگاہ کے داخلی رخ سے دیکھی جا سکتی ہے وہ ازل سے یکساں حالت پر قائم ہے۔ اس میں کوئی تغیّر واقع نہیں ہوتا اور اس غیر متغیّر روشنی میں کسی قسم کے نقش و نگار نہیں ہوتے۔ وہ کائنات کا ’’عَین‘‘ بن جاتے ہیں۔ یہی عین مظاہرے کے نقش و نگار کی اصل ہیں۔ اس ہی عین کی حرکت مراتب میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ان دونوں مراتب کو گریز اور کشش کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔
روشنی کی ایک اصل جو غیر متغیّر ہے ’’صادِرُالعَین‘‘ کہلاتی ہے لیکن دوسری جو تغیّر پذیر ہے ’’عَین‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ دونوں اصلیں عالمِ امَر میں ’’صادِرُالعَین‘‘ اور ’’عَین‘‘ کے بعد امکان کی حد میں شروع ہوتی ہیں۔ ان حدوں کا پہلا مرحلہ ’’مِثالیت‘‘ اور دوسرا مرحلہ’’عنصریت‘‘ ہے۔ مثالیت روشنی کا وہ ہیولیٰ ہے جس کو دوسرے الفاظ میں روشنی کا جسم کہتے ہیں۔ داخلی نگاہ اس کو دیکھ سکتی ہے اور اِدراک اس کو محسوس کر سکتا ہے۔ اس ہیولیٰ میں ‘‘إبعاد’’ پائے جاتے ہیں لیکن اس کا مرکز مادّی دنیا میں نہیں ہے۔ البتہ دوسرا مرحلہ عنصریت کا مرکز مادّی دنیا میں ہے۔
یہ دونوں عالمِ امکان کے مراتب ہیں۔ اس طرح کائنات میں چار بُعد پائے جاتے ہیں۔
بُعد نمبر۱۔ صادِرُالعَین (غیر متغیّر)
بُعد نمبر۲۔ عین (تغیّر پذیر)
بُعد نمبر۳۔ مثالیت
بُعد نمبر۴۔ عنصریت
ہم پہلے نہروں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ ہر نہر اپنی حدود میں ‘‘بُعد’’ کہلاتی ہے۔ اور مخصوص صفات رکھتی ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اس کائنات سے پہلے کیا تھاتو آپﷺ نے فرمایا ’’امعاء‘‘ سوال کیا گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ ارشاد ہوا، ’’ماء‘‘۔
’’امعاء‘‘ عربی اِصطلاح میں ایسی منفیت کو کہتے ہیں جو عقل انسانی میں نہ آ سکے اور ’’ماء‘‘ عربی میں ‘‘مثبیّت’’ کو کہتے ہیں جو کائنات کی بنیادیں ہیں۔ اس ہی مثبیّت کا نام عالمِ امَر ہے۔ امعاء جو اِصطلاح میں ماوراءُ الماوراء کہلاتی ہے۔ اس کا تعارف ’’عالم نور‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ انسانی تفہیم و تعلیم کی معراج جہاں تک ہے اس حد کا اِصطلاحی نام ‘‘حجاب محمود’’ ہے۔ حجاب محمود وہ بلندیاں ہیں جس سے عرش ِعظیم کی انتہا مراد ہے۔ یہ انسانی نقطۂِ ذات کی معراج کا کمال ہے کہ وہ اپنے اِدراک کو حجاب محمود کی تفہیم کا خوگر بنا سکے اور ان صفاتِ الٰہیہ کو سمجھ سکے جو ان بلندیوں میں کار فرما ہے۔ یہ عالم اللہ کے مقرب فرشتوں کی پرواز سے ماوراء ہے۔ مقرب فرشتوں کی پرواز جہاں تک ہے اس حد کا نام ‘‘سدرۃُ المنتہیٰ’’ ہے۔ ملائکۂِ مقربین سدرۃُ المنتہیٰ سے آگے نہیں جا سکتے۔ سدرۃُ المنتہیٰ سے نیچے ایک اور بلندی ہے۔ اس بلندی کی وسعتوں کو بیتُ المعمور کہتے ہیں۔
سدرۃُ المنتہیٰ اور بیتُ المعمور کی حد میں رہنے والے اور پرواز کرنے والے فرشتے تین گروہوں پر مشتمل ہیں۔ ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے سامنے رہ کر تسبیح میں مشغول ہے، دوسرا گروہ اللہ تعالیٰ کے اَحکام عالم تک پہنچاتا ہے اور تیسرا گروہ ان فرشتوں کا ہے جو عالمِ امَر کے لئے اللہ تعالیٰ کے اَحکامات کو اپنے حافظہ میں رکھتے ہیں۔ یہ تمام فرشتے لوحِ محفوظ سے تعلّق رکھتے ہیں۔ ’’عالمِ نور‘‘ سے فَروتَر ملائکۂِ مقربین یا ملاءِ اعلی کی حدود ہیں۔ ان میں ملاءِ اعلیٰ چھ بازو والے فرشتے ہیں۔ ان کو عالمِ نور کے سمجھانے کی فراست حاصل ہے اور یہ عالمِ نور کے پیغامات کا تحمّل رکھتے ہیں۔ عالم نور کے اَحکامات وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ عرشِ اعظم سے نافذ فرماتے ہیں۔ اس طبقہ سے فَروتَر ملائکۂِ روحانی کا طبقہ ہے۔ ان کو ملاءِ اعلیٰ کے پیغامات سمجھنے کی فراست حاصل ہے۔ اور اس طبقہ سے فروتر ملائکۂِ سماوی کا طبقہ ہے۔ یہ روحانی ملائکہ کے پیغامات سمجھنے کی فراست رکھتے ہیں۔ چوتھے درجہ میں ادنیٰ فرشتے ہیں۔ یہ ان اَحکامات کو تعمیل کرانے کی فراست رکھتے ہیں جو ان تک پہنچتے ہیں۔ یہ ملائکہ طبقاتِ ارضی پر ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ چھ بازو والے فرشتے چھ فراستوں کے اہل ہیں۔ ان میں سے ہر فراست ایک نور ہے۔
نمبر۱۔ انہیں کچھ نہ کچھ ذات کا عرفان حاصل ہے۔
نمبر۲۔ وہ صفات کی معرفت رکھتے ہیں۔
نمبر۳۔ ’’عالمِ امَر‘‘ کے صادِرُالعَین کی فہم رکھتے ہیں۔
نمبر۴۔ ’’عَین‘‘ کی ترتیب اور تخلیق سے واقف ہیں۔
نمبر۵۔ عالمِ امکان یا عالمِ خلق کی مثالیت کے علوم پر انہیں پورا عبور حاصل ہے۔
نمبر۶۔ عالمِ خلق یا عالمِ امکان کے اَجزاء پر عبور رکھتے ہیں۔
دوسرے الفاظ میں ملاءِ اعلیٰ مذکورہ بالا چھ علوم کی روشنیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ علم کوئی ایسی چیز ہے جو روشنی کے وُجود سے الگ ہے۔ دراصل روشنی ہی کا نام علم ہے۔ اگر ہمارے سامنے علم (یہاں علم سے مراد علمِ حُضوری یا علم الحقیقت ہے) کی شکل وصورت آئے گی تو وہ ایک طرح کی روشنی ہو گی جو اس علم کی مخصوص صفات کے رنگوں کا مظاہرہ کرتی ہے۔
اس طرح روحانی ملائکہ تین، چار، پانچ، چھ روشنیوں کا مجموعہ ہیں۔ ان کو عالمِ امَر اور عالمِ خلق کی معرفت حاصل ہے۔ ان کے چار بازوؤں سے یہ روشنیاں مراد ہیں۔ سماوی ملائکہ عالمِ امَر کی معرفت رکھتے ہیں۔ ان کے اندرصادِرُالعَین اور عین کی روشنیاں مُجتمع ہیں۔ ادنیٰ ملائکہ عالمِ خلق کے اَجزاء کی تفہیم پر عبور رکھتے ہیں۔ یہ مثالیت اور عنصریت کی روشنیوں کا مجموعہ ہیں۔
نسبت یادداشت
اللہ تعالیٰ نے انسان کے نقطۂِ ذات میں چاروں عالموں کو یکجا کر دیا ہے۔
نمبر۱۔ عالمِ نور
نمبر۲۔ عالمِ تَحت الشّعور یا عالمِ ملائکۂِ مقربین
نمبر۳۔ عالمِ امَر
نمبر۴۔ عالمِ خلق
عالمِ امَر کی وضاحت اس طرح ہو سکتی ہے۔ ہماری کائنات اجرام سماوی، مَوالیدِ ثلاثہ وغیرہ کتنی ہی مخلوقات اور مَوجودات کا مجموعہ ہے۔ کائنات کے تمام اَجزاء اور افراد میں ایک ربط موجود ہے۔ مادّی آنکھیں اس ربط کو دیکھ سکیں یا نہ دیکھ سکیں اس کے وُجود کو تسلیم کرنا پڑے گا۔
جب ہم کسی چیز کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو اسے دیکھتے ہیں۔ یہ ایک عام بات ہے۔ ذہنِ انسانی کبھی اس طرف متوجّہ نہیں ہوتا۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ روحانیات میں اور تصوّف میں کسی چیز کی وجہ تلاش کرنا ضروری ہے خواہ وہ کتنی ہی ادنیٰ درجہ کی چیز ہو۔ ہم جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ ہم اس کی صفات ٹھیک طرح سمجھ لیتے ہیں۔ سمجھنے کی نسبت ذہن کے استعمال کی گہرائی سے تعلّق رکھتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو زیادہ واضح طریقہ پر ہم اس طرح کہیں گے۔ شاہد جس وقت کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اس کی صلاحیّتِ معرفتِ شئے نگاہ میں منتقل ہو جاتی ہے۔ گویا دیکھنے والا خود دیکھی ہوئی چیز بن کر اس کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ یہ عالمِ امَر کا قانون ہے۔
مثال:
ہم نے گلاب کے پھول کو دیکھا۔ دیکھتے وقت ہمیں خود کو گلاب کے پھول کی صفات میں منتقل کرنا پڑا، پھر ہم گلاب کے پھول کو سمجھ سکے۔ اس طرح گلاب کے پھول کی معرفت ہمیں حاصل ہو گئی۔
عالمِ خلق کا ہر فرد اپنے نقطۂِ ذات کو دوسری شئے کے نقطۂِ ذات میں تبدیل کرنے کی ازلی صلاحیّت رکھتا ہے اور جتنی مرتبہ اور جس طرح چاہے وہ کسی چیز کو اپنی معرفت میں مُقیّد کر سکتا ہے۔ اس قانون کے تحت ہر انسان کا نقطۂِ ذات پوری کائنات کی صفات کا اجتماع ہے۔
عالمِ امَر کی ایک شان اور بھی ہے۔ جب آپ کسی شئے کا نام سنتے ہیں مثلاً آپ نے محمود کا نام سنا تو آپ کے ذہن میں لفظ محمود یا محمود کے ہجّے نہیں آئیں گے بلکہ محمود کی ذات اور شخصیت آئے گی۔ وہ شخصیت جو کتنی ہی صفات کا مجموعہ ہے۔ جن صفات سے آپ واقف ہیں ان صفات میں محمود کی صورت اور سیرت دونوں موجود ہوں گی۔ یہ عالمِ امَر کی تفہیم کا دوسرا قانون ہے۔ اس قانون کے دو اَجزاء ہیں۔ ایک جز کی تفہیم شعور کے ذمّہ ہے لیکن محمود کے بارے میں محمود کی تمام شخصیت جو ازل سے ابد تک واقع ہوئی ہے اور جس کو شعور اپنی فہم میں نہیں لا سکا ہے وہ تمام کی تمام یعنی ازل سے ابد تک پورا محمود لاشعور کی فہم میں رہتا ہے۔ اس باقی محمود کی تفہیم لاشعور کے ذمّہ ہے۔ اگر کوئی عارف محمود کی ازل سے ابد تک پوری شخصیت کا کشف چاہتا ہے تو وہ اپنے شعور کو لاشعور کے اندر مرکوز کر دیتا ہے۔ پھر تمام لاشعور شعور کے اندر منتقل ہوتا جاتا ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب انسان کو اپنی انا کی معرفت حاصل ہو کیونکہ انسانی انا کی حرکت ہی لاشعور میں مرکوز ہو کر لاشعوری روئداد کو تصوّر میں منتقل کر دیتی ہے۔ ایسی کیفیت کو خواجہ بہاء الدین نقشبندؒ نے ’’یادداشت‘‘ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔
عالمِ امَر کی تفصیل میں مذاہبِ عالم کی چند باتوں کا تذکرہ کر دینا ضروری ہے۔ ایسے لوگوں نے جو کسی زمانے میں غیبی طاقتوں سے متعارف ہوئے ہیں۔ چند عقائد کو ملحوظ رکھ کر روحانی نظام تعلیم ترتیب دیا ہے۔ اس قسم کے نظام تعلیم متعدد بن چکے ہیں۔ ابتدائی دور میں جب دنیا کی آبادیاں اور ضرورتیں بہت کم تھیں۔ یہ روحانی تعلیمات بہت وسیع اور ہمہ گیر صورت اِختیار نہیں کر سکی تھیں۔ بالکل ابتدائی دور میں نَوعِ انسانی میں کتنے ہی افراد غیبی چیزوں کا مشاہدہ کرتے تھے اور مشاہدات کا تعلّق ’’عالمِ امَر‘‘ سے ہوتا تھا۔ یہ لوگ ان مشاہدات کو اپنے قبیلے اور طرز زندگی کے محدود معانی میں سمجھتے تھے۔ ان کے سامنے وسیع تر دنیا اور نَوعِ انسانی کے بہت سے طبقے کی زندگی نہیں ہوتی تھی اس لئے ان پر عالمِ امَر کے جو حقائق مُنکشِف ہوتے تھے ان کی تعبیریں حسّیات بشری کے چند اَجزاء پر مشتمل ہوتی تھیں۔ چنانچہ ان روحانی بزرگوں کے بعد ان کے مقلّدین اوہامِ باطلہ اور تصوّرات خام میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ تمام بت پرست اور مظاہر پرست مذہبوں کی ترتیب اس ہی طرح ہوئی ہے۔ یہ مقلّدین جنہوں نے اس دور میں مذہب کے خدّوخال تیار کئے خود ’’عالمِ امَر‘‘ کے حقائق سے ناواقف ہوتے تھے اور یہ لوگ جو کچھ اپنے رہنماؤں سے سیکھتے تھے اس کو دوسروں تک پہنچانے میں غلط عقائد، جادو اور رہبانیت کی بنیادیں قائم کر دیتے تھے۔ وہ مظاہر کو اصل روشنیوں کا سرچشمہ قرار دینے میں تأمّل نہیں کرتے تھے۔ اس قسم کے مذاہب کی مثالیں بابل میں پیدا شدہ مذاہب، جین مت اور آریائی مذہبوں میں ہندو ویدانیت کے زیر اثر بہت سے مذاہب ہیں۔ بودھ مت بھی مہاتما بودھ کے مقلدین کی ایسی ہی روش سے دوچار ہو کر رہبانیت سے رُوشناس ہوا ہے۔ منگول مذاہب میں توحید کے خدّوخال نہ ملنے کی یہی وجہ ہے۔ کچھ ایسے ہی حالات سے متاثر ہو کر ‘‘ٹاؤمت’’ کو بھی بہت سے اَوہام اور جادوگری کا اِسیر ہونا پڑا۔ منگولی مذاہب میں آفتاب پرست اور مادہ پرست اور زرتشیت عقائد رکھنے والوں نے یا تو ’’عالمِ امَر‘‘ کو شیطانی اور رحمانی کے دو اُصولوں پر محمول کیا ہے یا خودمظاہر کو ’’عالمِ امَر‘‘ کی مرکزیّت قرار دیا ہے۔ ان رویّوں سے آہستہ آہستہ بت پرستی اور مظاہر پرستی کے عقائد مستحکم ہوتے گئے اور انسانی طبیعت مادّی زندگی سے گریزاں رہنے لگی۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مادّی زندگی کُل زندگی کا نصف ہے۔ اگر اس نصف کا کسی مسلک میں کوئی مقام نہیں ہے تو معاشی زندگی کی تمام تعمیریں مسمار ہو جائیں گی۔ اگر اس قسم کی وجوہات پیش آ جائیں تو مذہب کو خیال کی حدود میں مُقیّد تسلیم کرنا پڑے گا۔ اور جب عملی زندگی کا ڈھانچہ مذہب کی گرفت سے آزاد ہو جائے تو عقائد میں بے راہ روی پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس طرح کتنے ہی مذہب اعتدال کی راہوں سے ہٹ کر ’’عالمِ امَر‘‘ اور ‘‘عالمِ خلق’’ کے حقائق سے نامانوس ہو گئے۔ بالآخر ’’عالمِ خلق‘‘ کی زندگی کے تقاضوں نے نَوعِ انسانی کو ردِّ عمل میں مبتلا کر دیا اور گزشتہ پانچ ہزار سال میں ایسے مذاہب کی بنیادیں پڑنے لگیں جن کا مقصد صرف حکومت اور ریاست اور مادّی زندگی قرار پایا۔ ان مذاہب میں کنفیوشی، شنٹو اور یونانی فلسفہ کے نظام ہائے حکمت جس میں افلاطون، اس کے معاصرین کی تعلیمات اور موجودہ دور کے کمیونسٹ ملک قابل ذکر ہیں۔ ان سب کی بنیادیں صرف اس وجہ سے پڑیں کہ رائج الوقت مذاہب میں ’’عالمِ خلق‘‘ کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ چنانچہ یہی ردِّ عمل لادینی کا سبب ہوا۔ قرآنِ پاک میں جگہ جگہ ان بے اعتدالیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
مذہب نام ہے ان عقائد کے مجموعوں کا جو انسانی اعمال اور مُحرِّکات کو وُجود میں لاتا ہے۔ کتنے ہی مذاہب ایسے ہیں جن میں خدا کا تصوّر نہیں پایا جاتا مثلاً جین مت اور کمیونسٹ مذاہب جو ہزاروں سال پہلے سے اب تک وُجود میں آتے رہے ہیں۔
انسانی عقل کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ خارج کے بارے میں سوچتا ہے، دوسرا رخ ’’نفس‘‘ کے بارے میں۔ پہلا رخ مظاہر کو دیکھ کر جو کچھ خارج میں ہے اس کے بارے میں تجربات اور محسوسات کی حدیں قائم کرتا ہے۔ دوسرا رخ ’’نفس‘‘ کے متعلّق فکر کرتا ہے اور مظاہر کی گہرائی میں جو امور مُنکشِف ہوتے ہیں ان کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ پہلے رخ کا استعمال عام ہے۔ اس کی تمام طرزیں اور فکریں وحی اور الہام سے الگ ہیں۔ البتہ دوسرا رخ وحی اور الہام سے وابستہ ہے جو پہلے رخ پر محیط ہے۔چنانچہ پہلا رخ یعنی ’’عالمِ امَر‘‘ دوسرے رخ یعنی ‘‘عالمِ خلق’’ کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ پہلا رخ علمِ نبوت کی راہوں پر چل کر حقائق کا انکشاف کرتا ہے۔ دوسرا رخ اشیاء میں تلاش کے ذریعے مادّیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ تمام مذاہب جو دوسرے رخ کی بنیادوں پر مرتّب کئے گئے ہیں زیادہ تر لادینی، بت پرستی، مظاہر پرستی، مادّیت پرستی اور فلسفیانہ قدروں پر مشتمل ہیں۔ یہ سب کے سب مادّی علم یا علمِ حُصولی کی راہوں پر چل کر اپنی منزلیں متعیّن کرتے ہیں۔ زیادہ تر ان کا رواج مشرق وسطیٰ کو چھوڑ کر دنیا کے دوسرے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ان مذاہب میں ہزاروں فنا ہو چکے ہیں اور کتنے ہی باقی ہیں۔ یہ سب کے سب’’عالمِ امَر‘‘ یعنی نفس کی اس زندگی کے لئے جو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے کوئی آسانی فراہم نہیں کرتے بلکہ اس قسم کی تجرباتی اور محسوساتی الجھنیں پیدا کرتے ہیں جو ابدالآباد کی تکالیف میں مبتلا کر دیتی ہیں۔
مشرق وسطیٰ جہاں قدیم سے سامی اقوام آباد ہیں ایسے مذاہب کا مرکز رہا ہے جو وحی کے زیر اثر جاری ہوئے اور ’’علمُ النفس‘‘ یعنی عالمِ امَر کی صراحتوں کے قانون پر چلے۔ ان میں رائج اور وسیع مذاہب تین ہیں۔ یہودیت، عیسائیت اور اسلام۔ یہ تینوں سامی اقوام میں نافذ ہوئے۔ ان میں اسلام آخری مذہب ہے کیونکہ نبوت ختم ہو چکی ہے۔
* نوٹ: میں یہ کتاب پیغمبر اسلام حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔ مجھے یہ حکم حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی ذات سے بطریق اُویسیہ ملا ہے۔ اس ہی حکم کا ایک حصّہ یہ بھی ہے کہ میں اس کتاب میں کسی مذہب پر تبصرہ نہ کروں۔ اس لئے میں سامی اور غیر سامی مذہب کا مزید تذکرہ نہیں کر سکتا۔
علمُ النفس میں عالمِ امَر کی نوعیت ایسے گلاب کی ہے جس کو ہماری آنکھوں نے کبھی دیکھا ہے۔ ہمارا ذہن اس کا ایک تصوّر ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیتا ہے چنانچہ اس گلاب کو ہم جس وقت چاہیں عالمِ امَر سے عالمِ خلق کی دنیا میں لا سکتے ہیں یعنی اس کا تصوّر ہمارے ذہن میں واپس آ جاتا ہے اور ہم اس کو گلاب کی نَوع کا ایک فرد شمار کرتے ہیں۔ اس میں خدّوخال ہوتے ہیں اور رنگ ہوتے ہیں۔ خدّوخال کا تعلّق عالمِ امَر سے ہے، رنگوں کا تعلّق عالمِ خلق سے ہے۔ دراصل اس کی نَوع کے جو خدّوخال ہیں وہ نفسُ الامر ہیں۔ ان کا وُجود عالمِ امَر میں بالکلیہ اور مستقل رہتا ہے۔ عالمِ امَر میں اس کے خدّوخال کا وُجود زمانیت کے اَجزاء کا مرکّب ہے۔ یہ ہمارے نفس کی صلاحیّتِ تخلیق پر منحصر ہے کہ ہم جب چاہیں اس کے خدّوخال میں رنگ پیدا کر دیں۔ عالمِ امَر میں ہم اور گلاب ایک نفس ہیں۔ ایک نفس کی صلاحیّتیں جو ہم میں اور گلاب میں مشترک ہیں ارادہ کے تحت گلاب میں رنگ پیدا کر کے گلاب کو ہمارے تصوّر کی حدود میں داخل کر دیتی ہیں۔
عالمِ امَر کی یہ نفسی صلاحیّتیں ہر عامی کو حاصل ہیں۔ اگر ان نفسی صلاحیّتوں کو غیر معمولی بنانے کی کوشش کی جائے تو یہی ’’نفس الامری ارادہ‘‘ گلاب کو آفاقی حدود میں داخل کر دیتا ہے۔ پھر وہ گلاب مکانی حقیقت بن کر ٹھوس طریقے پر آفاقی دنیا میں رُونما ہو جاتا ہے۔ ہم اس قانون کا تجزیہ اس طرح کریں گے۔ حقیقت، ماوراحقیقت، ماوراءُ الماوراء حقیقت۔
ماوراءُ الماوراء حقیقت ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ ماوراء حقیقت تجلّیاتِ باری تعالیٰ ہیں۔ حقیقت صفات باری تعالیٰ ہیں۔ ماوراء حقیقت کو واجبُ الوجود بھی کہتے ہیں۔ یہ تجلّیاتِ الٰہی کا عالم ہے۔ اس کے بعد خود حقیقت کا عالم ہے جس کو ‘‘عالم نور’’ بھی کہتے ہیں۔ اس ہی عالمِ نور کا تذکرہ قرآنِ پاک میں کیا گیا ہے اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ واجبُ الوجود ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ ہم واجبُ الوجود کو صرف تجلّی کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ تجلّی اصلِ صفات ہے اور ذات سے وابستہ ہے۔ واجبُ الوجود کے بعد صفات ہیں جن کو ہم نے حقیقت کہا ہے۔ ان صفات کا رشتہ تجلّیاتِ ذات سے ہے۔ قرآنِ پاک کے اندر معرفتِ الٰہیہ کو تین مراتب میں بیان کیا گیا ہے۔
نمبر۱۔ ذاتِ باری تعالیٰ۔
نمبر۲۔ عالمِ امَر جو ‘‘کُن‘‘ کہنے سے ظُہور میں آیا۔ اِنَّمَا اَمْرُہٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْءًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (قرآنِ پاک) جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا معمول یہ ہے کہ اس چیز کو کہتا ہے کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے۔
نمبر۳۔ عالمِ امرِ خاص۔ یہ وہ عالم ہے جس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے میں نے آدم کے پتلے میں اپنی روح پھونکی۔
علمُ الیقین، عینُ الیقین، حقُ الیقین
قرآن۔ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمرِ رَبّی۔ روح کو امر رب کہا گیا ہے۔ چنانچہ یہ بھی عالمِ امَر ہے لیکن یہ عالمِ امَر اس عالمِ امَر سے الگ ہے جو ’’کُن‘‘ کے زیر اثر ظُہور میں آیا۔ اگردونوں عالمِ امَر ایک ہی ہوتے تو اللہ تعالیٰ یہ ہرگز نہ فرماتے کہ میں نے آدم کے پتلے میں اپنی روح پھونکی۔ ان الفاظ سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ نمبر۲ ’’امر ِعام‘‘ ہے اور نمبر۳ ’’امرِخاص‘‘ ہے۔ یہاں سے علم اور ظُہورات کے دو مراتب ہو جاتے ہیں جس کو قرآنِ پاک میں علمِ لوح اور علمُ القلم یعنی لوح و قلم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ترتیب اس طرح ہوئی:
نمبر۱۔ ذاتِ باری تعالیٰ
نمبر۲۔ عالمِ امرِ خاص، تجلّیِٔ ذات، (واجبُ الوجود)
نمبر۳۔ عالمِ امَر، امرِ عام یا تجلّیِٔ صفات
ان تین مراتب کے بعد چوتھا مرتبہ عالمِ خلق کا ہے۔
پہلے لطائف ستہ کا ذکر آ چکا ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ کو مستثنیٰ کر کے باقی تین مراتب چھ رخوں پر مشتمل ہیں۔
① اوّل عالمِ امرِ خاص یا تجلّیِٔ ذات یا واجبُ الوجود کا رخ ذات کی طرف ہے۔ دوسرا رخ عالمِ امرِ خاص کا عالمِ امرِ عام کی طرف۔ یہ دو لطائف ہوئے۔ پہلے رخ کا نام اخَفیٰ اور دوسرے رخ کا نام خَفی ہے۔
② عالمِ امرِ عام کا پہلا رخ عالمِ امرِ خاص کی طرف اور دوسرا رخ عالمِ خلق کی طرف۔ اس کا پہلا رخ سری اور دوسرا رخ روحی ہے۔
③ عالمِ خلق (عالمِ ناسُوت) کا پہلا رخ عالمِ امرِ عام کی طرف اور دوسرا رخ کائنات(مادّیت) کی طرف ہے۔ اس کا پہلا رخ قلب ہے، دوسرا رخ نفس ہے۔
ہم اس کی مثال ایک چادر سے دے سکتے ہیں جو نور کے تاروں سے بنی ہوئی ہے۔ یہ نور کے تار جس خلاء میں قائم ہیں اس خلاء کا نام عالمِ امرِ خاص ہے۔ اس چادر میں نور کے تار بطور ’’تانے‘‘ کے استعمال ہوئے ہیں وہ عالمِ امرِ عام ہیں۔ پھر اس چادر میں جو تار بطور ’’بانے‘‘ کے استعمال ہوئے ہیں وہ عالمِ نَسمہ کہلاتے ہیں۔ ان تینوں عالموں کے اوپر محسوسات کا ایک خول ہے جس کو جسم کہتے ہیں۔ تصوّف میں عالمِ نَسمہ کی معرفت کو علم الیقین کہا گیا ہے۔ عالمِ امرِ عام کی معرفت کو عین الیقین کہا گیا ہے اور عالمِ امرِ خاص کی معرفت کو حق الیقین کہا گیا ہے۔ یہی وہ مرتبہ ہے جو ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت ہے۔ باقی مراتب صفات کی معرفت ہیں۔
انسان کا جسم ایک خول ہے۔ اس خول کے دو رخ ہیں۔ جسم اور دماغ۔ دماغ کا رخ عالمِ امرِ عام کی طرف ہے۔ اِسی کو نَسمہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ دماغ یا جسم انسان نہیں ہے۔ انسان ان دونوں کے اندر بستا ہے جس کو تجلّیِٔ ذات کا ایک نقطہ کہنا چاہئے۔ یہ نقطہ جو ذات انسانی ہے، اس نور کی چادر کا ایک ذرّہ ہے۔ یہ ذرّہ ایک خول رکھتا ہے جس کو جسم کہتے ہیں۔ یہی مظہر ہے۔
عالمِ تَمثال
① نقطۂِ ذات سے نَسمہ (ذہن) کی طرف اور نَسمہ سے مظہر (جسم) کی سمت میں نور کی ایک رَو بہتی ہے۔
② مظہر(جسم) سے نَسمہ کی طرف اور نَسمہ(ذہن) سے نقطۂِ ذات کی سمت میں روشنی کی ایک رَو بہتی ہے۔
جو نور کی رَو نقطۂِ ذات سے مظہر (جسم) کی طرف بہتی ہے اس کے اندر علومِ لدُنّیہ کا ذخیرہ ہوتا ہے لیکن جو روشنی کی رَو مظہر(جسم) سے نقطۂِ ذات کی طرف بہتی ہے، وہ علوم دنیا یعنی جسمانی تقاضوں اور خواہشات کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ اگر نقطۂِ ذات سے نزول کرنے والے علوم لدُنّی شعور کے لئے قابل توجہ اور باعث دل چسپی ہیں تو ان کا رنگ آہستہ آہستہ مظہری خاکوں پر چڑھ جاتا ہے یعنی انسان کا لطیفۂِ نفسی ان علوم کی نورانیت سے معمور ہو کر حقیقت کا رنگ قبول کر لیتا ہے۔ یہ حقیقت کا رنگ ایسا نور ہے جس کے اندر سے کوئی کثیف روشنی یعنی تاریکی نہیں گزر سکتی بلکہ جسم کے تقاضے اور ساری خواہشات اس رنگ سے چھن کر لطیف نور کی شعاعوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور بجائے کثیف روشنیوں کے (یعنی تاریکیوں کے) مظہر کی سمت سے یہ چَھنی ہوئی لطیف نور کی شعاعیں نقطۂِ ذات کی طرف بہنے لگتی ہیں۔ نقطۂِ ذات سے مظہر کی طرف بہنے والی رَو اور مظہر سے نقطۂِ ذات کی طرف بہنے والی رَو جب مذکورہ بالا کیفیت تک پہنچ جاتی ہے تو ذہنِ انسانی میں ایک نور پیدا ہو جاتا ہے جس کو حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے نور فراست کہا ہے۔ یہ نور فراست پہلے عالمِ امرِ عام کے انکشافات کا باعث ہوتا ہے۔ پھر عالمِ امرِ خاص کے انکشاف کا۔ عالمِ امَر سے مظہر کی طرف نزول اور مظہر سے عالمِ امَر کی طرف صَعود کی حرکت مسلسل ہوتی رہتی ہے۔ عالمِ امَر سے مظہر کی طرف لدُنّیہ کا جو ذخیرہ نزول کرتا ہے اس کا عکس شعور پر پڑتا ہے۔ شعور اس عکس کو ضمیر کے نام سے تعبیر کرتا ہے۔ شعور ذہنِ انسانی کا ایسا آئینہ ہے جس میں علومِ لدُنّیہ کے انوار کا عکس پڑتا ہے۔ یہ علومِ لدُنّیہ ازل سے ابد تک کے حالات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان حالات کا تصویری عکس شعور کے اوپر پڑتا ہے۔ حالات کے اس تصویری عکس کو ’’عالمِ تَمثال‘‘ کہتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا شعور (ذہن) مُجلّٰیٰ آئینہ ہے تو بند آنکھوں سے یا کھلی آنکھوں سے حالات کا تصویری عکس وضاحت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اگر لطیفۂِ نفسی کی طرف سے کثیف روشنی یعنی تاریکی رَو بن کر نقطۂِ ذات کی طرف بہتی ہے تو شعور کا آئینہ مُجلّٰیٰ نہیں رہتا اور علومِ لدُنّیہ کے تمام تصویری عکس نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
مراقبہ
اگر انسان شعور کے آئینہ میں علومِ لدُنّیہ کے تصویری عکس دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو تو اس کی ایک بہت ہی سہل ترکیب ہے۔ وہ کسی تاریک گوشہ میں جہاں گرمی اور سردی معمول سے زیادہ نہ ہو بیٹھ جائے۔ ہاتھ، پیروں اور جسم کے تمام اعصاب کو ڈھیلا چھوڑ دے، اتنا ڈھیلا کہ محسوس نہ ہو کہ جسم موجود ہے۔ سانس کی رفتار کم سے کم کرنا ضروری ہے۔ سانس کی رفتار تیز نہیں ہونی چاہئے۔ آنکھیں بند کرلے اور اپنی ذات کے اندر جھانکنے کی کوشش کرے۔ اگر اس کے خیالات اور اس کا عمل پاکیزہ ہے تو اس عمل سے اس کا لطیفۂِ نفسی بہت جلد رنگین ہو جائے گا اور لطیفۂِ نفسی رنگین ہو جانے سے شعور کے اندر جِلا پیدا ہوتی جائے گی۔ تصوّف میں اس عمل کا نام مراقبہ ہے۔
سورۂ مزمل شریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَذْکِرُاسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا o
ترجمہ: اور سب سے قطع کر کے اس ہی کی طرف متوجّہ رہو۔
مراقبہ میں اس حکم کی تعمیل ضروری ہے۔ جسم کو ڈھیلا چھوڑ دینا، سانس کو بہت ہلکا کر دینا لا تعلّقی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ جب جسم غیر محسوس ہو جاتا ہے اس وقت نقطۂِ ذات صَعود کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس حالت کے علاوہ نقطۂِ ذات صرف نزول کرتا ہے، صَعود نہیں کرتا۔ صَعود محض اس وقت کرتا ہے جب اسے جسم کے تقاضے آزاد چھوڑ دیں۔ اور ذہن دنیا کی باتیں یاد نہ دلائے۔ جب نقطۂِ ذات کو دنیا کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی تو ’’عالمِ امَر‘‘ کی سیر میں مصروف ہو جاتا ہے اور ’’عالمِ امَر‘‘ کی حدود میں چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور وہ سارے کام کرتا ہے جو اس کے نورانی مشاغل کہلا سکتے ہیں۔ یہاں وہ مکان کے قید و بند سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کے قدم زمان کی إبتداء سے زمان کی انتہا تک ارادے کے مطابق اٹھتے ہیں۔ جب نقطۂِ ذات مراقبہ کے مشاغل میں پوری معلومات حاصل کر لیتا ہے تو اس میں اتنی وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ زمان کے دونوں کناروں ازل اور ابد کو چھو سکے۔ پھر ارادہ کے تحت اپنی قوّتوں کو استعمال کر سکتا ہے۔ وہ ہزاروں سال پہلے کے یا ہزاروں سال بعد کے واقعات دیکھنا چاہے تو دیکھ سکتا ہے کیونکہ ازل سے ابد تک درمیانی حدود میں جو کچھ پہلے موجود تھا اور آئندہ ہو گا اس وقت بھی موجود ہے۔ اس ہی کیفیت کو عارفوں کی اِصطلاح میں ’’سَیر‘‘ کہتے ہیں۔
شُہود
اگر کسی شخص کو اس حالت کا کمال میسر آ جائے تو پھر وہ ’’عالمِ امَر‘‘ کا نظارہ کرتے وقت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتا بلکہ از خوداس کی آنکھوں پر ایسا وزن پڑتا ہے جس کو وہ برداشت نہیں کر سکتیں اور کھلی رہنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ آنکھوں کے غلاف ان روشنیوں کو جو نقطۂِ ذات سے منتشر ہوتی ہیں سنبھال نہیں سکتے اور بے ساختہ حرکت میں آ جاتے ہیں جس سے آنکھوں کے کھلنے اور بند ہونے یعنی پلک جھپکنے کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔ جب یہ سیر و سیاحت کھلی آنکھوں سے ہونے لگتی ہے تو اس کو ’’فتح‘‘ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس اَجمال سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے کہ جب تک ذات کے شانوں پر صرف دنیا کے تقاضے مسلط رہتے ہیں تو اس کی حرکت دنیاوی افکار و اعمال میں دَور کرتی رہتی ہے لیکن جب نقطۂِ ذات کے شانے دنیاوی محسوسات کے بوجھ سے آزاد ہو جاتے ہیں تو وہ غیبی دنیا کی طرف صَعود کر کے وہاں کی طرزِ حیات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ عالمِ روحانی سے رُوشناس ہوتا ہے۔ اس دنیا کے نظامِ شمسی اور افلاک کے بہت سے نظاموں کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ فرشتوں سے متعارف ہوتا ہے ان باتوں سے آگاہ ہوتا ہے جو اس کی اپنی حقیقت میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان صلاحیّتوں کو پہچانتا ہے جو اس کے اپنے احاطۂِ اِختیار میں ہیں۔ عالمِ امَر کے حقائق اس پر مُنکشِف ہوتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ کائنات کی ساخت میں کس قسم کی روشنیاں اور ان روشنیوں کو سنبھالنے کے لئے کیا کیا انوار استعمال ہوتے ہیں۔ پھر اس کے اِدراک پر وہ تجلّی بھی مُنکشِف ہو جاتی ہے جو روشنیوں کو سنبھالنے والے انوار کی اصل ہے۔
ایک مبتدی کو سمجھانے کے لئے عالمِ امَر کی مثال اس طرح دی جا سکتی ہے کہ چاندنی رات میں جب کہ چاندنی سے فضا معمور ہے، اس وقت آتش بازی چھوڑی جائے تو آتش بازی کی روشنیوں کو چاندنی محیط ہو گی اور آتش بازی کی روشنیوں میں بہت سے نقش و نگار، پھول پتیاں وغیرہ ابھری ہوئی معلوم ہوں گی۔ آتش بازی کے نقش و نگار روشنیوں پر قائم ہوں گے اور روشنیاں چاندنی پر۔ اگر چاندنی کو تجلّیات ذات یا عالمِ امرِ خاص فرض کر لیا جائے تو روشنیوں کو عالمِ امرِ عام اور صفات کہیں گے۔ اور جو نقش و نگار روشنیوں پر قائم ہیں وہ تنزّل کردہ تجلّیِٔ صفات یعنی عالمِ نَسمہ قرار پائیں گے۔ ان نقش و نگار کی حدود افرادِ کائنات کے نام سے پکاری جائیں گی۔ گویا تجلّیِٔ ذات پر تجلّیِٔ صفات اور تجلّیِٔ صفات پر نَسمہ قائم ہے۔ اس نَسمہ میں جب حرکت ہوتی ہے تو زمان و مکان کی مختلف شکلیں ‘‘إبعاد’’ کے دائرے اور نُقوش بناتی ہیں۔ یہ إبعاد کے نُقوش (کائنات) یعنی چاند، سورج، ستارے اور تمام دوسری مخلوق پر مشتمل ہیں۔ جب عارف کی سیر شروع ہوتی ہے تو وہ کائنات میں خارجی سمتوں سے داخل نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے نقطۂِ ذات سے (جو مذکورہ بالا تین عالموں کا مجموعہ ہے) داخل ہوتا ہے، اِسی نقطے سے وَحدتُ الوُجود کی إبتداء ہوتی ہے۔ جب عارف اپنی نگاہ کو اس نقطہ میں جذب کر دیتا ہے تو ایک روشنی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ وہ اس روشنی کے دروازے سے ایسی شاہراہ میں پہنچ جاتا ہے جس سے اور لاشمار راہیں کائنات کی تمام سمتوں میں کھل جاتی ہیں۔ اب وہ قدم قدم تمام نظام ہائے شمسی اور تمام نظام ہائے فلکی سے رُوشناس ہوتا ہے۔ لاشمار ستاروں اور سیاروں میں قیام کرتا ہے۔ اسے ہر طرح کی مخلوق کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ہر نقش کے ظاہر و باطن سے متعارف ہونے کا موقع ملتا ہے۔ وہ رفتہ رفتہ کائنات کی اصلیتوں اور حقیقتوں سے واقف ہو جاتا ہے۔ اس پر تخلیق کے راز کھل جاتے ہیں اور اس کے ذہن پر قدرت کے قوانین مُنکشِف ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ اپنے نفس کو سمجھتا ہے، پھر روحانیت کی طرزیں اس کی فہم میں سما جاتی ہیں۔ اسے تجلّیِٔ ذات اور صفات کا اِدراک حاصل ہو جاتا ہے۔ وہ اچھی طرح جان لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کُن ارشاد فرمایا تو کس طرح یہ کائنات ظُہور میں آئی اور ظُہورات کس طرح وسعت در وسعت مرحلوں اور منزلوں میں سفر کر رہے ہیں۔ وہ خود کو بھی ان ہی ظُہورات کے قافلے کا ایک مسافر دیکھتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ مذکورہ سیر کی راہیں خارج میں نہیں کھلتیں۔ دل کے مرکز میں جو روشنی ہے اس کی اتھاہ گہرائیوں میں اس کے نشانات ملتے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ دنیا خیالات اور تصوّرات کی بے حقیقت دنیا ہے۔ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ اس دنیا میں وہ تمام اصلیں اور حقیقتیں متشکل اور مجسم طور سے پائی جاتی ہیں جو اس دنیا میں پائی جاتی ہیں۔
ازروئے حقیقت ہر نقش کے تین وُجود ہوتے ہیں:
ایک وُجود تجلّیِٔ ذات میں،
دوسرا وُجود تجلّیِٔ صفات میں،
تیسرا وُجود عالمِ خلق میں۔
كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ (7) وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (8) كِتَابٌ مَّرْقُومٌ (9) وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ (10) الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ بِيَوْمِ الدِّينِ (11) وَمَا يُكَذِّبُ بِهِ إِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ (12) إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (13) كَلَّا ۖ بَلْ ۜ رَانَ عَلَىٰ قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ (14) كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ (15) ثُمَّ إِنَّهُمْ لَصَالُو الْجَحِيمِ (16) ثُمَّ يُقَالُ هَٰذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تُكَذِّبُونَ (17) كَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ (18) وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ (19) كِتَابٌ مَّرْقُومٌ (20) يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ (21) إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (22) عَلَى الْأَرَائِكِ يَنظُرُونَ (23) تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ (24) يُسْقَوْنَ مِن رَّحِيقٍ مَّخْتُومٍ (25) خِتَامُهُ مِسْكٌ ۚ وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ (26) وَمِزَاجُهُ مِن تَسْنِيمٍ (27) عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ (28)
(سورۃ المطفّفین: پارہ 30)
ترجمہ: کوئی نہیں، لکھا گنہگاروں کا پہنچنا بندی خانے میں۔ اور تجھ کو کیا خبر ہے کیسا بندی خانہ؟ ایک دفتر ہے لکھا ہوا۔ خرابی ہے اس دن جھٹلانے والوں کی، جو جھوٹ جانتے ہیں انصاف کا دن اور اس کا جھٹلانا وہی ہے جو بڑھ چلنے والا گنہگار ہے۔ جب سناتے اس کو آیتیں ہماری، کہتے نقلیں ہیں پہلوں کی۔ کوئی نہیں، پر زنگ پکڑ گیا ہے ان کے دلوں پر، وہ جو کچھ کماتے تھے۔ کوئی نہیں، وہ اپنے رب سے اس دن روکے جاویں گے، پھر مقرّر پہنچنے والے ہیں دوزخ میں۔ پھر کہے گا یہ ہے جس کو تم جھوٹ جانتے تھے۔ کوئی نہیں، لکھا نیکوں کا ہے اوپر والوں میں۔ اور تجھ کو کیاخبر ہے کیا ہیں اوپر والے۔ ایک دفتر ہے لکھا، اس کو دیکھتے ہیں نزدیک والے۔ بے شک نیک لوگ ہیں آرام میں۔ تختوں پر بیٹھے دیکھے۔ پہچانے تُو ان کے منہ پر تازگی آرام کی۔ ان کو پلائی جاتی ہے شراب مُہر میں دھری، جس کو مُہر جمتی ہے مُشک پر اور اس پر چاہیں رغبت کریں، رغبت کرنے والے اور اس شراب میں آمیزش تسنیم کی ہو گی، ایک چشمہ جس سے پیتے ہیں نزدیک والے۔ (ترجمہ شاہ عبدالقادر)
أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ (سورۃ اعراف: 54 – پارہ 8، رکوع 14)
ترجمہ: ہم نے پیدا کیا اور امر کیا۔
مذکورہ بالا آیات کی رُو سے یہ تینوں وُجود اپنی حرکات و سکنات میں اللہ کی طرف سے حکم کئے جاتے ہیں۔ اور یہ حکم کیا جانا خبر پر مبنی ہوتا ہے۔ ’’ہم نے خلق کیا اور حکم کیا۔‘‘ یہ دو رخوں پر مشتمل ہے۔ ایک رخ …اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ کے تحت اور دوسرا رخ حرکت کے تحت، جس کا اِصطلاحی نام نَسمہ ہے، عمل میں آتا ہے۔اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وہ اصل ہے جس پر پہلے ’’حکمِ کُن‘‘ کا قیام ہے۔ اس کُن کا ظُہور ایک ہیولاءِ نورانی کی صورت میں نازل ہوا۔ گویا یہ تخلیق کا اَجمال ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے علم و ارادہ کے زیر اثر(نَسمہ) حرکت کی تفصیل واقع ہوئی۔ ہیولاءِ نورانی ہر نقش کو محیط ہے اور ہر نقش کے اندر تفصیلی امور کی ایک معیّن سطح کا وُجود ہے جس کو اِصطلاح عام میں ماہیت کہا جاتاہے۔ یہ ماہیت ہیولاءِ نورانی کے اندر پارہ کے تمثُّلات ہیں۔ خلق کی شرح میں یہ دونوں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ اوّل ہیولےٰ دوئم حرکت کی سطح۔ یعنی پارہ کے تمثُّلات۔ ہیولاءِ نورانی نقش ہے جس میں کوئی تغیّر نہیں ہوتا اور پارہ کی سطح کے تمثُّلات حرکت ہیں جو ہرلمحہ متغیّر ہیں۔ اس متغیّر سطح میں زمانیت، مکانیت اور امور کی تفصیل و تعمیل پائی جاتی ہے۔ اس سطح میں ایک طرح کی جِلا ہے جس میں اَحکامات کا مسلسل عکس پڑتا رہتا ہے۔ اس ہی عکس کا نام حرکت ہے۔ یہ حرکت وقفہ کے ذریعے نُقوش کے متنوّع دائرے بناتی ہے۔ ان ہی دائروں کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں کتابُ المرقوم کے نام سے یاد کیا ہے۔ نُقوش کے ان دائروں کی تعمیر حرکت کے صَعود و نزول سے ہوتی ہے۔ حرکت کی یہ سطح جس کو ذہن کہتے ہیں، ایک طرف نفس یعنی نقطۂِ ذات تک صَعود کرتی ہے۔ دوسری طرف جِلا کی گہرائی میں پڑنے والے سائے تک نزول کرتی ہے۔ صَعود کی حالت کا نام انسانی اِصطلاح میں خواب ہے۔ صَعود اور نزول کی دونوں حرکتیں قدرت کے اشاروں سے عمل میں آتی ہیں۔ کائنات کا ہر فرد اس کا پابند ہے۔ چنانچہ کائنات کے تمام نُقوش سوتے ہیں اور جاگتے ہیں۔ صَعود کی حالت یعنی ربودگی (وِجدان) ذات سے قریب کرتی ہے اور نزول کی حالت یعنی بیداری(عقل) ذات سے دور کرتی ہے۔ مَوجوداتی زندگی کے یہ دو ضروری اَجزاء ہیں جن کو اِصطلاح میں زندگی کا تعیّن کہا جاتا ہے۔ کائنات کا ہر نقش اس تعیّن میں مُقیّد ہے۔ عارفوں کی دنیا میں ربودگی کے اندر سفر کا ذریعہ مراقبہ ہے اور مادہ پرستوں کی دنیا میں بیداری کے اندر سفر کرنے کا ذریعہ ہاتھ پیروں کی جنبش ہے۔ قرآنِ پاک کا پروگرام ان دونوں اَجزاء کی حفاظت پر زور دیتا ہے۔ یہاں قرآنِ پاک کے پروگرام کی بنیادوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ ارشاد فرمایا ہے:
اَقِیْمُوالصَّلوٰۃَ وَاٰتُوالزَّکوٰۃَ (قائم کرو نماز اور ادا کرو زکوٰۃ)۔
نماز اور زکوٰۃ کا پروگرام
قرآنی پروگرام کے دونوں اَجزاء، نماز اور زکوٰۃ، روح اور جسم کا وظیفہ ہیں۔ وظیفہ سے مراد وہ حرکت ہے جو زندگی کی حرکت کو قائم رکھنے کے لئے انسان پر لازم ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کا ارشاد ہے:
جب تم نماز میں مشغول ہو تو یہ محسوس کرو کہ ہم اللہ کو دیکھ رہے ہیں۔ یا یہ محسوس کرو کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔
اس ارشاد کی تفصیل پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت مُنکشِف ہو جاتی ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی میں وظیفۂ اعضا کی حرکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رہنے کی عادت ہونی چاہئے۔ جب ایک شخص دس بارہ سال کی عمر سے اٹھارہ بیس سال کی عمر تک جو اس کے شعور کی تربیت کا زمانہ ہے اس طرح نماز قائم کرے گا تو اس کا ذہن اللہ کی طرف رہنے کا اور جسم قیام و رکوع، قومہ و سجود، قعدہ اور جلسہ ہر قسم کی حرکت کا عادی ہو جائے گا۔ ذہن کا اللہ کی طرف ہونا، روح کا وظیفہ ہے اور اعضاء کا حرکت میں رہنا جسم کا وظیفہ ہے۔ چنانچہ صرف نماز کے ذریعے کوئی فرد اس بات کا عادی ہو جاتا ہے کہ اس پر ربودگی اور بیداری کی صحیح کیفیت طاری رہے تا کہ زندگی کی دونوں صلاحیّتوں کا صحیح استعمال ہو سکے۔ جب وہ زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ کی طرف متوجّہ رہنے اور ساری دنیا کے کام انجام دینے کا عادی ہوتا ہے تو ربودگی اور بیداری دونوں کیفیتوں سے یکساں طور پر رُوشناس رہتا ہے۔ یہی زندگی کی تکمیل ہے، یہی نماز کا پروگرام ہے۔ اور دوسرا زکوٰۃ کا پروگرام ہے جس کا منشاء مخلصانہ اور بے لوث خدمت خلق ہے۔ تصوّف میں اس ہی کیفیت کو ’’جمع‘‘ کہتے ہیں یعنی وہ کیفیت جس میں انسان ہر وقت اللہ اور اللہ کی مخلوق دونوں کے ساتھ رہتا ہے۔ ایک عارف کے لئے ‘‘جمع’’ پہلی منزل ہے۔
پوری کائنات ایک مرکزی نقطۂِ وحدانی رکھتی ہے۔ اس نقطۂِ وحدانی کی گہرائیوں میں روشنیوں کے سرچشموں کا سَوت مَخفی ہے۔ اس نقطۂِ وحدانی سے روشنیاں جوش کھاتی اور اُبلتی رہتی ہیں۔ کائنات کے اندر ہر لمحہ ان ہی روشنیوں سے ستاروں اور سیاروں کے لاشمار نظام تعمیر ہوتے رہتے ہیں اور تقریباً اس ہی تعداد میں مٹتے اور فنا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ روشنیاں دَم بہ دَم کائنات کو وسعت دیتی رہتی ہیں۔ روشنیوں کی حرکات نئی صورتوں اور نئے نئے نُقوش کی طرزوں میں کائنات کی تفصیل کرتی رہتی ہیں۔ روشنیوں کی ان حرکات کے بھی دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک رخ روشنیوں کے گہرائیوں میں سمٹنے اور ہُجوم کرنے پر مبنی ہے اور دوسرا رخ روشنیوں کے پھیلنے اور منتشر ہونے پر مشتمل ہے۔ گہرائیوں میں سمٹنے کو مَخفی حرکات سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ پھیلنے اور منتشر ہونے کو مثبت حرکت کہتے ہیں۔ حرکت کی یہی دو حالتیں کشش اور گریز کے نام سے تعبیر کی جاتی ہیں۔ تمام کائنات میں کشش اور گریز کے کروڑ ہا حلقے پائے جاتے ہیں۔ ان حلقوں میں ہر حلقہ ایک مرکزیّت رکھتا ہے لیکن ان تمام حلقوں کی مرکزیّتیں نقطۂِ وحدانی کی سمت میں متحرّک رہتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر نقطۂِ وحدانی سے حلقوں کی ان مرکزیّتوں میں نور کی شعاعوں کا ایک سلسلہ ازل سے ابد تک جاری اور قائم ہے۔
إِنَّ رَبَّكُمُ اللہ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللہ رَبُّ الْعَالَمِينَ (54) (سورۂ اعراف)
ترجمہ: بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر قائم ہوا۔ چھپا دیتا ہے شب سے دن کو ایسے طور پر کہ وہ شب اس دن کو جلدی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند ستاروں کو پیدا کیا اور ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں، یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا۔
اس آیت میں نقطۂِ وحدانی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو رَبّانیّت کی صفَت ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی حدیث: مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ میں بھی اس ہی طرف اشارہ ہے۔
اِنِّیْ اَنَارَبُّکَ (میں ہوں تیرا رب)
اِنِّیْ اَنَااللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْن (میں ہوں میں اللہ عالمین کا رب)۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو اللہ اور اپنی صفات کو ربّ فرمایا ہے۔
چنانچہ نقطۂِ وحدانی صفَت رَبّانیّت کا مرکز ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ انسان پہلے اللہ تعالیٰ کی صفَتِ رَبّانیّت سے متعارف ہوتا ہے اور یہی صفَت مَوجودات سے زیادہ قریب ہے۔
کائنات کا ہر ایک نقش روشنی کی ایک الگ نَوع ہے۔ ہر نَوع روشنی کی ایسی مقداری حرکت رکھتی ہے جو مخصوص رنگوں کی ترتیب ہے اور ہر ترتیب کے تحت یکساں اور مَشابِہ شکلیں ظُہور میں آتی ہیں چنانچہ ہر نَوع کی مقداری حرکت اپنی الگ ایک مرکزیّت رکھتی ہے۔ یہ ساری مرکزیّتیں مل کر نقطۂِ وحدانی کی طرف صَعود کرتی ہیں۔ صَعود اور نزول کی مذکورہ بالا طرز ہی کسی شئے میں تغیّر پیدا کرتی ہے۔ اس ہی تغیّر کا نام حکم کی تفصیل ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ میں کیا ہے۔
خلق اور امر
خلق اور امر کو سمجھنے کے لئے کائناتی زندگی کی مرکزیّت اور ترتیب کا سمجھنا ضروری ہے۔ کائنات کا ہر نقش تین وُجود رکھتا ہے۔
پہلے وُجود کا قیام لوحِ محفوظ میں ہے
دوسرے وُجود کا قیام عالمِ تَمثال میں ہے۔
تیسرے وُجود کا قیام عالم رنگ میں ہے۔
عالم رنگ سے مراد کائنات کے وہ تمام مادّی اَجسام ہیں جو رنگوں کی اجتماعیت پر مشتمل ہیں۔ یہ اَجسام لاشمار رنگوں میں سے متعدد رنگوں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ یہ رنگ نَسمہ کی مخصوص حرکات سے وُجود میں آتے ہیں۔ نَسمہ کی معیّن طوالت حرکت سے ایک رنگ بنتا ہے۔ دوسری طوالت حرکت سے دوسرا رنگ۔ اس طرح نَسمہ کی لاشمار طوالتوں سے لاشمار رنگ وُجود میں آتے ہیں۔ ان رنگوں کا عددی مجموعہ ہر نَوع کے لئے الگ الگ معیّن ہے۔ اگر گلاب کے لئے رنگوں کا الف عددی مجموعہ معیّن ہے تو اس الف عددی مجموعہ سے ہمیشہ گلاب ہی وُجود میں آئے گا۔کوئی اور شے وُجود میں نہیں آئے گی۔اگر آدمی کی تخلیق رنگوں کی جیم تعداد سے ہوتی ہے تو اس تعداد سے دوسرا کوئی حیوان نہیں بن سکتا۔ صرف نَوعِ انسانی ہی کے افراد وُجود میں آ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں اِس قانون کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔
فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ۚ (سورۂ روم، آیت ۳۰)
یہاں فطرت سے مراد نَسمہ کی حرکت کا طول، رفتار اور اس کا ہُجوم ہے۔
عالم رنگ میں جتنی اشیاء پائی جاتی ہیں وہ سب رنگین روشنیوں کا مجموعہ ہیں۔ ان ہی رنگوں کے ہُجوم سے وہ شئے وُجود میں آتی ہے جس کو عُرفِ عام میں مادہ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ سمجھا جاتا ہے یہ مادہ کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے اگر اس کو شکست و ریخت کر کے انتہائی قدروں تک منتشر کر دیا جائے تو محض رنگوں کی جداگانہ شعاعیں باقی رہ جائیں گی۔ اگر بہت سے رنگ لے کر پانی میں تحلیل کر دیئے جائیں تو ایک خاکی مرکّب بن جائے گا جس کو ہم مٹی کہتے ہیں۔ گھاس، پودوں اور درختوں کی جڑیں پانی کی مدد سے مٹی کے ذرّات کی شکست و ریخت کر کے ان ہی رنگوں میں سے اپنی نَوع کے رنگ حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ تمام رنگ پتی اور پھول میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔ تمام مخلوقات اور مَوجودات کی مظہری زندگی اس ہی کیمیائی عمل پر قائم ہے۔ نَسمہ کی حرکت داخل کی زندگی سے خارج کی زندگی تک عمل کرتی اور خارج کی زندگی کو مظہر کی شکل و صورت دیتی ہے۔ فی الحقیقت یہ شکل و صورت صرف رنگوں کی اجتماعیت ہے۔ نَسمہ کے اندر دو قسم کی مظہریت ہوتی ہے۔
اوّل، حرکت کا طول۔
دوئم، حرکت کی رفتار
حرکت کا طول مکانیت اور حرکت کی رفتار زمانیت ہے۔ حرکت کی یہ دونوں طرزیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں۔
تین عالم کیوں؟
جب مصوّر تصویر بناتا ہے یہ تصویر اس کے تصوّر کا عکس ہوتی ہے۔ تصوّر بذاتِ خود کاغذ پر منتقل نہیں ہوتا۔ اس ہی لئے وہ کسی شئے کی جتنی تصویریں بنانا چاہتا ہے بنا سکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ تصوّر جُوں کا تُوں اس کے ذہن میں محفوظ ہے۔ یہاں سے تخلیق کا یہ قانون مُنکشِف ہو جاتا ہے کہ اصل اپنی جگہ محفوظ رہتی ہے۔ اور عکس منتقل ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام مخلوق ظُہور میں آنے سے پہلے خالق کے ارادے میں جس طرح محفوظ تھی، اب بھی اُس ہی طرح محفوظ ہے۔ کائنات کا یہی مرکزِ محفوظیّت لوحِ محفوظ کہلاتا ہے۔ جس کو نقطۂِ وحدانی بھی کہہ سکتے ہیں۔
مَوجودات میں جس قدر نوعیں ہیں ان سب کی اصلیں نقطۂِ وحدانی میں محفوظ ہیں۔ نقطۂِ وحدانی کے عین مقابل ایک آئینہ ہے جس کو عالمِ مثال کہتے ہیں۔ اس آئینہ میں ہر نَوع کی الگ الگ مرکزیّت ہے۔ یہ مرکزیّت کسی نَوع کے تمام افراد کا ایک ایسا مجموعی ہیولیٰ ہے جس میں نَوع کی معیّن شکل وصورت نقش ہوتی ہے۔ چنانچہ نقطۂِ وحدانی کی لاشمار نوعیں اپنی روشنی سے لاشمار نوعوں کا مرکزی ہیولیٰ بناتی ہیں۔
جب نقطۂِ وحدانی کی شعاعیں عالمِ مثال کی طرف حرکت میں آتی ہیں تو زمان(Time) وقوع میں آتا ہے لیکن یہ حرکت اکہری ہوتی ہے۔ اس میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے۔ اس حرکت کی طوالت ازل سے ابد تک ہے۔ زمان بھی ازل تا ابد ہے۔ اس ہی لئے اس حرکت کو زمان(Time) کہتے ہیں۔ یہ حرکت ازل سے ابد تک مسلسل سفر کرتی ہے جب یہ حرکت عالمِ مثال سے گزر جاتی ہے تو ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ عالمِ مثال کا آئینہ شعاعوں کو قبول کر کے اپنی فطرت کے مطابق ان شعاعوں کو واپس لوٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش سے شعاعوں کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک طرف نقطۂِ وحدانی کی فطرت آگے بڑھانے پر مجبور کرتی ہے۔ دوسری طرف مثالی آئینہ کی فطرت شعاعوں کو واپس لوٹانے پر اپنی پوری کوشش صرف کر دیتی ہے۔ اس کشمکش میں یہ حرکت مرکّب(دوہری) ہو جاتی ہے۔ حرکت میں بھی دو رخ ہوتے ہیں: ایک کشش، دوسرا گریز۔
مُفرد حرکت(زمان) جو نقطۂِ وحدانی سے شروع ہوتی ہے، نزولی حرکت ہے۔ نقطۂِ وحدانی سے متضاد سمت میں سفر کرتی ہے۔ لہٰذا اس کو گریز کہا جاتا ہے۔
جب مثالی آئینہ عکس کو لوٹانے کی کوشش کرتا ہے تو مُفرد حرکت کی سمت بدل جاتی ہے۔ وہ اب تک نزول کر رہی تھی، لیکن حرکت کے متضاد ہونے سے صَعود کی طرف رجوع ہو جاتی ہے۔ یہ حرکت کشش کہلاتی ہے۔
تخلیق کا قانون
زمان اور مکان کو سمجھنے کے لئے کُن کی تشریح ضروری ہے۔ جب ہم لفظ قرآن کہتے ہیں تو ہماری مراد اس سے وہ افہام و تفہیم ہوتی ہے جو قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام پر نازل ہوئیں۔ ہماری مراد ’’ق ر‘‘ پیش قُر… زبر ’’آ‘‘… ’’ن‘‘ ساکن قُرآن(لفظ) ہرگز نہیں ہوتا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر بات کے لئے ایک اسم(نام) یا علامت جسے جسم کہنا چاہئے ہوتا ہے لیکن کوئی علامت یا جسم اس شئے کی زندگی یا روح نہیں ہوتی۔ علامت یا جسم مفروضہ ہے، اس کے اندر بسنے والی روح یا زندگی حقیقت ہے۔ سننے والا لفظ کو سنتا اور حقیقت کو سمجھتا ہے۔ جب ہم قلم کہتے ہیں تو سننے والا ’’ق ل م‘‘ نہیں سمجھتا بلکہ اس کے ذہن میں ایک ایسی چیز آتی ہے جو لکھنے کا کام کرتی ہے۔ ساخت کا قانون یہاں سے واضح ہو جاتا ہے۔ اگر ہم کسی شئے کو اس شئے کی زندگی یا حرکت کہیں تو اس شئے کی حقیقت کا تذکرہ کریں گے۔ اب ہم مَوجودات کے اندر جس قدر نوعیں ہیں اور ان نوعوں میں جس قدر افراد ہیں ان میں سے ہرفرد کا نام ذرّہ رکھ لیتے ہیں۔ یہ ذرّہ دراصل حرکت ہے جس کے دو رخ ہیں۔ حرکت کا ایک رخ رنگین روشنی ہے جس کو اس ذرّہ کا مظہر یا جسم کہا جاتا ہے۔ حرکت کا دوسرا رخ بے رنگ روشنی ہے جس کو زندگی، فطرت، کردار یا حقیقت کہا جاتا ہے۔ حقیقت یا بے رنگ روشنی یا حرکت (نَسمہ) کا ایک رخ زمان کہلاتا ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی ایک حدیث شریف ہے۔
لاَ تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ
ترجمہ: زمانے کو برا نہ کہو، زمانہ اللہ ہے۔
حرکت کے اس رخ میں کوئی تغیّر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی رُو سے حرکت (نَسمہ) کے بھی دو رخ ہوتے ہیں۔ یہ دونوں رخ جیسا کہ قانون ہے، اَوصاف کی بنا پر ایک دوسرے کے منافی ہیں۔ حرکت کے جس رخ میں تغیّر ہوتا ہے اس کو مکان کہتے ہیں۔ اور جس (متضاد) رخ میں تغیّر نہیں ہوتا اس کو زمان کہتے ہیں۔ وہ تمام صفات جو کسی ہستی، کردار یا زندگی کی اصلیں ہیں ان کا قیام زمان کے اندر ہے۔ ان اصلوں میں کوئی تغیّر واقع نہیں ہوتا ہے کہ اس کا مُستقَر یا مرکز زمان ہے جو غیر متغیّر ہے۔ حرکت کا وہ رخ جو زمان کے برعکس ہے مکان کہلاتا ہے۔ ہر قسم کا تغیّر اس ہی رخ میں ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (سورۃ ق – آیت نمبر 16)
ان الفاظ میں زمان کی وضاحت کی گئی ہے۔ معاذ اللہ! اللہ تعالیٰ کا کوئی کلام اور ارشاد عبث نہیں ہوتا۔ اس بات کی تصدیق حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی مذکورہ بالا حدیث سے ہوتی ہے، زمانے کو برا نہ کہو، زمانہ اللہ ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی دوسری حدیث میں بھی اس معنی کی تشریح کرتی ہے۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
نفس اس حقیقت کا نام ہے جس میں کوئی تغیّر نہیں ہوتا۔
زمان کو سمجھ لینے کے بعد خالقیّت اور مخلوقیت کی قدریں الگ الگ ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ هُوَ اللہُ أَحَدٌ (1) اللہُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ (4)
ترجمہ: اللہ لاثانی ہے۔ اللہ لا احتیاج ہے۔ اللہ لا اولاد ہے۔ اللہ لاوالدین ہے۔ اللہ لا کفو ہے۔
یہ سب خالقیّت کی قدریں ہیں۔
ثانی ہونا، ذی احتیاج ہونا، ذی اولاد ہونا، ذی والدین ہونا، ذی خاندان ہونا، مخلوقیت کی قدریں ہیں۔ یہ قدریں مکان یعنی مظہر(Space) پر مشتمل ہیں۔ لیکن خالقیّت کی قدریں ان قدروں کے برعکس ہیں۔ مخلوقیت کی قدروں میں ابتدا، انتہا، اشتباہ، عکس رنگ(روشنی) کی درجہ بندی اور ہر قسم کا تغیّر ہوتا ہے اور مختلف نوعوں میں مختلف شکل و صورت، مختلف آثار و اَحوال پائے جاتے ہیں۔
زمان اور مکان کی بہت واضح مثال راستہ اور مسافر سے دی جا سکتی ہے۔ راستہ زمان ہے اور مسافر مکان۔ اگرچہ مسافر کا اِنہماک خود میں یعنی اپنے آثار و اَحوال میں ہوتا ہے تا ہم مسافر بغیر راستہ کے اپنی ہستی قائم نہیں رکھ سکتا۔ وہ راستہ سے کتنا ہی غافل رہے لیکن یہ ناممکن ہے کہ وہ راستہ سے لاتعلّق ہو جائے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ مسافر میں اور راستہ میں کمترین اور نازک ترین فصل بھی نہیں ہو سکتا۔ مسافر راستہ ہی کی تخلیق ہے۔ مسافر کی تمام حرکات و سکنات، سارا کردار، زندگی کی طرزیں اور فکریں راستہ کے حدود سے باہر نہیں جا سکتیں۔ وہ راستہ کی قدروں اور راستہ کے اُصولوں کا پابند ہے۔ انسانی زندگی میں راستہ لاشعور ہے اور مسافر شعور ہے۔ ہم شعور سے لاشعور کو پہچان سکتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا اِنہماک شعور میں زیادہ سے زیادہ ہے تو اس کی توجہ لاشعور میں کم سے کم ہے جس سے زندگی کے عمل اور اقدار کم رہ جاتی ہیں۔ شعور کا زیادہ سے زیادہ ہونا شعور کے زیادہ سے زیادہ حرکت میں رہنے کی دلیل ہے۔ اس لئے عمل کی مقدار کم سے کم رہ جاتی ہے جب انسان پیہم فکر کرتا ہے تو لاشعور کے حرکت میں آنے کا وقفہ کم سے کم رہ جاتا ہے اور صرف یہی وقفہ عمل کا وقفہ ہے کیونکہ سوچ بچار سے آزاد ہے۔
قانون یہ ہوا کہ جتنا زیادہ سے زیادہ وقت لاشعور کو دیا جائے گا، زندگی اتنے ہی عمل کے راستے طے کرے گی۔ دراصل لاشعور ہی نَسمہ کی حرکت کا وہ رخ ہے جو زندگی کی مکانیتوں یعنی زندگی کے اعمال کی تعمیر کرتا ہے۔ ہم پھر ایک بار تشریح کر دینا چاہتے ہیں کہ نقطۂِ وحدانی کے دو رخ ہیں۔ ایک عالم نور جو اصل زمان ہے، دوسرا عالمِ امَر جو اصل مکان ہے۔
عالمِ امَر یا اصلِ مکان میں زمان غالب اور مکان مغلوب ہے۔ عالم مکان یا خلق میں مکان غالب اور زمان مغلوب ہے۔ زمان اصلِ مکان میں بھی بساط (Base Line) ہے اور مکان میں بھی۔ اصل مکان نسمۂِ مُفرد ہے اور مکان نسمۂِ مرکّب۔ نسمۂِ مُفرد کی عام تعمیر عالمِ امَر کہلاتی ہے اور نسمۂِ مرکّب کی تمام تعمیر عالمِ خلق کہلاتی ہے۔ ان دونوں عالموں کے درمیان عالمِ مثال پردہ (برزخ) ہے۔ انسان عالمِ امَر میں پانچ قدم اٹھاتا ہے، پھر عالمِ خلق میں دو قدم۔۔۔۔۔۔پانچ قدم اخَفیٰ، خَفی، سِر، روح اور قلب ہیں۔ اور دو قدم احساس(نفس) اور قالب ہیں۔ یعنی پانچ قدم عالمِ امَر کے ہیں اور دو قدم عالمِ خلق کے۔
اخَفیٰ اور خَفی کی حرکت لاشعور میں رہتی ہے۔ یہ حرکتِ اُولیٰ ہے۔ سِر، روح اور قلب کی حرکات قالبِ انسانی میں وہم، خیال اور تصوّر کی نوعیت رکھتی ہیں۔ یہ حرکت ثانی ہے۔ نفس اور جسم کی حرکات قالبِ انسانی میں احساس اور عمل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ حرکتِ آخر ہے۔ اخَفیٰ بے رنگ حرکت ہے جس میں گریز پایا جاتا ہے۔ خَفی بے رنگ حرکت ہے جس میں کشش پائی جاتی ہے۔ سِریک رنگ حرکت ہے جس میں گریز پایا جاتا ہے۔ روح یک رنگ حرکت ہے جس میں کشش پائی جاتی ہے اور قلب کُل رنگ حرکت ہے جس میں گریز پایا جاتا ہے۔ نفس کُل رنگ حرکت ہے جس میں کشش پائی جاتی ہے۔ قالب ان حرکات کا مظاہرہ ہے۔
عالمِ امَر کی تمام حرکات مُفرد ہیں۔ دو حرکات ایسی ہیں جن میں کوئی رنگ نہیں جو لانفی کا بسط ہیں۔
نمبر۱۔ لاگریز اخَفیٰ عالمِ امرِ خاص۔
نمبر۲۔ لاکشش خَفی عالمِ امرِ عام۔
اخَفیٰ سے کشف ہوتا ہے لاگریز کا۔ اور خَفی سے کشف ہوتا ہے لاکشش کا۔ یہ دونوں لطائف مَوجودات کی اصلوں کے بسائط(Basic Points) ہیں۔ اخَفیٰ کسی نَوع کی وہ اصل ہے جس میں نَوع کا ایک ہیولیٰ تمام افراد نَوع کو محیط ہوتا ہے۔ اس کی مثال کائناتی شئے سے دی جا سکتی ہے مثلاً کسی درخت کا جو بیج سب سے پہلے اُگا تھا اس بیج کے اندر کائنات کی عمر تک پیدا ہونے والے تمام درخت موجود تھے۔ وہی ایک بیج اپنی تمام نَوع کا ہیولیٰ بنا۔ اس بیج کے ہیولیٰ میں ایسی حرکت پائی جاتی ہے جو اپنے آغاز(مبتداء) سے انجام(مظہر) کی طرف گریز کرنے والی ہے۔ نوعی ہیولیٰ کی حرکت کا یہ پہلا قدم ہے۔ دوسرا قدم خَفی ہے جو اپنے مظہر سے مبتداء کی طرف کھینچتا ہے۔ لا میں عالمِ امَر کے دو ابتدائی بساط پائے جاتے ہیں۔ یہ کُن کے دو ابتدائی قدم ہوئے۔ لام(ل) بسط ہے گریز کا اور الف(ا) بسط ہے کشش کا۔ یہ دونوں بسائط اخَفیٰ اور خَفی حیات کی اصل(لاشعور) ہیں۔ اگر ان دونوں بسائط کے مجموعہ کو نگاہ کا نام دیں تو اس نگاہ کو سطح اور عَمق دونوں رخوں پر تقسیم کریں گے۔ دونوں رخوں میں اخَفیٰ عَمق اور خَفی سطح۔ اخَفیٰ کی نگاہ ہمیشہ پردے کے پیچھے دیکھتی ہے اور خَفی کی نگاہ ہمیشہ پردے کے اوپر دیکھتی ہے۔ اخَفیٰ کی نگاہ پردے سے گزر جاتی ہے کیونکہ پردہ کشش ہے اور اخَفیٰ گریز۔ لیکن خَفی کی نگاہ کشش ہے۔ اس ہی لئے پردے پر رک جاتی ہے، گزر نہیں سکتی۔
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (1) لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (2) هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (3) هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللہ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (4) لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللہ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (5) (سورۃ الحدید)
ترجمہ: اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ زبردست حکمت والا ہے اس ہی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی، وہی حیات دیتا ہے وہی موت دیتا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ وہی پہلے وہی پیچھے اور وہی ظاہر ہے اور وہی مَخفی ہے اور ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔ وہ ایسا ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا، پھر تخت پر قائم ہوا۔ وہ سب کچھ جانتا ہے جو چیز زمین کے اندر داخل ہوتی ہے اور جو چیز اس سےنکلتی ہے اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو چیزاس میں چڑھتی ہے اور وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے خواہ تم لوگ کہیں بھی ہو اور تمہارے سب اعمال کو بھی دیکھتا ہے۔ اس ہی کی سلطنت ہے آسمانوں اور زمین کی اور اللہ ہی کی طرف سب اُمور لوٹ جائیں گے۔
نزول و صَعود
اخَفیٰ، خَفی، سِر، روح، قلب اور نفس یہ سب چھ لطائف ہوئے۔ دراصل یہ چھ حرکتوں کے نام ہیں۔ ان میں سے ہر ایک حرکت ہر نَوع میں ایک طول رکھتی ہے۔ ان چھ حرکات میں سے تین حرکات نزولی ہیں اور تین صَعودی۔ تین نزولی حرکات کے مقابل دوسرے رخ پر تین صَعودی حرکات بیک وقت وقوع میں آتی ہیں۔ ہر ایک نَوع میں پہلی حرکت اخَفیٰ، گریز یا نزول کی حرکت ہے۔ یہ حرکت عَمق سے سطح کی طرف ابھرتی ہے۔ یہ حرکت اپنا معیّن طول طے کرنے کے بعد جس سطح پر پہنچتی ہے اس کا نام سِرّ ہے۔ اخَفیٰ میں یہ حرکت بے رنگ تھی لیکن جب یہ سِر(عالمِ مثال) کے اندر قدم رکھتی ہے تو اس میں ایک رنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ اخَفیٰ کی بے رنگی تمام رنگوں کی اصل تھی۔ اب سِرّ کی یک رنگی اپنے اندر تمام رنگوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ سِرّ کے بعد یہ حرکت ایک طول اور طے کرتی ہے۔ جیسے ہی یہ طول طے ہو چکتا ہے یک رنگی کے اندر جس قدر رنگ تھے سب بکھر جاتے ہیں۔ جن حدود میں یہ رنگ منتشر ہوئے ہیں ان حدود کا ایک رخ قلب یا تصوّر اور دوسرا رخ نفس یا احساس ہے۔ رنگوں کا یہی مجموعہ مظہر یا جسم ہے، خواہ کسی نَوع کا ہو۔ اب تک اس سفر میں لاشعور یعنی زمان سطح پر تھا اور مکان یعنی شعور عَمق میں۔ لیکن مظہر کی حدود میں قدم رکھنے کے بعد زمان عَمق میں چلا جاتا ہے اور مکان سطح پر آ گیا تو حرکت صَعودی ہو گئی۔ یہ حرکت مظہر(لطیفۂِ نفسی) سے روح کی طرف صَعود کرتی ہے اور روح سے خَفی کی طرف۔ اخَفیٰ لوحِ محفوظ ہے۔ سِرّ عالمِ مثال ۔لطیفۂِ روحی مذہب کی زبان میں اعراف یا برزخ کہلاتا ہے۔ خَفی کتابُ المرقوم، حشر و نشر کی منزل ہے۔
جیسا کہ ہم اوپر تذکرہ کر چکے ہیں انسانی زندگی کے یہ سات قدم ہوئے۔ ساتوں قدم سات عمریں ہیں۔ ان ساتوں عمروں کے دو مجموعی نام ہیں۔
ایک عالم رنگ یا عالمِ ناسُوت یعنی موجودہ دنیا۔ دوسرا حشر و نشر۔
ان دو منزلوں کے درمیان دو مرحلے اور پڑتے ہیں۔ لوحِ محفوظ اور عالمِ ناسُوت کا درمیانی مرحلہ عالمِ مثال کہلاتا ہے۔ عالمِ ناسُوت اور حشر و نشر کا درمیانی مرحلہ عالمِ برزخ کہلاتا ہے۔ یہ مرحلہ صَعودی حرکت میں پیش آتا ہے۔
تشریح:
قلم یعنی علمُ القلم اور لوح یعنی لوحِ محفوظ۔
یہ دونوں نقطۂِ وحدانی کے دو رخ ہیں۔ جو رخ ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف ہے، اُس کو علمُ القلم کہتے ہیں۔ یہی رخ تجلّیِٔ ذات بھی کہلاتا ہے۔ اور عام اِصطلاح میں وراءِ بے رنگ یا وراءِ لاشعور کہہ سکتے ہیں۔ قلم اور لوح کے تئیس شعبے ہیں ہم یہاں قلم (وراءِ بے رنگ) کے تئیس شعبوں کاتذکرہ نظر انداز کرتے ہیں۔ صرف لوح (بے رنگ) کے اس شعبہ کا تذکرہ کریں گے جس کا بیان مذکورہ بالا آیت میں کیا گیا ہے۔ یہ شعبہ لوح یا لاشعور کے اس نقطہ سے متعلّق ہے جس کی ایک سطح حافظہ اور دوسری سطح فکر ہے۔ یہ دونوں سطحیں ایک ہی حرکت کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ حافظہ کی سطح اور دوسرا رخ فکر کی سطح۔ حافظہ کی سطح خلاءِ نور ہے۔ یہ بسیط، عَمیق اور محیط ہے۔ فکر کی سطح محض نور ہے جو خلاءِ نور سے نور کی طرف یعنی لامحدودیت سے محدودیت کی طرف نزول کرتی ہے۔ اس ہی حرکت کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت کے پہلے جُزو میں کیا ہے۔
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ
چنانچہ ہر شئے لامحدودیت سے محدودیت میں آ کر اس بات کا تعارف کراتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک بے نقص اور غیر محدود ہے اور غیر محدودیت ہی اللہ تعالیٰ کی سبحانیت اور پاکی کا شعبہ ہے۔ اگر غیر متغیّر اور متغیّر کو الگ الگ سمجھنا چاہیں تو غیر متغیّر کا نام لامحدودیت اور تغیّر پذیر کا نام محدودیت رکھنا ہو گا۔ جب کسی شئے میں تغیّر پیدا ہوتا ہے تو پہلے حدود کا قیام عمل میں آتا ہے یعنی حد بندی کے بغیر کوئی شئے تغیّر کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔ تغیّر حرکت کا دوسرا نام ہے اور کسی شئے میں جب تک حدود کا تعیّن موجود نہ ہو حرکت واقع نہیں ہو سکتی۔ تغیّر سے پاک ہونا ہر قسم کی احتیاج ہر طرح کی پابندی اور ہر تعدد سے آزاد ہونا ہے۔ قرآنِ پاک میں لامحدودیت کو خالق اور محدودیت کو مخلوق قرار دیا گیا ہے۔
خارج۔ خارجی طور پر کائنات تین دائروں پر مشتمل ہے۔ یہ تین دائرے دراصل کائنات کے تین حصّے ہیں۔
پہلا دائرہ مادّیت کا ہے۔ دوسرا حیوانیت کا اور تیسرا انسانیت کا۔ خارجی عمل جس کو میکانکی عمل کہنا چاہئے، مادّیت کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس میکانکی عمل کے نتیجے میں جمادات، نباتات بنتے ہیں۔ دوسرے دائرے سے حیوانات اور پھر انسانی تعمیر کے خمیر کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ تین معیّن دائرے خارج یا مظاہر کہلاتے ہیں لیکن تحلیل کی طرزیں ہماری نگاہ سے پوشیدہ ہیں اور یہ مَخفی طرزیں اللہ تعالیٰ کی زبردست حکمت کا ایک جُزو ہیں۔
وارِدات۔یہ منفی تحلیل نقطۂِ وحدانی کے ذہن سے عمل میں آتی ہے۔ نقطۂِ وحدانی کا ذہن اللہ تعالیٰ کا وہ ارادہ ہے جو کُن فرمانے سے ظُہور میں آیا۔ یہاں سے یہ بات مُنکشِف ہو جاتی ہے کہ لامحدودیت کا ارادہ اخَفیٰ کو خَفی کی صورت عطا کرتا ہے۔ یا خلاءِ نور کو نور کی شکل دیتا ہے۔ یہ ارادہ کسی سبب یا وسیلہ کی احتیاج نہیں رکھتا۔ کیونکہ خلاءِ نور میں وسائل یا اسباب کا کوئی قوام موجود نہیں ہے۔ یہ تبدیلی جس نے خلاءِ نور کو نور میں تبدیل کیا ہے صرف خالق کے ارادے سے عمل میں آئی ہے۔ اس حقیقت سے یہ نتیجہ پیدا ہوتا ہے کہ خلاءِ نور اور خالق کا ارادہ دونوں ایک ہی حقیقت ہیں اور یہی حقیقت کائنات کی تعمیر کا بسط ہے۔ قرآنِ پاک میں اس حقیقت کو تدلّٰی کا نام دیا گیا ہے۔
عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ (5) ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ (6) وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ (7) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ (8) فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ (9)
(سورۂ نجم، پارہ ۲۷)
ترجمہ: ان کو تعلیم کرتا ہے جس کی طاقت زبردست ہے۔ اصلی صورت پر نمودار ہوا جب وہ افق پر تھا۔ نزدیک آیا۔ پھر اور نزدیک آیا۔ جھکا، دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا بلکہ کم۔
ان آیات میں ان مشاہدات کا ذکر ہے جو حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کو خلاءِ نور سے متّصل ہونے میں پیش آئے تھے۔ اس حقیقت کا تعارف معرفتِ ذات کے اعلیٰ مراتب سے تعلّق رکھتا ہے۔ اس مرتبہ میں ذاتِ باری تعالیٰ کے کمالات کا انکشاف ہوتا ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے جو تعلیمات براہِ راست اللہ تعالیٰ سے حاصل کی تھیں۔ مذکورہ بالا آیات میں ان ہی تعلیمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ خلاءِ نور ان تجلّیات کا مجموعہ ہے جو علوم کے حقائق ہیں۔ ان ہی علوم کے حقائق کو علمُ القلم کہا جاتا ہے۔ یہ لوحِ محفوظ کے اَحکامات پر اوّلیت رکھتے ہیں۔ ان ہی علوم کی ثانویت کا نام لوحِ محفوظ کے اَحکام ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی ماثورہ دعاؤں میں کہیں کہیں ان علوم کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان میں سے ایک دعا یہ ہے:
یا اللہ! میں تجھے تیرے ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جن کو تو نے مجھ پر ظاہر کیا۔ یا مجھ سے پہلوں پر ظاہر کیا۔ اور میں تجھے تیرے ان ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جن کو تو نے اپنے علم میں اپنے لئے محفوظ رکھا اور تجھے تیرے ان ناموں کا واسطہ دیتا ہوں جو تُو میرے بعد کسی پر ظاہر کرے گا۔
اس دعا میں خلاءِ نور یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات و کمالات، شعائر و عادات اور قوانین تجلّیات کو اللہ تعالیٰ کے اسماء قرار دیا گیا ہے۔ یہ علم اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد اور اِبداء سے پہلے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس مرتبہ کی معرفت بغیر وسائل و اسباب کے تخلیق و تکوین کی صلاحیّتیں عطا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہر نام میں لاشمار کمالات جمع ہیں۔ کمالات خلاءِ نور سے صادِر ہو کر لوحِ محفوظ کی زینت بنتے ہیں اور پھر لوحِ محفوظ سے عالمِ خلق میں ظاہر ہوتے ہیں۔
ہم نے پچھلے صفحات میں خلاءِ نور کو وراءِ بے رنگ کہا ہے۔ خلاءِ نور یا وراءِ بے رنگ سے نفی یا عدَم مراد نہیں ہے بلکہ عدَم نور مراد ہے، وہ عدَم نور جو قانونِ نورانیت کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک طرح کا لطیف ترین جلوہ ہے اور اس ہی جلوہ سے نور کی تخلیق ہوئی ہے۔ذاتِ باری تعالیٰ خلاءِ نور سے ماوراء ہے۔ خلاءِ نور وراءِ بے رنگ ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ وراء الوراء بے رنگ ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ کی تشخیص میں فی الحقیقت الفاظ کو دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا بیان وہم، تصوّر، الفاظ ہر طرز فہم سے بالاتر ہے۔ محض فکرِ وِجدانی اللہ تعالیٰ کی قربت کو محسوس کر سکتی ہے۔ اور اس ہی فکرِ وِجدانی کی سعی انسان کو ایسے مقام پر پہنچا دیتی ہے جہاں وہ تجلّیِٔ ذات کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ اس ہی مقام میں اللہ تعالیٰ سے گفتگو کے مواقع حاصل ہوتے ہیں یہ گفتگو براہِ راست ذات سے نہیں بلکہ تجلّیِٔ ذات کی معرفت ہوتی ہے۔
کائناتی نقطہ، فکر وِجدانی
شئے کا مشاہدہ ہی شئے کی فہم کا باعث بنتا ہے۔ شئے پہلے انسان کے مشاہدے میں داخل ہوتی ہے۔ پھر فہم یعنی شعور میں باریابی پاتی ہے لیکن یہ آخری منزل نہیں ہے، آخری منزل لاشعور یا وراءِ شعور ہے جہاں شئے اپنی حقیقت میں پیوست ہو جاتی ہے۔ یہ سطح شعور کی گہرائی میں واقع ہے۔ گزشتہ صفحات میں ہم نے اس سطح کو بے رنگ یا خَفی کہا ہے۔ یہ سطح شعور سے نیچے اور وراءِ بے رنگ سے اوپر واقع ہے۔جب ہم کسی چیز کا نام لیتے ہیں تو وہ سننے والے کے ذہن (روح) میں وارِد ہوتی ہے مثلاً جب سورج کہا جاتا ہے تو سننے والا اپنے داخل میں سورج کو محسوس کرتا ہے جو سورج خارج میں ہے اس سے داخلی سورج کا کوئی علاقہ نہیں ہے۔ یہ داخلی سورج ذہن یا روح کی وارِدات ہے۔ تمام دنیا میں جتنے انسان سورج کے بارے میں سوچتے یا سنتے ہیں ان سب کا نقطۂِ وارِدات ایک ہی سورج ہے۔ یہ ایک حقیقت ہوئی جس میں کوئی تغیّر نہیں ہوتا۔ گویا یہ ایک حقیقتِ ثابِتہ ہے۔جب ہم کسی ایسی شئے کا نام سنتے ہیں جس کو ہم نے کبھی نہیں دیکھا تو وہ بھی اَن دیکھی شئے حقیقتِ ثابِتہ کی صورت میں ذہن کے اندر داخل ہوتی ہے مثلاً کسی شخص نے خدا کو نہیں دیکھا لیکن جب وہ خدا کا نام سنتا ہے تو اس کے داخل میں ایک حقیقت وارِد ہوتی ہے۔ ایسی حقیقت جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس حقیقت کے وارِد ہونے کا ایک ہی کائناتی نقطہ ہے جس کے اندر صرف کائنات ہی نہیں بلکہ وراءِ کائنات بھی موجود ہے۔ یہی محسوس نقطہ جہاں تک کائنات کا احاطہ کرتا ہے لفظ جمع یا عین الیقین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن جب اس نقطے میں وراءِ کائنات بھی داخل ہو جاتا ہے تو حق الیقین یا جمع الجمع کہلاتا ہے۔
علم الیقین
مذکورہ وارِدات یا محسوسات سے پیش تر ذہنِ انسانی کی ایک خاص حالت ہوتی ہے جس کو علم الیقین کہتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا مشاہدہ ہے۔
ایک حقیقت
ایک شخص آئینہ میں اپنا عکس دیکھ رہا ہے مگر آئینہ اُس سے پوشیدہ ہے۔ وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ میرے سامنے مجھ جیسا ایک انسان ہے تو یہ حالت علم الیقین کہلاتی ہے۔
عین الیقین
اگر دیکھنے والے کو یہ علم ہے کہ میں آئینہ میں اپنا عکس دیکھ رہا ہوں لیکن وہ اپنی، آئینہ کی اور عکس کی حقیقت سے ناواقف ہے تو یہ حالت عین الیقین کہلاتی ہے۔
حق الیقین
اگر دیکھنے والا اپنی، آئینہ کی اور عکس کی حقیقت جانتا ہے تو یہ حالت حق الیقین کہلاتی ہے۔
مزید تشریح:
روزمرّہ مشاہدات میں روشنی آئینہ کا قائم مقام ہے۔ شاہد اور مشہود کے درمیان یہی روشنی آئینہ کا کام دیتی ہے۔ ہم دیکھنے کے عمل کو چار دائروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ یہی چار دائرے تصوّف کی اِصطلاح میں چار بُعد کہلاتے ہیں۔ گزشتہ صفحات میں ان کا تذکرہ نہروں کے نام سے کیا جا چکا ہے۔ پہلے دائرے کا نام تسوید ہے۔ اس ہی دائرہ کو خلاءِ نور بھی کہتے ہیں۔ لامکان، زمان وقت وغیرہ اس ہی دائرہ کے نام ہیں۔ یہی دائرہ تجلّیِٔ ذات یا کائنات کی بنیاد ہے۔ اس ہی کو قرآنِ پاک میں تدلّٰی کہا گیا ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی دو حدیثوں میں ہے:
۱۔ لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ (وقت میں میرا اور اللہ کا ساتھ ہے)۔
۲۔ لاَ تَسُبُّوا الدَّهْرَ فَإِنَّ اللهَ هُوَ الدَّهْرُ (وقت کو برا نہ کہو، وقت اللہ ہے)۔
یہی دائرہ غیر متغیّر ہے۔ اس ہی دائرہ کی حدود ازل تا ابد ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد کُن اُس ہی دائرہ کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ میں اس ہی دائرہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہی دائرہ پہلا بُعد ہے اور ہم اپنی اِصطلاح میں اس کا نام نظر رکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد تینوں دائرے مکان(Space) ہیں جن کے نام بالتّرتیب تجرید، تشہید، تظہیر ہیں۔
بُعد نمبر۱۔ نظر
بُعد نمبر۲۔ نظارہ
بُعد نمبر۳۔ ناظر
بُعد نمبر۴۔ منظور
ان چاروں کے نام شُہود، مشاہدہ، شاہد اور مشہود بھی لئے جاتے ہیں۔ نظر یا شُہود یا تسوید یا زمان(Time) کائنات کی ساخت میں اصل یا بنیاد ہے۔ اس میں کبھی کوئی تغیّر واقع نہیں ہوا، نہ آئندہ ہو سکتا ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک حقیقت کبریٰ ہے۔ اس ہی حقیقت کبریٰ پر تینوں مکانیتوں کی عمارت قائم ہے۔ یہی حقیقت کبریٰ ان تینوں مکانیتوں کی حقیقت ہے۔ یہ حقیقت کبریٰ لامکان ہے۔ اس کے بعد پہلی مکانیت جو تجرید کہلاتی ہے، مشاہدہ یا نظارہ کی نوعیت میں اپنا وُجود رکھتی ہے۔ دوسری مکانیت یا تشہید شاہد یا ناظر کی نوعیت رکھتی ہے۔ تیسری مکانیت تظہیر، مشہود یا منظور کہلاتی ہے۔ یہ مکانیت روشنی کا بحرِ ذخّار ہے۔
نُور و نار
تجرید یا پہلی مکانیت نور ہے۔ تشہید یا دوسری مکانیت نسمۂِ مُفرد ہے۔ یہی نسمۂِ مُفرد کائناتی شعاع یا کاسمک ریز (Cosmic Rays) کہلاتا ہے۔ نسمۂِ مرکّب یا تظہیر یعنی تیسری مکانیت، کائناتی شعاعوں کے علاوہ جتنی روشنیاں ہیں سب پر مشتمل ہیں۔ تظہیر کی شعاعوں کے ہُجوم ہی سے کائنات کے تمام جسم بنتے ہیں۔ تظہیر کی روشنیاں ایک طرح کا رنگین آئینہ ہیں۔
دراصل چاروں بُعد چار آئینے ہیں۔ پہلا غیر متحرّک اور غیر متغیّر آئینہ نظر یا لامکان ہے۔ دوسرا متحرّک یا متغیّر آئینہ نظارہ ہے۔ تیسرا متحرّک آئینہ ناظر ہے اور چوتھا متحرّک آئینہ منظور ہے۔
نظر
ہم نظر کو ایک طرح کا کائناتی شعور کہہ سکتے ہیں۔ یہ جس مقام پر جس نقطہ میں بھی جلوہ گر ہوتی ہے ایک ہی طرز رکھتی ہے۔ انسان میں جو نظر پانی کو پانی دیکھتی ہے وہ نظر ہر شئے کے اندر پانی کو پانی دیکھتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انسان نے پانی کو پانی دیکھا ہو اور شیر نے پانی کو دودھ دیکھا ہو۔ نظر کا کردار کائنات کے ہر ذرّہ اور نقطہ میں ایک ہے۔ جس طرح ہم لوہے کو سخت محسوس کرتے ہیں اِسی طرح چیونٹی بھی لوہے کو سخت محسوس کرتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ لوہا جس نگاہ سے انسان کو دیکھتا ہے اس ہی نگاہ سے چیونٹی کو دیکھتا ہے۔ کائنات میں پھیلے ہوئے تمام مناظر اس ہی قانون کے پابند ہیں۔ جب آدمی چاند کی طرف نظر اٹھاتا ہے تو چاند کو اِسی شکل و صورت میں دیکھتا ہے جس شکل وصورت میں چکور دیکھتا ہے۔ جب درخت کی جڑیں پانی حاصل کرتی ہیں تو پانی سمجھ کر حاصل کرتی ہیں بالکل اس ہی طرح جس طرح ایک جانور پانی کو پانی سمجھتا ہے۔ ایک سانپ بھی دودھ کو دودھ سمجھ کر پیتا ہے اور ایک بکری بھی دودھ سمجھ کر پیتی ہے۔
نتیجہ:ہم ان تمام مثالوں سے ایک ہی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ تمام کائنات کے ہر ذرّہ میں ایک نظر کام کر رہی ہے۔ اس نظر کے کردار میں کہیں اختلاف نہیں۔ وہ ہر ذرّہ میں غیر متغیّر ہے۔ اس کا ایک معیّن اور مخصوص کردار ہے۔ نظر کے کردار میں ابتدائے آفرینش سے کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ یہ نظر مکانیت اور زمانیت دونوں کی نفی کرتی ہے کیونکہ اس کی روش میں نہ تو وقت کے تغیّر سے کوئی تغیّر ہوتا ہے اور نہ وقت کی تبدیلی سے کوئی تبدیلی۔ یہ نظر ازل سے ابد تک کسی لمحہ یا کسی ذرّہ کی گہرائی میں ایک ہی صفَت رکھتی ہے۔ یہی نظر وہ مقام ہے جس کو شعور کا مرکزی نقطہ یا کائنات کی حقیقت کہہ سکتے ہیں۔ یہ محض رنگ ہی سے ماوراء نہیں بلکہ بے رنگ سے بھی ماوراء ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔
عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
انسان کو علم سکھایا، وہ نہیں جانتا تھا۔
یہاں سکھانے کا مطلب وُدیعت کرنا یا لاشعور میں پیوست کرنا ہے۔ یعنی جس چیز سے کائنات کی سرشت اور جبلت عاری تھی اللہ تعالیٰ نے وہ چیز انسان کی فطرت میں بطور خاص وُدیعت کی۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے آدم کے پُتلے میں روح پھونکی۔
فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (سورۂ ص۔ آیت ۷۲)
ترجمہ: پس جس وقت کہ درست کروں اور پھونکوں اس کے بیچ اپنی روح میں سے پس گر پڑو واسطے اس کے سجدہ کرتے ہوئے۔
یہ بھی ارشاد کیا ہے کہ میں نے آدم کو علمُ الاسماء عطا کیا۔
عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا
یہ تمام ارشادات اس مطلب کی وضاحت کرتے ہیں کہ مَوجودات کے اندر جو چیز اصل ہے اس کا سمجھنا اور جاننا بجُز انسان کے اور کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ یہ خُصوصی علم اللہ تعالیٰ نے صرف آدم کو عطا کیا ہے۔ یہ خُصوصی علم لاشعور کا علم ہے۔
علمُ الاسماء
کائنات میں ہر مخلوق شعور رکھتی ہے۔ مثلاً درختوں اور جانوروں کو پیاس لگتی ہے اور پانی پی کر پیاس بجھانے کا شعور حاصل ہے۔ اِسی طرح ہوا کو پانی کے ننھے ننھے ذروں کا اور ان کو اپنے دوش پر اٹھا لینے کا شعور حاصل ہے۔ یہ عام سطح کا شعور ساری مَوجودات میں پایا جاتا ہے۔ لیکن اس بات کا سمجھنا کہ مَوجودات کو یہ وصف کہاں سے ملا صرف انسان کو میسر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کے پُتلے میں اپنی روح پھونک کر یہ علم اس کو بخشا ہے۔
قرآنِ پاک میں تینوں علوم کا تذکرہ ملتا ہے۔
۱۔ علمِ حُضوری
۲۔ علمِ حُصولی
۳۔ علم تدلّٰی یا علمِ نبوت
علمِ حُضوری
ہر ذی شعور کائنات کا محلِ وقوع جانتا ہے۔ وہ یہ ضرور سوچتا ہے کہ آخر یہ تمام کس جگہ قائم ہیں۔ کس سطح پر رُکی ہوئی ہیں۔ قرآنِ پاک میں جگہ جگہ اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ بار بار اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں علیم ہوں، میں خبیر ہوں، میں بصیر ہوں، میں محیط ہوں، میں قدیر ہوں، میں زمین و آسمان کا نور ہوں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام عبارتوں سے لازماً یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ کائنات کا محلِ وقوع اللہ تعالیٰ کا علم ہے۔
کائنات اللہ تعالیٰ کے علم میں کس طرح واقع ہے؟ یہ بات سمجھنے کے لئے کائنات کے اَجزاء کی داخلی ساخت جاننا ضروری ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر چیز اپنے مقام سے قدم قدم چل کر منزل کی طرف سفر کر رہی ہے۔ اس سفر کا نام ارتقاء ہے۔ اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ارتقا کیا ہے۔ اور کس طرح وقوع میں آ رہا ہے۔
ہم روشنی کے ذریعے دیکھتے یا سنتے، سمجھتے اور چھوتے ہیں۔ روشنی ہمیں حواس دیتی ہے۔ جن حواس کے ذریعے ہمیں کسی شئے کا علم حاصل ہوتا ہے وہ روشنی کے دیئے ہوئے ہیں۔ اگر روشنی درمیان سے حذف کر دی جائے تو ہمارے حواس بھی حذف ہو جائیں گے۔ اس وقت نہ تو خود ہم اپنے مشاہدہ میں باقی رہیں گے اور نہ کوئی دوسری شئے ہمارے مشاہدہ میں باقی رہے گی۔
مثال:
اگر کوئی مصوّر سفید کاغذ پر رنگ بھر کے درمیان میں ایک کبوتر کی جگہ خالی چھوڑ دے۔ پھر وہ کاغذ دکھا کے کسی شخص سے پوچھا جائے تمہیں کیا نظر آ تا ہے تو وہ کہے گا میں ایک سفید کبوتر دیکھ رہا ہوں۔
جس طرح یہ مثال پیش کی گئی بالکل اِسی طرح اللہ تعالیٰ کا علم کائنات کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔ کائنات کا ہرذرّہ بصورت خلاء اللہ تعالیٰ کے نور میں واقع ہے۔ دیکھنے والے کو اللہ تعالیٰ کا نور نظر نہیں آتا، صرف کائنات کا خلاء نظر آتا ہے۔ جس کو وہ اشیاء چاند، سورج، زمین، آسمان، آدمی، جانور وغیرہ وغیرہ کہتا ہے۔
اخفاء یا ارتقاء
دنیا میں ہزاروں انسان بستے ہیں۔ ہر انسان دوسرے کی زندگی سے ناواقف ہے۔ یعنی ہر انسان کی زندگی راز ہے جس کو دوسرے نہیں جانتے۔ اس راز کی بدولت ہر انسان اپنی غلطیوں کو چھپاتے ہوئے خود کو بہتر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور مثالی بننا چاہتا ہے۔ اگر اس کی غلطیاں لوگوں کے سامنے ہوتیں تو پھر وہ خود کو بہتر ظاہر کرنے کی کوشش نہ کرتا اور زندگی کا ارتقاء عمل میں نہ آتا۔
علمِ حُصولی
انسانی زندگی کی ساخت میں کچھ ایسے عناصر استعمال ہوئے ہیں جو شعور کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں اور شعور کو مثالی یا اعلیٰ زندگی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ گویا اخفاء ایسی حقیقت ہے جس کو ارتقاء کا نام دے سکتے ہیں۔ انسانی ساخت کی یہی خُصوصیت اسے جانوروں کی ساخت سے ممتاز کرتی ہے۔ لیکن حیوانی زندگی کے عناصر حیوان کے شعور سے مَخفی نہیں۔ ہر ایک حیوان کے اعمال معیّن ہیں جن کو اس کا شعور پوری طرح جانتا ہے۔ اس ہی باعث ایک جانور خود کو دوسرے جانور سے بہتر ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔
انسانی ساخت کا یہ شعوری امتیاز ہی تمام علوم و فنون کا مَخرج ہے۔ انسان کا یہی شعوری امتیاز انسان کو اپنے لاشعور سے جدا کرتا ہے۔ یہیں سے انسان ایسی حد قائم کرتا ہے جو علمِ حُضوری کے اَجزاء سے ایک علم کی داغ بیل ڈال دیتی ہے۔ یہی علم تمام طبَعی علوم کا مجموعہ ہے۔ تصوّف کی اِصطلاح میں اس کو علمِ حُصولی کہتے ہیں۔ اس علم کے خدّوخال زیادہ ترقیاسات اور مفروضات پر مشتمل ہوتے ہیں۔
علمِ لدُنّی
یہ علم علمِ حُضوری اور علمِ حُصولی دونوں کی حدیں قائم کرتا ہے۔اور دونوں کو ایک دوسرے سے متعارف کراتا ہے۔ یہ ان حقائق پر مبنی ہے جو علمِ حُصولی کی گہرائیوں میں تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ اس علم کے خدّوخال آیاتِ الٰہی سے بنتے ہیں۔ آیات الٰہی سے مراد وہ نشانیاں ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے بار بار قرآنِ پاک میں توجہ دلائی ہے۔ دراصل تمام طبَعی قوانین روحانی قوانین کا اتباع کرتے ہیں۔
طبَعی قوانین سے روحانی قوانین کا سُراغ لگانا اور ان کی حقیقت تک پہنچ کر علمِ حُضوری سے رُوشناس ہونا علمِ لدُنّی کا شعار ہے۔ جب یہ علم انبیاء کو حاصل ہوتا ہے توعلمِ نبوت کہلاتا ہے اور جب یہی علم اولیاء اللہ کو حاصل ہوتا ہے تو علمِ لدُنّی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ وحی انبیاء کے لئے مخصوص ہے اور الہام اولیاء کیلئے۔
یہ علم انبیاء یا اولیاء کو کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ اس چیز کو ذیل کی سطور میں اَجمالاً بیان کیا گیا ہے کیونکہ تفصیل کی اس کتاب میں گنجائش نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا تو کسی دوسری کتاب میں اس کی تفصیل بیان کی جا سکے گی۔
کائنات کی ساخت چار بُعد یا چار دائروں پر مشتمل ہے۔ گزشتہ صفحات میں ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن وہاں ان کے اَوصاف صرف ایک زاویہ پر تذکرہ میں آئے ہیں۔ ان دائروں کا دوسرا زاویہ تصوّف کی اِصطلاح میں الگ الگ چار نام رکھتا ہے۔
۱۔ راح
۲۔ روح
۳۔ رُؤیا
۴۔ رؤیت
اس زاویہ کے یہ چار اَوصاف لاشعور سے تعلّق رکھتے ہیں۔ راح منفی لاشعور ہے اور روح مثبت لاشعور۔ اس ہی طرح رُؤیا منفی شعور ہے اور رؤیت مثبت شعور۔
راح یعنی منفی لاشعور میں کوئی تغیّر نہیں ہوتا۔ وہاں لامکان اور مکان یعنی زمانی اور مکانی دونوں فاصلے معدوم ہیں۔ ازل سے ابد تک کی تمام وارِدات ایک ہی نقطہ میں پائی جاتی ہیں۔ جب یہ نقطہ حرکت میں آتا ہے تو اس کا نام بدل جاتا ہے۔ پہلے یہ نقطہ راح کہلاتا تھا لیکن حرکت پیدا ہونے کے بعد یہی نقطہ روح کہلاتا ہے۔ اس نقطہ میں حرکت کی نمود ہی زمانی اور مکانی فاصلے پیدا کرتی ہے۔
پہلے صفحات میں کائناتی نظر کا بیان ہوا ہے۔ یہی کائناتی نظر، راح ہے۔ یہی نظر زمانی اور مکانی فاصلوں میں تقسیم ہونے کے بعد حقیقت وارِدہ یا روح کہلاتی ہے۔
اگر ہم کسی شخص کے سنانے کو سورج کا نام لیں تو آناً فاناً اس کے ذہن سے سورج کا عکس گزرتا چلا جائے گا۔ فی الواقع اس کے ذہن سے گزرنے والا وہ سورج ہے جس سے وہ خارج میں رُوشناس ہے۔ وہ اور کسی سورج کو نہیں جانتا۔ وہ فقط اس ہی سورج سے واقف ہے جو اس کے ذہن میں وارِد ہے۔ یہ حرکت روح کہلاتی ہے گویا روحِ انسانی ذہن سے ایک حقیقت وارِدہ کی صورت میں متعارف ہے۔ اور ساری مَوجودات میں یکساں طور پر جاری و ساری ہے۔ جب کوئی شخص اس حقیقت وارِدہ کو اپنے ذہن میں قائم کرتا ہے تو یہ تصوّر کی شکل اِختیار کر لیتی ہے یعنی روح شعور میں سما جانے کے بعد تصوّر بن جاتی ہے۔ اس ہی حالت کو رُؤیا کہتے ہیں لیکن جب یہ تصوّر
زاویۂ بصر کی سطح پر آ جاتا ہے تو رؤیت کہلاتا ہے۔ اس وقت کسی شخص کی بصارت شئے کو بالمقابل مجسم شکل میں دیکھتی ہے۔ نظر کا کردار اس منزل میں بھی وہی رہتا ہے جو راح، روح اور رُؤیا میں تھا۔ عام اِصطلاح میں پہلے دائرے کو لاشعور، دوسرے کو اِدراک، تیسرے کو تصوّر اور چوتھے کو شئے کہتے ہیں۔
لاشعور، اِدراک اور شعور کا فرق
مذکورہ بالا وضاحت کی روشنی میں کائنات یا فردِ کائنات کی چار سطحیں معیّن ہوتی ہیں۔ پہلی سطح وراءِ لاشعور ہے۔ اِسی کو وراءِ بے رنگ بھی کہا گیا ہے۔ یہ سطح کائنات یا فرد کے اندر بہت گہرائی میں واقع ہے۔ اس سطح کے اَوصاف کی تشخیص بہت کم ممکن ہے، تاہم ہو سکتی ہے۔ جب یہ سطح ایک حرکت کے ساتھ ابھرتی ہے تو نئے اَوصاف کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ اس مجموعہ کا نام لاشعور ہے۔ اس ہی کو بے رنگ کہا گیا ہے۔ اس سطح کے اَوصاف کی تشخیص بھی مشکل ہے۔ تا ہم وراءِ بے رنگ کی تشخیص کے مقابلے میں آسان ہے۔
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ حرکت دوسرے دائرے (لاشعور) میں شروع ہوئی تھی۔ جب یہی حرکت دوسرے دائرے سے ابھر کر تیسرے دائرے میں داخل ہوتی ہے تو فرد کا شعور اس کا احاطہ کر لیتا ہے۔ اس ہی احاطہ کا نام تصوّر ہے۔ پھر یہی تصوّر اپنی سطح سے ابھر کر رؤیت بن جاتا ہے اور فرد کا شعور اس رؤیت کو اپنے بالمقابل دیکھنے لگتا ہے۔ یہی وہ حالت ہے جس کو ہم وُجود کہتے ہیں۔ اور مختلف ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔
ہر شئے کو شعور کی ان چاروں سطحوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب تک کوئی شئے یہ چاروں مرحلے طے نہ کر لے موجود نہیں ہو سکتی۔ گویا کسی شئے کی موجودگی چوتھے مرحلے میں واقع ہوتی ہے اور پہلے تین مرحلوں میں اس شئے کا تانا بانا تیار ہوتا ہے۔
اس طرح شعور کے چار درجے ہوئے ہمارے ذہن کا ایک شعور کسی ایسی وسعت کو بھی جانتا ہے جو کائنات سے ماوراء ہے۔ یہی شعورِ اوّل ہے۔ ہم اس شعور کو وراءِ کائناتی شعور کہہ سکتے ہیں۔
شعور ِدوئم کل کائنات کا مجموعی شعور ہے۔ اس کو کائناتی شعور کا نام دے سکتے ہیں۔
شعورِ سوئم کسی ایک نَوع کا اجتماعی شعور ہے۔ اس کو نوعی شعور کے نام سے تعبیر کر سکتے ہیں۔
شعورِ چہارم کسی نَوع کے فرد کا شعور ہے۔
ہمارا ذہن اور قوّتوں کے علاوہ ایک ایسی قوّت پرواز بھی رکھتا ہے جس کو عام اِصطلاح میں واہمہ کہتے ہیں۔ جب یہ قوّت پرواز کرتی ہے تو ان بلندیوں تک جا پہنچتی ہے جو کائنات کی حدوں سے باہر ہیں لیکن یہاں پہنچ کر اس طرح گم ہو جاتی ہیں کہ ہمارا ذہن اسے واپس نہیں لا سکتا اور نہ یہ سُراغ لگاسکتا ہے کہ پرواز کرنے والی قوّت کہاں گم ہو گئی اور گُمشدگی میں اسے کیا حادثات پیش آئے۔ جس عالم میں یہ قوّت گم ہوتی ہے، تصوّف میں اس عالم کو لاہُوت یا وراءِ بے رنگ کہتے ہیں۔ یہی عالم شعورِ اوّل ہے۔ اس عالم میں اللہ تعالیٰ کی لامُتناہی صفات جمع ہیں۔ یہ صفات ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہیں۔ اس ہی لئے ان کو قائم بالذّات کہتے ہیں۔ ان صفات کی وَحدت کا نام تجلّیِٔ ذات بھی ہے۔ اس ہی عالم کو راح کہا گیا ہے۔
قرآنِ پاک نے ہم کو تین ہستیوں سے متعارف کرایا ہے۔
اوّل: اللہ تعالیٰ کی ذات جو لامُتناہی اور وراءِ راح ہے۔
دوئم: اللہ تعالیٰ کی صفات جو قائم بالذّات ہیں۔ ان ہی کا نام وراءِ کائناتی شعور یا راح ہے۔
سوئم کائنات ہے۔
یہ تین ہستیاں ہوئیں۔ ذات، صفات اور کائنات۔ ذات صفات و کائنات کو محیط ہے۔ ذات خالق، صفات قائم بالذّات اور کائنات مخلوق ہے۔ ہر صفَت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات وابستہ ہے۔ انبیاءِ متقدمین (حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ ) کے نقش قدم پر چلنے والے انبیاء نے ذاتِ باری تعالیٰ کو رحمت کے نام سے جانا ہے۔ یہ رحمت ذات کی لامُتناہی صفات میں ہر صفَت کے ساتھ پیوست ہے۔ انبیاء نے رحمت کو دو ناموں سے متعارف کرایا ہے۔ یہ دونوں نام جمال اور جلال ہیں۔ انہوں نے جمال کا ایک وصف قائم کیا ہے جس کو احتساب کا نام دیا گیا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی لامُتناہی صفات میں ہر صفَت کے ساتھ تین اَوصاف یعنی خالقیّت، ربوبیت اور احتسا ب لازمی طور پر پیوست ہیں۔ انسان کے اندر خالقیّت کی صفَت ہنر بن کر ظُہور میں آتی ہے۔ ربوبیت کی صفَت کا مظہر اخلاق ہے اور احتساب کے وصف کا مظاہرہ علم ہے۔ چنانچہ انسان ان ہی تین اَوصاف کی تمثیل ہے۔
ذات۔ وراءِ غیبُ الغیب، راح۔ غیبُ الغیب اور روح غیب ہے۔ روح کے بعد دو شعور رُؤیا اور رؤیت باقی رہ جاتے ہیں۔ یہ دونوں اگرچہ روح میں پیوست ہیں لیکن حضور کہلاتے ہیں۔ رُؤیا شعورِ سوئم کا حضور ہے اور رؤیت شعورِ چہارم کا۔
وقفہ
وقفہ یا وقت ایسی مکانی حالت کا نام ہے جو طولانی سفر میں گردش کرتی ہے۔ مذکورہ بالا چاروں شعور جب طولانی سمت میں دَور کرتے ہیں تو اس دَور کا نام وقفہ یا وقت یا زمان(Time) ہے لیکن جب یہ چاروں شعور اپنے مرکزی سفر میں دَور کرتے ہیں تو اس دَور کو مکان(Space) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں حالتیں…. ایک طولانی سمت کی گردش، دوسرے محوری سمت کی گردش ایک ہی ساتھ واقع ہوتی ہیں۔ یہ دونوں گردشیں مل کر شعور کے اندر مسلسل حرکت کی تخلیق کرتی رہتی ہیں۔ ہم طولانی حرکت کو اپنے حواس میں سیکنڈ، منٹ، گھنٹے، دن، ماہ و سال اور صدیوں کی شکل میں پہچانتے ہیں اور محوری حرکت کے سلسلے کو زمین، چاند، سورج، اجرام فلکی اور نظامِ شمسی کی صورت میں جانتے ہیں۔ یہ دونوں حالتیں مل کر وقفہ کہلاتی ہیں۔
دراصل ہمارے حواس کے اندر ایک تغیّر ہوتا رہتا ہے۔ یہ تغیّر وراءِ بے رنگ، بے رنگ، یک رنگ اور کل رنگ کا مجموعہ ہے۔ واہمہ سے اس تغیّر کی شروعات ہوتی ہے۔ پھر یہ تغیّر خیال اور تصوّر کی راہیں طے کر کے محسوسات کی صورت اِختیار کر لیتا ہے۔تغیّر پھر اس ہی زینہ سے واپس آتا ہے یعنی اُسے محسوسات سے تصوّر، خیال اور واہمہ تک پلٹنا پڑتا ہے۔ واہمہ، خیال اور تصوّر یہ تینوں حالتیں طولانی حرکت کی ایک ہی سمت میں واقع ہوتی ہیں اور محسوساتی حالت محوری حرکت کی اُس ہی سمت میں واقع ہوتی ہے جس سمت میں طولانی حرکت واقع ہوتی ہے۔ اس طرح محسوسات میں زمانی اور مکانی دونوں تغیّر ایک ہی نقطہ میں واقع ہوتے ہیں۔ اس ہی نقطہ کا نام وقفہ ہے۔ وقفہ کا سلسلہ ازل سے ابد تک جاری و ساری ہے۔ مذکورہ بالا چار شعوروں کی مرکزیّتیں الگ الگ چار زندگیاں رکھتی ہیں۔ محسوسات کی مرکزیّت عالمِ ناسُوت کہلاتی ہے۔ تصوّر کی مرکزیّت نزول میں عالمِ رُؤیا، عالم واقعہ یا عالمِ تَمثال اور صَعود میں عالم ارواح یا عالم برزخ(علیین و سجین) کہلاتی ہے۔ خیال کی مرکزیّت نزول میں مُبداء اور صَعود میں حشر و نشر(جنت و دوزخ) کہلاتی ہے۔
شعور کا پہلا شعبہ جس کا نام ’’راح‘‘ لیا گیا ہے واجبُ الوجود کہلاتا ہے۔ باقی تین شعبے وجودکہلاتے ہیں۔ واجبُ الوجود میں تغیّر نہیں ہوتا لیکن وُجود میں طولانی اور محوری گردش مل کر وقفہ یا وُجود کہلاتی ہے۔ دونوں گردشوں میں پہلی گردش کائنات کے ذرّہ ذرّہ کا باہمی ربط ہے۔ اس گردش میں کائنات کا قیام اور کائناتی شعور کی کیفیات کا قیام واقع ہوا ہے۔ محوری گردش فرد کی گردش ہے۔ اس گردش کے اندر فرد کا قیام اور فرد کی کیفیات کا قیام ہے۔ لیکن فرد کی تمام کیفیات کائنات کی مجموعی کیفیات کا ایک عنصر ہوتی ہے۔ اگر ہم کسی ذرّہ کے اندر سفر کریں تو سب سے پہلے نسمۂِ مرکّب کی مکانیت(Space) ملے گی۔ یہ مکانیت محسوسات کی دنیا ہے۔ اس مکانیت کی حدوں میں فرد کا شعور رؤیت کے حواس میں ڈوبا رہتا ہے۔ گویا رؤیت بذاتِ خود حواس کا مجموعہ ہے۔ رؤیت کی مکانیت کے اندر ایک دوسری مکانیت ہے جس کو رُؤیا کہتے ہیں۔ یہ نسمۂِ مُفرد کی مکانیت فرد کی ذات کا اندرونی جسم ہے یعنی رُؤیا ایک ایسی مکانیت ہے جس کو فرد کا اندرونی جسم کہہ سکتے ہیں۔ رُؤیا کی مکانیت کے اندر بھی ایک اور مکانیت پائی جاتی ہے۔ یہ مکانیت نورِ متغیّر کا جسم ہے اور پھر اس مکانیت کے اندر غیر متغیّر نور بستا ہے۔ غیر متغیّر نور واجبُ الوجود یا صفاتِ الٰہیہ یا تجلّیِٔ ذات یا لامکان ہے۔ اس کی وسعتیں کائنات کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہیں لیکن ذاتِ باری تعالیٰ اس سے ماوراء ہے۔ البتہ جیسا کہ اوپر تذکرہ کیا جا چکا ہے یہ ذاتِ باری تعالیٰ کا وصف ہے اور قائم بالذّات ہے۔
نسمۂِ مرکّب، نسمۂِ مُفرد، نور متغیّر اور نور غیر متغیّر کے حواس الگ الگ ہیں۔ عالمِ ناسُوت میں رؤیت کے حواس غالب اور باقی حواس مغلوب رہتے ہیں۔ جس وقت فرد رُؤیا میں رہتا ہے تو اس کی توجہ رؤیت سے ہٹ کر رُؤیا میں مرکوز ہوتی ہے۔ گویا رُؤیا کے حواس غالب اور باقی شعبوں کے حواس مغلوب رہتے ہیں۔ ازل سے عالمِ ناسُوت کی پیدائش تک رُؤیا کے حواس فرد کے باقی تمام شعوروں پر غالب تھے لیکن عالمِ ناسُوت میں یہ حواس صرف نیند کی حالت میں عَوّد کرتے ہیں۔ اور بیدار ہونے کے بعد رُؤیا کے حواس مغلوب ہو جاتے ہیں۔ موت کے بعد برزخ یا اعراف میں یہ حواس ایک مرتبہ پھر باقی تمام حواس پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ شعبۂِ روح کے حواس عالم واقعہ میں بھی مغلوب تھے۔ عالم رؤیت میں بھی مغلوب ہیں اور عالمِ برزخ میں بھی مغلوب رہیں گے لیکن قیامت کے دن شعبۂ روح کے حواس باقی تمام حواس کو مغلوب کر دیں گے اور پھر مستقلاً یہی حواس غالب رہیں گے۔
رؤیت کے حواس
رؤیت کے حواس کا سب سے اہم کردار یہ ہے کہ وہ فرد کے اندر محدود رہتے ہیں۔ یہ حواس دوسرے افراد کے آثار و اَحوال معلوم نہیں کر سکتے۔ حواس کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں علیین اور سجین دو کرداروں میں بیان فرمایا ہے۔ علیین اعلیٰ کردار ہے اور سجین اسفل۔ حواس میں یہ دونوں کردار ریکارڈ ہوتے رہتے ہیں۔ عالمِ ناسُوت میں ان کرداروں کا ریکارڈ نگاہوں کے سامنے نہیں رہتا بلکہ حواس کے اندر مَخفی رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں ریکارڈوں کو کتابُ المرقوم فرمایا ہے۔ جیسے ہی انسان عالمِ ناسُوت سے منقطع ہوتا ہے، رؤیت کے حواس مغلوب ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی روح کے حواس کا غلبہ ہو جاتا ہے اور رؤیت کے ریکارڈوں میں سے ان تقاضوں کا ریکارڈ مَخفی رہتا ہے جن کا مُلکہ پیدا نہیں کیا گیا تھا۔ قیامت کے دن جب کائنات کا پہلا سفر طے ہو جائے گا تو انسان اور جنّات جو کائنات کا حاصل سفر ہیں اس لئے جمع کئے جائیں گے کہ کائنات کے دوسرے سفر کا آغاز ہو۔ اس دن ان تقاضوں کا ریکارڈ تلف کر دیا جائے گا جن کا مُلکہ پیدا نہیں کیا گیا تھا۔
حواس
ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ شعور کا ایک کردار غیر متغیّر ہے۔ یہ کردار اپنی حدوں میں ایک ہی طرز پر دیکھتا، سوچتا ، سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔ اس کردار میں کسی کائناتی ذرّہ یا فرد کے لئے کوئی امتیاز نہیں پایا جاتا۔ یہ شعور ہر ذرّہ میں ایک ہی زاویہ رکھتا ہے۔ اس ہی لامکانی شعور سے دوسرا شعور تخلیق پاتا ہے۔ ہم نے اس کو کسی جگہ حقیقتِ وارِدہ کا نام دیا ہے۔ اس شعور کی حرکت اگرچہ بہت ٹھوس ہوتی ہے تا ہم اس کا سفر خیال سے کروڑوں گنا زیادہ تیز رفتار ہے۔ لیکن جب یہ شعور ابھر کر تیسرے شعور کی سطح پر وارِد ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت کم ہو جاتی ہے۔ یہ رفتار پھر بھی روشنی کی رفتار سے لاکھوں گُنی ہے۔ یہ شعور بھی ایک نمایاں سطح کی طرف جدوجہد کرتا ہے اور اس نمایاں سطح میں داخل ہونے کے بعد عالمِ ناسُوت کے عناصر میں منتقل ہو جاتا ہے۔ عناصر کا یہ مجموعہ فرد کا چوتھا شعور ہے جو بالکل سطحی کردار رکھتا ہے۔ اس ہی لئے اس کا ٹھہراؤ اور ٹھوس پن بہت ہی کم وقفہ پر مشتمل ہے۔ یہی شعور بأعتبارِ حواس سب سے زیادہ ناقص ہے۔ اس شعور کے حواس اگرچہ ایسے تقاضوں کا مجموعہ ہیں جو زیادہ سے زیادہ جمال کی طرف مِیلان رکھتے ہیں مگر جمال کے مدارج سے کامل طور پر آگاہ نہیں۔ اس ہی واسطے اِن میں پیہم اور مسلسل خلاء پائے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی خلاؤں کو پُر کرنے کے لئے ان حواس میں ایسے تقاضے بھی موجود ہیں جن کو ضمیر کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان ہی خلاؤں کو پُر کرنے کے لئے انبیاء کے ذریعے شریعتیں نافذ کی ہیں۔ نَوعِ انسانی کی تخلیق کے پیش نظر جمال کا مُنتہیٰ صرف ایک ہو سکتا ہے اس ہی کو توحید باری تعالیٰ کہا گیا ہے۔ انبیاءِ کرام پر مُنتہیٰ وحی کے ذریعے مُنکشِف ہوتا ہے۔ انبیاء کو نہ ماننے والے فرقے توحید کو ہمیشہ اپنے قیاس میں تلاش کرتے رہے۔ چنانچہ ان کے قیاس نے غلط رہنمائی کر کے ان کے سامنے غیر توحیدی نظریات رکھے ہیں اور یہ نظریات کہیں کہیں دوسرے فرقوں کے غلط نظریات سے متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ قیاس کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریہ کا چند قدم ضرور ساتھ دیتا ہے مگر پھر ناکام ہو جاتا ہے۔ توحیدی نقطۂِ فکر کے علاوہ نَوعِ انسانی کو ایک ہی طرزِ فکر پر مجتمع کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔ لوگوں نے بزُعمِ خود جتنے طریقے وضع کئے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی مرحلہ میں غلط ثابت ہو کر رہ گئے ہیں۔ توحید کے علاوہ آج تک جتنے نظامہائے حکمت بنائے گئے وہ تمام یا تو اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جا رہے ہیں۔ موجودہ دور میں تقریباً تمام پرانے نظامہائے فکر یا تو فنا ہو چکے ہیں یا ردّ و بدل کے ساتھ اور نئے ناموں کا لباس پہن کر فنا کے راستے پر سرگرم سفر ہیں۔ اگرچہ ان کے ماننے والے ہزار کوششیں کر رہے ہیں کہ تمام نَوعِ انسانی کے لئے روشنی بن سکیں۔ لیکن ان کی ساری کوششیں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔
آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونے پر مجبور ہونگی۔ نتیجہ میں نَوعِ انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطۂِ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ تو بجُز اس نقطہ کے نَوعِ انسانی کسی ایک مرکز پر کبھی جمع نہیں ہو سکے گی۔ موجودہ دور کے مفکر کو چاہئے کہ وہ وحی کی طرزِ فکر کو سمجھے اور نَوعِ انسانی کی غلط رہنمائی سے دست کش ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے جسمانی وظیفے جداگانہ ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام نَوعِ انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہو سکے۔ اب صرف روحانی وظائف باقی رہتے ہیں۔ جن کا مَخرج توحید اور صرف توحید ہے۔ اگر دنیا کے مفکرین جدوجہد کر کے ان وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کر سکے تو وہ اقوامِ عالم کو وظیفۂِ روحانی کے ایک ہی دائرہ میں اکٹھا کر سکتے ہیں اور وہ روحانی دائرہ محض قرآن کی پیش کردہ توحید ہے۔ اس معاملہ میں تعصبات کو بالائے طاق رکھنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ مستقبل کے خوفناک تصادم، چاہے وہ معاشی ہوں یا نظریاتی،
نَوعِ انسانی کو مجبور کر دیں گے کہ وہ بڑی سے بڑی قیمت لگا کر اپنی بقا تلاش کرے اور بقا کے ذرائع قرآنی توحید کے سوا کسی نظامِ حکمت سے نہیں مل سکتے۔
ہم نے یہ تذکرہ شعورِ چہارم کے ضمن میں ضروری سمجھ کر کیا ہے۔ دراصل ہمارا مدعا یہ ہے کہ رؤیت کے حواس وحی کی رہنمائی کے بغیر صحیح قدم نہیں اٹھا سکتے۔ اگر ہم بقیہ تین شعوروں کو اَجمالی طور پر سمجھ لیں تو وحی کی مرکزیّت تک پہنچ سکتے ہیں۔ جب ہم علمِ نبوت کے اَجمال کو معلوم کر لیں گے تو ہماری اپنی فکر علمِ نبوت کے مقابلے میں تمام قیاِسی علوم کو مسترد کرنے پر مجبور ہو گی۔
چار شعور
کسی نہ کسی طرح انسان کو اس نظریہ پر مجتمع ہونا پڑے گا کہ یہ محسوس کائنات ہرگز ہرگز مادّی ذرّات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ صرف شعور کا ہیولیٰ ہے۔ مذکورہ بالا عبارت میں کائنات کو چار شعوروں کا مرکّب بتایا گیا ہے۔
① پہلا شعور نورِ مُفرد سے تعمیر ہوا ہے
② دوسرا شعور نورِ مرکّب سے۔
③ تیسرا شعور نسمۂِ مُفرد کی ترکیب ہے، اور
④ چوتھا شعور نسمۂِ مرکّب کی۔
ان چاروں شعوروں میں فقط چوتھا شعور عوام سے متعارف ہے۔ عوام صرف اس ہی شعور کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔ بقیہ تین شعور عامتہ الناس کے تعارف سے بالاتر ہیں۔ اب تک نفسیات کے ماہرین نے شعورِ چہارم سے ہٹ کر جس چیز کا سُراغ لگایا ہے وہ شعورِ سوئم ہے جس کو یہ حضرات اپنی اِصطلاح میں لاشعور کا نام دیتے ہیں لیکن قرآنِ پاک شعورِ اوّل اور شعورِ دوئم کا تعارف بھی کراتا ہے۔ چنانچہ ان دونوں شعوروں کو بھی ہم لاشعورہی شمار کریں گے۔
اس طرح کائنات کی ساخت میں تین لاشعور پائے جاتے ہیں:
① پہلا لاشعور شعورِ اوّل،
② دوسرا لاشعور شعورِ دوئم،
③ تیسرا لاشعور شعورِ سوئم ہے۔
ان چاروں شعوروں میں اوّل شعور لامکان ہے اور باقی تین شعور مکان ہیں۔ اوّل شعور کو غیر متغیّر ہونے کی وجہ سے ’’لامکان‘‘ کہا گیا ہے۔
پہلے کائنات کے اندر موجود کسی چیز کی محوری گردش کو سمجھنا ہے اور پھر طولانی گردش کو۔
مثال:
ہم اپنی آنکھوں کے سامنے شیشہ کا ایک گلاس رکھ کر غور کریں تو گلاس کی محوری گردش کا تجزیہ حسب ذیل الفاظ میں کر سکتے ہیں۔
جب گلاس پر ہماری نگاہ پڑتی ہے تو نزول اور صَعود کے چھ دائرے طے کر جاتی ہے۔ ہمارے حواس کے اندر پہلے گلاس واہمہ کی صورت میں داخل ہوتا ہے۔ پھر یہ ہی واہمہ گلاس کا خیال بن جاتا ہے۔ بعدہٗ یہی خیال تصوّر کی شکل اِختیار کر کے احساس کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ پھر فوراً ہی احساس تصوّر میں، تصوّر خیال میں اور خیال واہمہ کے اندر منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ سارا عمل تقریباً ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصّہ میں واقع ہوتا ہے اور بار بار دَور کرتا رہتا ہے۔ اس دَور کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ ہم ہر ایک چیز کو اپنی آنکھوں کے سامنے ساکِت محسوس کرتے ہیں۔
واہمہ سے شروع ہو کر خیال، تصوّر، احساس۔۔۔ پھر تصوّر اور خیال تک نزول اور صَعود کے چھ قدم ہوتے ہیں۔ ان ہی چھ مسافتوں کو لطائف سِتّہ کہا جاتا ہے لیکن واہمہ سے احساس تک بُعد صرف چار ہوتے ہیں۔ ان چار بُعد یا چار شعوروں میں ایک شعور ہے اور تین لاشعور ہیں۔ سب سے اوّل ہمیں واہمہ سے رابطہ قائم رکھنا پڑتا ہے، پھر خیال اور تصوّر سے۔ البتہ یہ تینوں حالتیں ہمارے شعور سے بالاتر ہیں۔ فقط چوتھی حالت جس کو رؤیت کہا جاتا ہے، ہم سے متعارف ہے۔
رؤیت کا شعور باقی تین لاشعور کا مجموعہ ہے۔ ہم اوّل وراءِ کائناتی شعور سے جوغیر متغیّر ہے اپنی حیات کی ابتداء کرتے ہیں۔ یعنی:
صفاتِ الٰہیہ میں ایک فوارہ پھوٹتا ہے اور وہ فوارہ تیسرے قدم پر فرد بن جاتا ہے۔
① پہلے قدم پر فوارہ کا ہیولیٰ کائنات کی شکل میں ہوتا ہے،
② دوسرے قدم پر وہ کائنات کی کسی ایک نَوع کا ہیولیٰ بنتا ہے، اور
③ تیسرے قدم پر وہ فرد بن کر رُونما ہو جاتا ہے۔
فرد کی حالت میں لاشمار رنگوں کا ایک فوارہ وُجود میں آتا ہے۔ ان لاشمار رنگوں کی ترتیب کو احساس میں قائم رکھنا تقریباً مُحال ہے۔ اس ہی لئے شعورِ چہارم کے حواس کبھی بہت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں۔ اس ترتیب کو اکثر قیاس کے ذریعے قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہ کوشش قریب قریب ناکام رہتی ہے۔ اس ہی واسطے روحانی علوم میں شعورِ چہارم پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔ شعورِ سوئم میں کائنات کے ہر ذرّہ کا ربط فرد کے ذہن سے منسلک ہوتا ہے۔ کائنات میں جو کچھ تغیّرات ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں وہ فرد کے شعورِ دوئم میں مجتمع ہوتے ہیں۔ شعورِ دوئم کا ہیولیٰ ازل سے ابد تک کی کُل کائناتی فعّالیت کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ اس شعور میں وہ تمام اَجزاء پائے جاتے ہیں جو کُل مَوجودات کی اصل ہیں۔ روحانیت میں سب سے اہم ذریعۂِ اعتماد شعورِ اوّل ہے کیونکہ شعورِ اوّل میں مشئیّتِ الٰہی بے نقاب ہوتی ہے۔ تصوّف کی اِصطلاح میں حقیقتُ الحقائق اس ہی شعور کا نام ہے۔ اس ہی کو حقیقتِ محمدیہ کہتے ہیں۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام سے پیشتر کسی نبی نے اس شعور کے بارے میں تبصرہ نہیں کیا۔ درسِ عیسوی کی ابتدائیں بھی شعورِ دوئم سے ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے اس شعور کی تحقیق حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے کی ہے۔ اس ہی باعث قرآنی متصوّفین اس کو حقیقتِ محمدیہ کے نام سے پکارتے ہیں۔
انبیاءِ مرسلین کی وحی کا مُنتہیٰ شعورِ دوئم اور انبیاء کی وحی کا مُنتہیٰ شعورِ سوئم ہے۔ صرف حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام وہ نبی مرسل ہیں جن کی وحی کا مُنتہیٰ شعورِ اوّل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ’’اگر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہ کرتا تو کائنات کو نہ بناتا۔‘‘ اس ہی وجہ سے
قرآنِ پاک میں شعورِ اوّل کو علمُ القلم کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے ایک دعائے ماثورہ میں فرمایا ہے:
أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اِسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ؛ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَداً مِنْ خَلْقِكَ؛ أَوِ اسْتَأَثَرْتَ بِهٖ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ ۔
ترجمہ: میں تیری جناب میں ہر ایک ایسے اسم کا واسطہ لاتا ہوں جو تیرے اسمِ مقدس ہیں اور اُس کو تُو نے اپنے لئے مقرّر فرمایا ہے یا اُس کو تُو نے اپنی کتاب مجید میں نازل فرمایا ہے یا اپنی مخلوق سے کسی کو اس کا علم دیا یا اپنے علم میں اس کا جاننا اپنے لئے مخصوص فرمایا۔
انبیاء کے مقامات
انبیاء کے بارے میں مراتب کا جو تعیّن کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ فلاں نبی کا مقام وہ آسمان ہے اور فلاں نبی کا مقام وہ آسمان ہے، یہ لاشعور ہی کے متعارف مراتب کا تذکرہ ہے۔ تمام آسمانی حدیں کسی فصل یا کسی سمت کی بنا پر متعیّن نہیں ہیں بلکہ لاشعور کی بنا پر متعیّن ہیں۔ جب ہم اجرام فلکی(ستاروں، سیاروں) کو نگاہ کی زد میں دیکھتے ہیں تو اس وقت ہمارے شعور اور لاشعور کی حدیں متّصل ہوتی ہیں۔
اجرام سماوی کا ایک ہیولیٰ ہمارے شعور(حواس) کو چھو دیتا ہے لیکن ان کرّوں کے تفصیلی اجزا کیا ہیں اور ان کے بیرونی اور اندرونی آثار و اَحوال کیوں کر واقع ہوئے ہیں۔ یہ بات ہمارے شعور سے مَخفی اور لاشعور پر واضح ہوتی ہے۔ جب کسی نبی یا ولی کا لاشعور شعور بن جاتا ہے تو اس کے حواس اس مذکورہ اجرام کے اندرونی اور بیرونی آثار و اَحوال کو پوری طرح دیکھتے، جانتے، سنتے اور چھوتے ہیں۔ ان اجرام کے تمام آثار و اَحوال کسی نبی یا ولی سے کرۂ ارضی کے آثار و اَحوال کی طرح قریب ہوتے ہیں۔ خود کرۂ ارضی کے آثار و اَحوال کی قربت کسی فردِ واحد کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ اس کا شعور توانا اور مرتّب نہ ہو۔ جس طرح شعور کی توانائی اور ترتیب کے مدارج مختلف ہیں اِسی طرح لاشعور کی ترتیب و توانائی یعنی لاشعور کے شعور کی حدوں میں داخل ہونے کی طرزیں بھی مختلف ہیں۔ ایک زیادہ توانا اور زیادہ مرتّب شعور رکھنے والا انسان کرۂ ارضی کے حالات سے زیادہ باخبر ہوتا ہے اور ان پر بہت تبصرہ کر سکتا ہے لیکن ایک ناقص اور نامرتّب شعور رکھنے والا انسان کرۂ ارضی کے معمولی مسائل کو جاننے اور سمجھنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔
درحقیقت کسی فرد کا لاشعور اس کی تمام نَوع کے شعور کا مجموعہ ہوتا ہے۔ تمام نَوع سے مراد ابتدائے آفرینش سے ثانیۂِ حاضر تک کے وُجود میں آنے والے سارے افراد ہیں۔ کسی فرد کے تمام نَوع کے سارے محسوسات کا اجتماع اس کے شعور میں نہیں بلکہ لاشعور میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک فرد اپنی نَوع کے تمام مروّجہ علوم سیکھنے کی صلاحیّت رکھتا ہے یعنی جب وہ نوعی شعور کے کسی جُزو کو جو بذاتہٖ اس کا لاشعور ہے، شعور میں منتقل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ یہ صلاحیّتیں عوام الناس کی ہیں لیکن ایک نبی یا ولی کی صلاحیّتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ جب ایک نبی یا ولی اپنی نَوع کے لاشعور یعنی کائناتی شعور کو بیدار کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی کوششوں میں کم تر یا بیش تر اِسی طرح کامیاب ہو جاتا ہے جس طرح ایک فرد اپنے نوعی شعور سے متعارف ہونے میں کامیاب ہے۔
اندھیرا بھی روشنی ہے
مذکورہ چاروں شعور ہر فرد کی ذات میں موجود ہیں۔ ان کی موجودگی کا علم شعور کہلاتا ہے۔ اور لا علمی لاشعور سمجھی جاتی ہے۔ یعنی ان چاروں شعوروں میں عامتہ الناس صرف چوتھے شعور سے باخبر ہیں۔ اگر ہم اس باخبری کی اصلیت تلاش کریں تو بالآخر روشنی ہی کو وجہ شعور قرار دیں گے۔ یہاں لفظ روشنی سے مراد وہ روشنی نہیں ہے جس کو عوام روشنی کا نام دیتے ہیں بلکہ وہ روشنی مراد ہے جو آنکھ کے لئے دیکھنے کا ذریعہ بنتی ہے خواہ وہ اندھیرا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی جان دار اندھیرے میں دیکھنے کا عادی ہے تو اس کے لئے اندھیرا ہی روشنی کا مریادف سمجھا جائے گا۔ کتنے ہی حشرات الارض اور درندے رات کے وقت اندھیرے میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔
فرض کیجئے کہ ہم کسی چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ اگر وہ روشنی جو اس چیز اور ہمارے درمیان موجود ہے نکال دی جائے تو وہ چیز ہمارے شعور کی حدوں سے نکل جائے گی۔ اس مثال سے ہم فقط ایک ہی نتیجہ پر پہنچتے ہیں۔ یعنی روشنی شعور ہے یا شعور روشنی ہے۔ اگر کسی وجہ سے روشنی کے خدّوخال میں تبدیلی واقع ہو جائے تو شعور کے خدّوخال میں بھی تبدیلی ہو جائے گی۔
عام حالات میں اس چیز کو جانچنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر پانی بھرے ٹب میں ایک پیالہ ڈبو دیا جائے تو اس کی گہرائی، قطر اور وزن میں تغیّر ہو جائے گا۔ یہ تغیّر یا تو شعور کا تغیّر ہے یا روشنی کا۔ دونوں صورتوں میں ہم ایک کلیہ قائم کر سکتے ہیں کہ جو چیز خارج میں روشنی ہے، وہی چیز داخل میں شعور ہے۔ گویا شعور اور روشنی ایک ہی چیز ہے۔ جب وہ انسان کے محسوسات میں واقع ہوئی تو اس کو شعور کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور جب وہ خارج میں آنکھ کے سامنے ہوتی ہے تو اسے روشنی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
قانون:
اگر ہم کسی طرح اپنی داخلی روشنی (شعور) میں تبدیلی پیدا کر لیں تو آنکھ کے سامنے پھیلی ہوئی روشنی میں بھی تبدیلی پیدا ہو جائے گی۔ روشنی کا یہی سلسلہ کائنات کی حد بسیط تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی ایک نقطہ میں روشنی کے خدّوخال تبدیل ہو جائیں اور کائنات کی باقی روشنیوں میں تبدیلی نہ ہو۔ روحانیت کی دنیا میں تصرف کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ البتہ تصرف کی إبتداء خارجی روشنیوں سے نہیں بلکہ داخلی روشنیوں سے کی جاتی ہے۔ جب کوئی تصرف کرنے والا خارجی روشنیوں یعنی خارجی حالات میں تبدیلی کرنا چاہے تو وہ اپنی ذات یعنی داخلی روشنیوں میں (شعور میں) تبدیلی کرتا ہے۔ تصوّف میں اس ہی عمل کو لطیفوں کا رنگین ہونا کہتے ہیں۔ اگر کسی فرد کے لطیفے (ذات کی روشنیاں) رنگین ہو جائیں تو یہ رنگینی کائنات کی تمام روشنیوں میں سرایت کر جائے گی۔ گویا کائنات کی تمام روشنیوں میں وہی تغیّر پیدا ہو جائے گا جو فرد کے لطیفوں میں ہوا ہے۔ نظامِ خانقاہی میں اقطابِ تکوین(مدار حضرات) کے تصرف کا طریقہ یہی ہے۔
روشنی کے زاویے
ہم نَسمہ کے بیان میں نَسمہ کے نمبروں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ ان لاشمار نمبروں میں ہر نمبر روشنی کے ایک زاویے کی حیثیت رکھتا ہے۔ روشنی کا ہر زاویہ اوپر بیان کردہ کشش اور گریز سے بنا ہے۔ ہر فرد کی ذات کشش اور گریز کے زاویہ کی ہستی ہے۔ ہر فرد اس زاویہ پر ایک مفروضہ نقطہ بناتا ہے۔ ہر نقطہ اپنی نَوع کے تمام نقطوں سے منسلک ہے اور اس کے اندر نَوع کے دوسرے نقطوں کے ساتھ صفات کا اشتراک پایا جاتا ہے۔ یہی صفات کا اشتراک اس کو نَوع کے اور نقطوں سے مشابہ دکھاتا ہے۔ اگر ہم ان نقطوں کی قدرے اور تفصیل کریں تو ہر نقطہ کو ایک محلِ وقوع کہیں گے۔ یہ محلِ وقوع دو حیثیتوں میں قائم رہتا اور دَور کرتا ہے۔ اس کا پہلا دَور محوری گردش ہے جو اسے مُقیّد رکھتی ہے۔ اور کسی نَوع کے دوسرے نقطوں میں جذب نہیں ہونے دیتی۔ دوسری گردش طولانی ہے۔ یہ طولانی گردش اس کو کائنات کے دوسرے زاویوں سے منسلک کرتی ہے۔ گویا یہ تمام نقطے(زاویے) روشنی کے تاروں میں بندھے ہوئے ہیں اور ان ہی تاروں پر کائنات کی ترتیب کا قیام ہے۔
محوری گردش کا ایک رخ نقطہ کی انفرادی حیات کا اور دوسرا رخ نقطہ کی نوعی حیات کا ریکارڈ ہے۔ طولانی گردش کی ایک سمت ایک نَوع کے افراد کو دوسری نَوع کے افراد سے مربوط رکھتی ہے اور طولانی گردش کی دوسری سمت اس حقیقت سے متّصل ہے جس کو واجبُ الوجود کہتے ہیں۔ یہ حقیقت اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ پر مشتمل ہے۔
جو روشنیاں محوری گردش کی بنا ہیں، ان کا نام نَسمہ ہے اور جو روشنیاں طولانی گردش کی بنا ہیں، ان کا نام نور ہے۔ کسی ذات میں یہ روشنیاں ذات کی مرکزیّت ہوتی ہیں۔ ان روشنیوں میں ہر ایک کے دو رخ ہیں اور ہر رخ نظامِ کائنات کا شعور ہے۔
مثال:
جب ہم کوئی خوشبو دار مشروب تیار کرتے ہیں تو پانی، شکر، رنگ اور خوشبو ملا کر بوتلوں میں بھر لیتے ہیں۔ اگر بوتل کو وہ روشنی فرض کر لیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے تو پانی کو شعورِ چہارم، رنگ کو شعورِ سوئم، شکر کو شعورِ دوئم اور خوشبو کو شعورِ اوّل تصوّر کر سکتے ہیں۔ جس طرح ہم ظاہری حواس سے پانی، رنگ، شکر اور خوشبو کو محسوس کرتے ہیں، اِسی طرح باطنی حواس سے ان چار شعوروں کا اِدراک اور احساس کر سکتے ہیں۔
شعور کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ مُبداء ہے جس کو داخلی یا باطنی رخ کہنا چاہئے۔ اس ہی رخ کا دوسرا نام فرد ہے۔ جتنی مخلوق فرد کی صورت میں یا ذرّہ کی صورت میں وُجود رکھتی ہیں، وہ سب اس ہی شعور کی حدود میں قائم ہیں۔ شعور کے دونوں رخوں میں صرف ناظر اور منظور کا فرق ہے۔ شعور کی ایک حالت وہ ہے جس کو فرد محسوس کرتا ہے۔ دوسری حالت وہ ہے جو خود احساس ہے۔ ہم اس ہی کو خارجی دنیا کہتے ہیں۔ تا ہم کسی شئے کا خارج میں موجود ہونا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اس شئے کی موجودگی فرد کے داخل میں نہ ہو۔ ان حالات کے پیش نظر یہ ماننا پڑتا ہے کہ فرد کی داخلی دنیا ہی یقین اور حقیقی ہے۔ اور اس ہی دنیا کا پرتَو خارج میں نظر آتا ہے۔ جب ہم احساس کو تقسیم کرتے ہیں تو اس احساس کا ایک جُزو رؤیت یا دیکھنا ہے جو ظاہر میں شکل وصورت اور خدّوخال کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں۔ احساس کی تقسیم کے بعد رؤیت کے علاوہ اور بھی اَجزاء باقی رہتے ہیں جو وہم، خیال اور تصوّر کے نام سے موسوم کئے جاتے ہیں، تصوّف میں ان سب کا مجموعی نام رُؤیا ہے۔ گویا احساس کو رؤیت اور رُؤیا دو اَجزاء میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ چنانچہ یہ کائنات ان ہی دو اَجزاء کا ترکیبی مجموعہ ہے۔
اگر دنیا کی تمام مَوجودات میں ہر چیز کو ایک ذرّہ سمجھ کر اس کی ہستی کے اندر اور اس کی ہستی کے باہر ساخت کا جائزہ لیا جائے تو اصل میں ایک نور ملے گا جس کے اندر زندگی کی تمام قدریں ملیں گی۔ تصوّف کی اِصطلاح میں اس نور کی تحریک کا نام بِداعت ہے۔ بِداعت ایک طرح کے حیاتی دباؤ کا نام ہے جو شعورِ اوّل سے شروع ہو کر شعورِ چہارم تک اثر پذیر ہوتا رہتا ہے۔
تخلیق کا فارمولا
ہم نے پہلے تذکرہ کیا ہے کہ یہ چاروں شعور سطح رکھتے ہیں۔ شعورِ اوّل قرآنِ پاک کی زبان میں اسماءِ الٰہیہ یا صفاتِ الٰہیہ کے نام سے موسوم ہے۔ جب اسماءِ الٰہیہ اظہار کی طرف مِیلان کرتے ہیں تو اَحکامِ وارِدہ بن کر بِداعت کا رنگ قبول کر لیتے ہیں۔ چنانچہ جب بِداعت اوّل شعور سے دوئم شعور میں منتقل ہوتی ہے تو امرِ الٰہیہ کی صورت میں رُونمائی کرتی ہے۔ اور عام اِصطلاح میں روح کہلاتی ہے۔ جب روح بِداعت (حیاتی دباؤ) کے تحت اظہار کی ایک اور شرط پوری کرتی ہے تو رُؤیا کی سطح میں داخل ہو جاتی ہے اور بِداعت کی آخری کوشش کا نتیجہ فرد (شعورِ چہارم) کی حیثیت میں رُونما ہوتا ہے۔ اگر ان تحریکات پر غور کیا جائے تو بِداعت کے نزول کا طریقہ واضح ہو جاتا ہے۔ گویا فرد بِداعت کی محدود ترین شکل ہے۔ اب اگر کوئی فرد بِداعت کے نفوذ کو وسعت دینا چاہے تو یہ کوشش صَعود کہلائے گی اور اس کی حرکت نزول کے خلاف واقع ہو گی۔ یعنی بِداعت شعورِ چہارم، فرد سے ابھر کر شعورِ سوئم یا نَوع کے شعور کی سطح پر پہنچ جائے گی۔ یہاں فرد کا ذہن نوعی شعور کا احاطہ کر لے گا۔ اس مضمون کو اَجمالاً یہ کہیں گے کہ فرد نے اپنے لاشعور کا احاطہ کر لیا۔ اگر پھر بھی فرد کا ذہن صَعود کرنا چاہے تو تمام اَنواع کے شعور یعنی کائناتی سطح پر قدم رکھ سکتا ہے۔ یہاں فرد کے ذہن کی صفات امرِ الٰہیہ کی صفات میں جذب ہوں گی۔ اس کی طرزِ فکر صفاتِ الٰہیہ کے جُزو اور رنگ کا حکم رکھے گی۔
اوّل شعور نور مُفرد اور دوئم شعور نورِ مرکّب ہے۔ یہ نور کی دو قسمیں ہوئیں۔ اِسی طرح سوئم شعور نسمۂِ مُفرد اور چہارم شعور نسمۂِ مرکّب ہے۔ چنانچہ نَسمہ کی بھی دو قسمیں ہوئیں۔ کائنات کی چار مکانیتوں میں پہلی دو مکانیتیں نور کی ساخت ہیں اور بعد کی دو مکانیتیں نَسمہ کی۔ ان میں ہر مکانیت کی دو سطح ہیں۔
۱۔ نورِ مُفرد کی دونوں سطح سے الگ الگ دو شعاعیں نکلتی ہیں۔ اور صفاتی تقاضے کے تحت جس نقطہ پر مجتمع ہو کر مظاہرہ کرتی ہیں، وہ نورِ مُفرد کی تخلیق ہے۔ اس تخلیق کو ملاءِ اعلیٰ کہا جاتا ہے۔
۲۔ نورِ مرکّب کی دو سطحوں سے بھی الگ الگ دو شعاعیں نکلتی ہیں۔ اور صفاتی تقاضے کے تحت جس نقطہ پر مجتمع ہو کر مظاہرہ کرتی ہیں، وہ نورِ مرکّب کی ایک تخلیق ہے۔ اس تخلیق کو ملائکہ کہتے ہیں۔
۲۔ نسمۂِ مُفرد کی دو سطحوں سے بھی الگ الگ دو شعاعیں نکلتی ہیں اور صفاتی تقاضے کے تحت جس نقطہ پر مجتمع ہو کر مظاہرہ کرتی ہیں، وہ نسمۂِ مُفرد کی تخلیق ہے۔ اس تخلیق کا نام جنّات ہے۔
۴۔ نسمۂِ مرکّب کی دو سطحوں سے بھی الگ الگ دو شعاعیں نکلتی ہیں۔ اور صفاتی تقاضے کے تحت جس نقطہ پر مجتمع ہو کر مظاہرہ کرتی ہیں، وہ نسمۂِ مرکّب کی تخلیق ہے۔ اس تخلیق کا نام عنصری مخلوق ہے۔ اس ہی مخلوق کا ایک جُزو ہمارا کرۂ ارضی بھی ہے۔
کائناتی نَسمہ کا مظہر
جو کچھ ہمارے علم و احساس میں ہے اس کا بڑا حصّہ زیادہ تر مجرّد یعنی بے شکل و صورت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ غلط ہے۔ ہر چیز شکل و صورت رکھتی ہے، چاہے وہم و خیال ہی کیوں نہ ہو۔ اِصطلاح میں جس کو عدَم کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ بھی ایک وُجود ہے، ایسا وُجود جو شکل وصورت رکھتا ہے۔
وہم کیا ہے؟
خیال کہاں سے آتا ہے؟ یہ بات غور طلب ہے۔ اگر ہم ان سوالات کو نظر انداز کر دیں تو کثیر حقائق مَخفی رہ جائیں گے اور حقائق کی زنجیر جس کی سو فی صد کڑیاں اس ہی مسئلہ کے سمجھنے پر منحصر ہیں، انجانی رہ جائیں گی۔
جب ذہن میں کوئی خیال آتا ہے تو اس کا کوئی کائناتی سبب ضرور موجود ہوتا ہے۔ خیال کا آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ذہن کے پردوں میں حرکت ہوئی۔ یہ حرکت ذہن کی ذاتی حرکت نہیں ہو سکتی۔ اس کا تعلّق کائنات کے ان تاروں سے ہے جو کائنات کے نظام کو ایک خاص ترتیب میں حرکت دیتے ہیں۔ مثلاً جب ہوا کا کوئی تیز جھونکا آتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ کرۂ ہوائی میں کوئی تغیّر واقع ہوا۔ اس ہی طرح جب انسان کے ذہن میں کوئی چیز وارِد ہوتی ہے تو اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ انسان کے لاشعور میں کوئی حرکت واقع ہوئی ہے۔ اس کا سمجھنا خود ذہنِ انسانی کی تلاش پر ہے۔ ذہنِ انسانی کی دو سطح ہیں۔ ایک سطح وہ ہے جو فرد کی ذہنی حرکت کو کائناتی حرکت سے ملاتی ہے یعنی یہ حرکت فرد کے ارادوں اور محسوسات کو فرد کے ذہن تک لاتی ہے۔ ذہن کی دونوں سطحیں دو قسم کے حواس تخلیق کرتی ہیں۔ اگر ایک سطح کی تخلیق کو مثبت حواس کہیں تو دوسری سطح کی تخلیق کو منفی حواس کہہ سکتے ہیں۔ دراصل مثبت حوا س ایک معنی میں حواس کی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم بیداری کی حالت میں واقع ہوتی ہے۔ اس تقسیم کے حصّے اعضائے جسمانی ہیں۔ چنانچہ ہماری جسمانی فعلیّت میں یہی تقسیم کام کرتی ہے۔ ایک ہی وقت میں آنکھ کسی ایک شعبہ کو دیکھتی ہے اور کان کسی آواز کو سنتا ہے۔ ہاتھ کسی تیسری شئے کے ساتھ مصروف ہوتے ہیں اور پیر کسی چوتھی چیز کی پیمائش کرتے ہیں۔ زبان کسی پانچویں شئے کے ذائقہ میں اور ناک کسی اور چیز کے سونگھنے میں مشغول رہتی ہے۔ اور دماغ میں ان چیزوں سے الگ کتنی ہی اور چیزوں کے خیالات آ رہے ہوتے ہیں۔ یہ مثبت حواس کی کارفرمائی ہے لیکن اس کے برعکس منفی حواس میں جو تحریکات ہوتی ہیں ان کا تعلّق انسان کے ارادے سےنہیں ہوتا۔
مثلاً خواب میں باوجود اس کے کہ مذکورہ بالا تمام حواس کام کرتے ہیں، اعضائے جسمانی کے سُکوت سے اس بات کا سُراغ مل جاتا ہے کہ حواس کا اجتماع ایک ہی نقطۂِ ذہنی میں ہے۔ خواب کی حالت میں اس نقطہ کے اندر جو حرکت واقع ہوتی ہے۔ وہی حرکت بیداری میں جسمانی اعضاء کے اندر تقسیم ہو جاتی ہے۔
تقسیم ہونے سے پیشتر ہم ان حواس کو منفی حواس کا نام دے سکتے ہیں لیکن جسمانی اعضاء میں تقسیم ہونے کے بعد ان کو مثبت کہنا درست ہو گا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ منفی اور مثبت دونوں حواس ایک ہی سطح میں متمکن نہیں رہ سکتے۔ ان کا قیام ذہن کی دونوں سطحوں میں تسلیم کرنا پڑے گا۔ تصوّف کی اِصطلاح میں منفی سطح کا نام نسمۂِ مُفرد اور مثبت سطح کا نام نسمۂِ مرکّب لیا جاتا ہے۔
نسمۂِ مرکّب ایسی حرکت کا نام ہے جو تواتُر کے ساتھ واقع ہوتی ہے یعنی ایک لمحہ، دوسرا لمحہ، پھر تیسرا لمحہ اور اس طرح لمحہ بعد لمحہ حرکت ہوتی رہتی ہے۔ اس حرکت کی مکانیت لمحات ہیں جس میں ایک ایسی ترتیب پائی جاتی ہے جو مکانیت کی تعمیر کرتی ہے۔ ہر لمحہ ایک مکان ہے۔ گویا تمام مکانیت لمحات کی قید میں ہے۔ لمحات کچھ ایسی بندش کرتے ہیں جس کے اندر مکانیت خود کو محبوس پاتی ہے۔ اور لمحات کے دور میں گردش اور کائناتی شعور میں خود کو حاضر رکھنے پر مجبور ہے۔ اصل لمحات اللہ کے علم میں حاضر ہیں اور جس علم کا یہ عنوان ہے، کائنات اس ہی علم کی تفصیل اور مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے ہر چیز کو دو رخوں پر پیدا کیا ہے۔ چنانچہ تخلیق کے یہی دو رخ ہیں۔ تخلیق کا ایک رخ خود لمحات ہیں۔ یعنی لمحات کا باطن یا شعور یک رنگ ہے۔ اور دوسرا رخ لمحات کا ظاہر یا شعور کل رنگ ہے۔ ایک طرف لمحات کی گرفت میں کائنات ہے اور دوسری طرف لمحات کی گرفت میں کائنات کے افراد ہیں۔ لمحات بیک وقت دو سطحوں میں حرکت کرتے ہیں۔ ایک سطح کی حرکت کائنات کی ہر شئے میں الگ الگ واقع ہوتی ہے۔ یہ حرکت اس شعور کی تعمیر کرتی ہے جو شئے کو اس کی منفرد ہستی کے دائرے میں موجود رکھتا ہے۔ دوسری سطح کی حرکت کائنات کی تمام اشیاء میں بیک وقت جاری و ساری ہے۔ یہ حرکت اس شعور کی تعمیر کرتی ہے جو کائنات کی تمام اشیاء کو ایک دائرہ میں حاضر رکھتا ہے۔ لمحات کی ایک سطح میں کائناتی افراد الگ الگ موجود ہیں۔ یعنی افراد کا شعور جدا جدا ہے۔ لمحات کی دوسری سطح میں کائنات کے تمام افراد کا شعور ایک ہی نقطہ پر مرکوز ہے۔ اس طرح لمحات کی دونوں سطحیں دو شعور ہیں۔ ایک سطح انفرادی شعور ہے اور دوسری سطح اجتماعی شعور ہے۔ عام اِصطلاح میں مرکزی شعور ہی کو لاشعور کہا جاتا ہے۔
اگر ہم کائنات کو ایک فرد مان لیں اور کائنات کے اندر موجود اشیاء کو اس کے اَجزاء فرض کر لیں تو کائناتی شعور کو مرکزی شعور کہیں گے۔ پھر اس ہی مرکزی شعور کی تقسیم کا نام منفرد شعور رکھیں گے۔ دراصل ایک ہی شعور ہے جو کائنات کی ہر شئے میں الگ الگ دَور کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر کسی فرد کے شعور میں اس کے اپنے مخصوص ماحول کی اشیاء ہوتی ہیں۔ گویا لمحات کی ایک سطح اس خاص وقت میں فرد کے شعور کی تعمیر کرتی ہے، ساتھ ہی لمحات کی دوسری سطح میں کائنات کے ذرّہ ذرّہ کی تحریکات دور کرتی ہیں۔ یہ کیفیت مرکزی شعور کی ہے۔ اب ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ فرد کو ماحول کی معلومات لمحات کی اوپری سطح سے ہوتی ہے۔ اور کائنات کی مکمل معلومات لمحات کی نچلی سطح سے مل سکتی ہیں۔ لمحات کی نچلی سطح فرد کا مرکزی شعور ہے۔ اس ہی میں ازل سے ابد تک کا پورا ریکارڈ موجود ہے۔ اور لمحات کی ایک سطح فرد کا وقتی شعور ہے۔ اور لمحات کی دوسری سطح فرد کا دوامی شعور ہے۔ فرد کے دوامی شعور(لاشعور) میں ازل سے ابد تک کی تمام تحریکات ایک لمحہ کے اندر مقیم ہیں۔ اس کو ہم جاودانی لمحہ کہیں گے۔ یہی لمحہ فرد کے شعور کی گہرائی ہے۔ اس ہی لمحہ کے لئے حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ ارشاد فرمایا ہے۔
ترجمہ: وقت میں میرا اور اللہ کا ساتھ ہے۔
یہی لمحہ حقیقی ہے۔ زمان مسلسل اس ہی لمحہ کا ایک شعبہ ہے۔ یہی لمحہ علمِ الٰہیہ ہے۔ اس ہی لمحہ کو علمِ حُضوری کہا جاتا ہے۔ اس ہی لمحہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی وہ صفات مجتمع ہیں جن کو قرآنِ پاک میں شیؤن کہا گیا ہے۔ ہمارا منشاء یہاں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات سے ہرگز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات تو لامُتناہی ہیں۔ یہاں محض ان صفات کا تذکرہ ہے جو کائنات سے متعارف ہیں۔ یہ لمحہ جس کو ہم نے علمِ الٰہیہ کہا ہے، اس ہی لمحہ کے اندر ارادۂ الٰہیہ جاری ہے اور ارادۂ الٰہیہ کے اَجزاء ہی زمانِ مسلسل ہیں۔
لازمان اور زمان کی تعبیر کئی طرح ہو سکتی ہے۔ إبتداء ہی سے انبیاء نے اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا تعارف کرایا ہے۔ انبیاء نے اپنی تعلیم میں ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ذات مطلق کو سمجھنے کی کوشش ضروری ہے۔ بغیر ذات مطلق کے سمجھے اس کے امر کا سمجھنا ممکن نہیں۔ یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ امر خود امر ہی کو سمجھنے کا مُکلَّف ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب إثبات میں دینا پڑے گا۔ اگر امر کسی بات کا مُکلَّف ہے تو وہ بات بجُز اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ امر اپنی حقیقت کی تلاش صاحبِ امر کے تعارف سے حاصل کرے۔ پھر یہ امکان نکلتا ہے کہ امر اپنے بارے میں فہم پیدا کر سکے۔ اور اپنی کُنہ کو جان لے۔ ذاتِ مطلق کا تعارف حاصل کئے بغیر امر اپنی ذات کو نہیں پہچان سکتا۔ جب موسیٰ علیہ السّلام نے کوہ طُور پر روشنی دیکھ کر سوال کیا’’کون؟‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے جواباً ارشاد فرمایا تھا۔’’میں ہوں تیرا رب۔‘‘ اس ہی واقعہ سے ذاتِ مطلق اورذاتِ امر کی حدود کا سُراغ ملتا ہے۔موسیٰ علیہ السّلام ذاتِ امر ہیں اور اللہ تعالیٰ ذاتِ مطلق۔نیز اللہ تعالیٰ کی صفَت رَبّانیّت اور موسیٰ علیہ السّلام کی مربوبیت کا پتہ چلتا ہے۔ ایک طرف ذاتِ مطلق اور اس کی صفات، دوسری طرف ذاتِ امر اور اس کی احتیاج۔ یہی وہ چار باتیں ہیں جن پر علومِ نبوت کا دارومدار ہے۔ بعض لوگوں نے اپنے پیرایۂ بیان میں ذات مطلق کو حقیقتِ مُطلِقہ کہا ہے اور امرِ مطلق کو کائنات کہا ہے۔ یہ پیرایۂ بیان حکماءِ ربانی کا ہے۔ انبیاءِ ربانی اور حکمائے ربانی میں یہ فرق ہے کہ انبیاء باطن سے ظاہر کو تلاش کرتے ہیں اور حکماء ظاہر سے باطن کو تلاش کرتے ہیں۔ کسی حد تک حکماء کی طرز تلاش غلط نہیں ہے۔ لیکن اس طرز میں ایک نقص ہے کہ وہ جن چیزوں کی علامتیں خارج میں نہیں دیکھتے ان کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس رویہ سے کائنات کی ساخت میں جتنے حقائق مَخفی ہیں وہ زیادہ تر انجانے رہ جاتے ہیں۔ انبیاء کے رویہ میں یہ نقص نہیں ہے۔ وہ ذاتِ مطلق کے ذریعہ امرِ مطلق کو تلاش کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی فکر ایسے اَجزاء کو پالیتی ہے جو مظاہر کے پابند نہیں ہیں۔ انبیاء مظاہر کو نظر انداز نہیں کرتے تاہم وہ مظاہر کو اصل قرار دے کر صرف مظاہر کی روشنی میں گم نہیں ہو جاتے۔ وہ مظاہر کو بھی اتنی ہی اہمیّت دیتے ہیں جتنی مظاہر کی اصلوں کو۔ انبیاء کی زبان میں مظاہر کی اصلوں کا نام صفاتِ الٰہیہ ہے۔ وہ اس رویہ سے یعنی صفات کے ذریعہ ذات مطلق تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ ان پر ذات مطلق کی مصلحتیں مُنکشِف ہو جاتی ہیں۔ پھر یہ ان کے لئے ناممکن ہے کہ ان مصلحتوں کو نظر انداز کر دیں یا مقصد حیات نہ بنائیں۔ انبیاء کی فکر میں ذات مطلق ہی حیات ہے۔ اس لئے وہ حیات کو ابدی قرار دینے پر مجبور ہیں۔ چنانچہ ان کے زاویۂ نظر میں یہیں سے کائنات ثانوی درجہ میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس کے برخلاف مظاہر کو اوّلیت دینے والے حیات کی کامل گہرائیوں اور پہنائیوں تک نہیں پہنچ سکتے۔
انبیاء نے یہ بات تحقیق کی ہے کہ فکرِ انسانی میں ایسی روشنی موجود ہے جو کسی ظاہر کے باطن کا، کسی حضور کے غیب کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ اور غیب کا مشاہدہ حضور کے اَجزاء کی تحلیل میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر اگر ہم کسی چیز کے باطن کو دیکھ سکیں توپھر اس کے ظاہر کا پوشیدہ رہنا ممکن نہیں ہے۔ اس طرح ظاہر کی وسعتیں ذہنِ انسانی پر مُنکشِف ہو جاتی ہیں اور یہ جاننے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں کہ حیات کی إبتداء کہاں سے ہوتی ہے اور انتہا کہاں تک ہے۔ انبیاء موت کے بعد کی زندگی پر اس ہی لئے زور دیتے ہیں۔
ماضی اور مستقبل
پچھلے صفحات میں ہم نے منقسم حواس اور غیر منقسم حواس کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ یہ منقسم حواس (امر ِمطلق) ہی ہیں جو خود کو ازل سے ابد تک کا روپ دے کر کائنات کی شکل وصورت میں پیش کرتے ہیں۔ شکل وصورت سے روح کا پاجانا ممکن نہیں۔ لیکن روح سے شکل وصورت کی کُنہ تک پہنچ جانا یقینی ہے۔ اس مقام سے مظاہر کو اوّلیت دینے والوں کی یہ غلطی واضح ہو جاتی ہے کہ مظہرہی ’’وسعتِ حیات‘‘ ہیں۔ مظہر کو وسعتِ حیات سمجھنے والوں کا مطلب بجُز اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ وہ ماضی اور مستقبل دونوں کا انکار کر رہے ہیں۔ گویا انہوں نے زمان کی اضافیت کو قطعی نظرانداز کر دیا حالانکہ زمان کی اضافیت ہی امر مطلق اور کائنات ہے۔ دراصل ماضی ہی کائنات ہے۔ باقی رہے حال اور مستقبل۔ یہ دونوں بجائے خود کوئی وُجود نہیں رکھتے مگر یہ ماضی ہی کے اَجزاء ہیں۔ ہر لمحہ مستقبل سے ماضی کی طرف سفر کر رہا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کا ارشاد
جَفَّ القَلَمُ بِما هُوَ کائِنٌ
جو کچھ ہونے والا ہے اس کو لکھ کر قلم خشک ہو گیا۔
اس ہی مطلب کی وضاحت کرتا ہے۔ اس حدیث سے ماضی کے علاوہ زمانے کا کوئی اور اسلوب معلوم نہیں ہوتا۔ حال اور مستقبل دونوں ماضی ہی کے اَجزاء ہیں۔
یہاں سے کائنات کی ساخت کا بالمشافہ سُراغ ملتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
ترجمہ: خدا کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ‘ہوجا’ اور وہ ہو جاتی ہے۔
اس آیت میں ارادہ کی ماہیت اور اَجزاء کا بیان ہے۔ معلوم نہیں پہلے لوگوں نے ماہیت کو کس معنی میں استعمال کیا لیکن ہم اس لفظ میں نور کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا ارادہ لامُتناہی نور ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے امر کی وضاحت کی ہے۔ یہ ارشاد کہ میں جس چیز کو حکم دیتا ہوں ہونے کا، وہ ہو جاتی ہے۔ اس بات کی تشریح ہے کہ امر الٰہی کے تین حصّے ہیں:
نمبر۱۔ ارادہ
نمبر۲۔ جو کچھ ارادہ میں ہے یعنی شئے
نمبر۳۔ پھر اس کا ظُہور
اللہ تعالیٰ کے الفاظ سے یہ چیز پایۂ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں پہلے سے ان کے علم میں موجود ہے۔ چنانچہ جو کچھ موجود ہے وہ ماضی ہے۔ جب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ماضی کی مقدار کیا ہے؟ ہمارے پاس ماضی کی مقدار کو سمجھنے کی بہت سی طرزیں ہیں مثلاً موجودہ دور کے سائنس داں روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاِسی ہزار دو سو بیاِسی میل فی سیکنڈ بتاتے ہیں۔ اس طرح روشنی کی دنیا میں ایک سیکنڈ کا طول ایک لاکھ چھیاِسی ہزار دو سو بیاِسی میل ہوا۔
کائنات کے ایک لاکھ چھیاِسی ہزار میل جس مکانیت پر مشتمل ہیں بیک وقت اس مکانیت کے اندر کتنے اعمال اور افعال یعنی حوادث رُونما ہوئے اس کا اندازہ مُحال ہے۔ یوں سمجھنا چاہئے کہ ایک سیکنڈ کے اندر تمام کائنات میں جتنے افعال سرزد ہو سکتے ہیں۔ وہ محض ایک ہی سیکنڈ میں واقع ہونے والے حوادث ہیں۔ اگر کسی طرح ان افعال کا شمار ممکن ہو تو معلوم ہو سکتا ہے کہ ایک سیکنڈ کی وسعتیں کتنی ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ایک سیکنڈ کے کائناتی حوادث تحریر میں لانے کے لئے یقیناً نَوعِ انسانی کو ازل سے ابد تک کی مدت چاہئے۔ اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ ایک سیکنڈ ازل سے ابد تک کی مدت کے برابر ہے تو اس دعویٰ میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ جب ازل سے ابد تک ایک ہی سیکنڈ(لمحہ) کارفرما ہے تو زمانِ متواتِر کا مفہوم کچھ نہیں رہتا۔ دراصل اللہ تعالیٰ کے شیؤن ہی زمان کی حقیقت ہیں۔
کائنات میں تین زمانے متعارف ہیں۔ زمانِ حقیقی، زمانِ متواتِر اور زمانِ غیر متواتِر۔
زمانِ متواتِر وہ زمانہ ہے جس کا تجربہ ہمیں منقسم حواس میں ہوتا ہے۔ کائنات کی خارجی سطح پر تمام افعال و حوادث کی زمانِ متواتِر ہی کے پیمانے سے ناپا جاتا ہے۔ کائنات جو قدم اٹھاتی ہے وہ ایک لمحہ کا پابند ہے۔ علیٰ ہذا دوسرا قدم دوسرے لمحہ کا پابند ہے۔ چنانچہ کائنات کا سفر جب ایک نقطہ کے بعد دوسرے نقطہ اور تیسرے نقطہ میں واقع ہوتا ہے تو بلا تغیّر کے نہیں ہوتا۔ گویا ایک لمحہ ایک تغیّر ہے اور دوسرا لمحہ دوسرا تغیّر۔ بالفاظ دیگر لمحہ کائناتی تغیّر کا نام ہے۔ چنانچہ لمحات کا الگ الگ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہر لمحہ کے وارِدات و حوادث جدا جدا ہیں۔ ساتھ ہی زمان کی جداگانہ وَحدتیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کے درمیان فصل ہے اور یہ فصل متضاد وَحدتیں ہیں۔ اور یہ متضاد وَحدتیں اپنی ہستی میں جداگانہ صفات رکھتی ہیں۔ اِصطلاحاً ان ہی کا نام زمانِ غیر متواتِر ہے۔ اگر زمانِ متواتِر معلوم وارِدات ہیں تو زمانِ غیر متواتِر نامعلوم وارِدات ہیں۔ اگر انسان متواتِر کی وَحدتیں ایسی وارِدات کا مجموعہ ہیں جن سے شعور واقف ہے تو زمان
غیر متواتِر کی وَحدتیں ایسی وارِدات ہیں جن سے شعور ناواقف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کے اندر دونوں زمانوں کا تذکرہ حسب ذیل الفاظ میں کیا ہے۔ ارشاد ہے:
میں نے آدم کے پُتلے میں اپنی روح پھونکی اور اسے علمِ اشیاء عطا کیا۔
یہ دو ایجنسیاں ہوئیں روحِ الٰہی اور علمِ اشیاء۔
علمِ اشیاء کے بالمقابل عالمِ فطرت (زمانِ متواتِر) ہے جس کو قرآنِ پاک میں عالمِ شہادت کہا گیا ہے اور روحِ الٰہی کے بالمقابل روحانی دنیا (زمانِ غیر متواتِر) جس کو قرآنِ پاک میں عالمِ غیب کا نام دیا گیا ہے۔
دو ایجنسیوں کی تفصیلات جاننے کے لئے کسی حد تک نور اور نَسمہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ انسانی ہستی ان ہی دونوں سے مرکّب ہے۔ یہی دونوں انسانی ذہن کے غیر شعوری اور شعوری پیمانے ہیں۔
انسانی ذہن کی تین سطحیں ہیں۔ پہلی سطح کے دو رخ ہیں۔ وراءِ وہم اور وہم۔ اس ہی طرح دوسری سطح کے بھی دو رخ ہیں۔ احساس اور مشاہدہ۔ ذہن کی ایک سطح یعنی وراءِ وہم (روح) کے بالمقابل عالمِ غیب واقع ہے۔ اس عالم کا اِنشراح روح میں ہوتا ہے۔ شعور اس عالم سے ناواقف ہے۔ یہ عالم ماوراءِ کائنات اور باطن کائنات پر مشتمل ہے۔ یہ عالم زمانِ حقیقی (Timeless-ness) اور زمانِ غیر متواتِر (Non-serial Time) کا مجموعہ ہے۔ زمانِ حقیقی علمِ الٰہی ہے جس کو اِصطلاح میں غیبُ الغیب کہتے ہیں۔ زمانِ غیر متواتِر فرشتوں کی دنیا ہے جس کو اِصطلاح میں غیب کہتے ہیں۔ چنانچہ عالم غیب کی یہ دونوں ایجنسیاں غیبُ الغیب اور غیب، روح کے بالمقابل واقع ہیں۔ غیبُ الغیب نور مُفرد میں اور غیب نورِ مرکّب میں۔ باقی ذہنِ انسانی کے پانچ رخ۔۔۔وہم، خیال، تصوّر، احساس اور مشاہدہ ان ہی کا مجموعہ ہیں اور ان ہی کے بالمقابل عالمِ فطرت واقع ہے۔ اب کائناتی زندگی کی تشریح یہ ہوئی کہ پہلے عالمِ غیب کا لمحہ آتا ہے اور پھر عالمِ فطرت کا۔ عالمِ غیب کے لمحے سے ہمارا شعور ناواقف رہتا ہے لیکن روح آگاہ رہتی ہے۔
غیبُ الغیب لاتناہیت یعنی زمانِ حقیقی ہے۔ اس لاتناہیت کے مقابل ہر مُتناہیت کی ماہیت ہے جس کا دوسرا نام علم ہے۔ بالفاظ دیگر علم وہ ہستی ہے جو لاتناہیت کے اندر تجسّس کرتی ہے۔ اور لاتناہیت کی افہام و تفہیم میں لگی رہتی ہے۔ علم کی ہستی لاتناہیت کی ان روشنیوں کو معلوم کرنا چاہتی ہے جو ہنوز اس کے سامنے نہیں آئیں۔ علم کی ہستی لاتناہیت کی روشنی تلاش کرتی رہتی ہے اور جن روشنیوں کو پا لیتی ہے ان کو اپنی ہستی کے اند رجذب کر لیتی ہے۔ وہ جس روشنی کو جذب کرتی ہے، اس روشنی کی ہستی علم کی ہستی میں مستقل نقش بن جاتی ہے۔ اس نقش کا نام نَوع ہے۔ یہ زمانِ غیر متواتِر ہے۔ علم کی ہستی میں نَوع کا نقش یہ معنی رکھتا ہے کہ نَوع کو اپنی ہستی کا علم حاصل ہے چنانچہ نَوع اپنی ہستی کے علم کو برقرار رکھنے کے لئے خود کو دہراتی ہے جس سے نَوع کے افراد کی تخلیق ہوتی رہتی ہے۔ یہ زمانِ متواتِر ہے۔ واضح رہے کہ نَوع کا خود کو دہرانا مرتبۂِ لاتناہیت کے بالمقابل تناہیت کے درجے میں رُونما ہوتا ہے۔ مرتبۂِ لاتناہیت غیبُ الغیب اور مرتبہ تناہیت غیب ہے۔ علم کا درجۂِ تناہیت نَوع ہے لیکن نَوع کا درجۂِ تناہیت فرد ہے۔ فرد کا ظُہور عالم شہادت ہے۔ اِصطلاح میں فرد کے ظُہور کو زمانِ متواتِر کہتے ہیں۔
ہم نے بیان کیا ہے کہ علمِ غیب کے دو مراتب ہیں۔۔۔غیبُ الغیب اور غیب۔ مرتبۂِ غیبُ الغیب نورِ مُفرد کا لمحہ ہے۔ ہم نے اس ہی لمحہ کو زمانِ حقیقی کہا ہے۔ یہ لمحہ غیر متغیّر لمحہ ہے۔ اس کی وسعت ازل سے ابد تک ہے۔ علم کی ہستی اس ہی لمحہ کے اَوصاف معلوم کرنے میں لگی رہتی ہے یعنی علم اس لمحہ کی لاتناہیت سے تناہیت کی طرف سفر کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ علم کا یہ عبوری لمحہ جو لاتناہیت سے تناہیت کی سمت سفر میں گزرتا ہے نورِ مرکّب کا لمحہ ہے۔ اس لمحہ کی مدت انسانی شعور کے دائرے سے باہر ہے کیونکہ انسانی شعور کا آغاز تناہیت میں ہوتا ہے۔ تناہیت کا لمحہ ہماری دنیا کا وقت ہے جس کا تذکرہ زمانِ متواتِر کے نام سے کیا گیا ہے۔ یہ لمحہ نسمۂِ مُفرد سے شروع ہو کر نسمۂِ مرکّب پر ختم ہو جاتا ہے۔ انسانی شعور مُدرِکات کی حدود(وہم، خیال، تصوّر) میں نسمۂِ مُفرد سے رُوشناس ہوتا ہے۔ اور محسوسات و مشاہدات کی حدود میں نسمۂِ مرکّب سے متعارف ہوتا ہے۔ شعور کے تغیّرات سے واقف ہونے کا عمل ہی شعور کی ہستی ہے۔ چنانچہ شعور کی ہستی اس ہی لمحہ کے اندر تعمیر ہوتی ہے۔ قرآنِ پاک کی زبان میں نَسمہ کے لمحے کا نام آفاق اور نور کے لمحے کا نام انفس ہے۔ نور کا لمحہ انسانی روح کے بالمقابل اور نَسمہ کالمحہ انسانی ذہن کے بالمقابل واقع ہے۔
مثال:
زید ایک فرد ہے۔ اگر سوال کیا جائے کہ زید کون ہے تو کہا جائے گا کہ زید فلاں کا بیٹا ہے۔ فلاں کا بھائی ہے، زید عالِم ہے، زید کی عمر پچیس سال ہے، زید خوش اخلاق ہے، زید عقل مند ہے، زید نوجوان ہے، زید وجیہ ہے، زید بردبار ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ زید ان صفات کا مجموعہ ہے اور زید کے اندر یہ تمام اَوصاف ہیں ۔گویا زید کی ہستی رگ، پٹھوں، ہڈیوں اور گوشت کا نام نہیں ہے بلکہ زید اعمال کا مجموعہ ہے۔ اگر زید کی حیات کو تصویری فلم کی شکل میں ترتیب دیا جائے تو اس فلم کا نام وراءِ شعور یعنی لاشعور یا ایسے نورِ مرکّب کی ہستی ہو گا جو زمانِ غیر متواتِر پر مشتمل ہے۔ یہاں زید کی ہستی میں زمانِ غیر متواتِر کو سمجھنا ضروری ہے۔
مثال:
زید کو سورج کا خیال آیا۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ زید کے ذہن نے غیر شعوری طور پر سورج کے نظام کو احاطہ کر لیا گویا زید کی داخلی ہستی (روح) کے بالمقابل سورج کا مکمل نظام ایک تصویری فلم کی شکل میں موجود ہو گیا۔ اس تصویری فلم میں سورج کے نظام کی تفصیلات زمانِ غیر متواتِر کا ایک لمحہ ہے۔
لمحہ کی تفصیلات یعنی آثار و احوال، کیفیات و حوادث لپیٹ دیئے جائیں تو یہ زید کی زندگی کا ایک لمحہ بنا۔ یہ لمحہ زمانِ متواتِر کا لمحہ ہے۔ اس لمحہ کی بھی دو سطح ہیں۔۔۔ایک سطح حواس کے بالمقابل واقع ہے جس کو عالمِ فطرت کہتے ہیں۔ ایسے بے شمار لمحات کا مجموعی نام زید ہے۔ یہ وہی زید ہے جس کو حواس دیکھتے ، چھوتے اور جانتے ہیں۔ گویا زید بے شمار لمحات یعنی عالمِ فطرت کی لپٹی ہوئی سربستہ فلم ہے۔ اس ہی سربستہ فلم کا نام ٹھوس اور محسوس زید ہے۔ بالفاظ دیگر زید زمانِ متواتِر کی یونٹ(Unit) کا ایک عنوان ہے۔ اس عنوان کی تفصیل زمانِ غیر متواتِر کی وہ یونٹ ہے جس کو زید کی ماہیت کہنا چاہئے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ زمانِ غیر متواتِر کی یونٹ(Unit) زید کی ماہیت ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ ماہیت جس چیز کا نام ہے وہ نور کا بسط ہے یا ایسا پھیلا ہوا نور ہے جو کسی یونٹ کے اجزا کی تصویری فلم ہے۔ اس تصویری فلم میں کسی یونٹ (Unit) کا ہر ایک وہم، ہر ایک خیال، ہر ایک تصوّر اور ہر ایک احساس ریکارڈ ہے۔
ہم اوپر کہی ہوئی بات کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ زمانِ متواتِر کا لمحہ عنوان یا جسم ہے اور زمانِ غیر متواتِر کا لمحہ اس کی تفصیلی فلم ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ زمانِ غیر متواتِر کا لمحہ ہر وقت ہمارے سامنے رہتا ہے لیکن ہمارا ذہن اس طرف نہیں جاتا۔ اس ہی لئے وہ غیب ہے۔
مثال:
جب ہم کسی شئے کو دیکھتے ہیں تو زمانِ غیر متواتِر کا لمحہ درمیانی فاصلہ کو ہماری لاعلمی میں اس طرح ناپ لیتا ہے کہ نہ توشے کی روشنی ہمارے ذہن سے ہَوا بھر الگ رہتی ہے اور نہ ہَوا بھر ہمارے ذہن کی سطح میں داخل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم شئے کو دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہمارا ذہن شئے سے ہَوا بھر الگ رہے یا ہَوا بھر شئے کے اندر داخل ہو جائے تو شئے غائب ہو جائے گی اور ہم اسے ہرگز نہیں دیکھ سکیں گے۔
متواتِر شعور میں تواتُر ہوتا ہے۔ مثلا:
آج کے بعد پرسوں کا دن اس وقت تک نہیں آتا جب تک کل کا دن نہ گزر جائے۔ اِسی طرح ربیع الاوّل کے بعد ذیقعد کا مہینہ اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک درمیانی مہینے نہ گزر جائیں۔ اس کے برعکس زمانِ غیر متواتِر ترتیب کا پابند نہیں ہے۔ جس کی ایک مثال رُؤیا(خواب) ہے۔ خواب دیکھنے والا دس سال بعد کے واقعات اچانک دیکھنے لگتا ہے حالانکہ ابھی درمیانی وقفہ نہیں گزرا۔ گویا زمانِ متواتِر میں ہر دَور کے حوادث نظر آ سکتے ہیں۔ ماضی، حال، مستقبل کی کوئی شرط نہیں ہے۔ زمانِ غیر متواتِر میں کائناتی حوادث کو ناپنے کے ایسے تمام پیمانے موجود ہیں جن سے ماضی، حال اور مستقبل کو بغیر کسی ترتیب کے ناپا جا سکتا ہے۔ رُؤیا میں یا خیال میں ہم ایسے زمانے کو واپس لا سکتے ہیں جو ہزاروں سال پہلے گزر چکا ہے۔ خیال یا رُؤیا کے اندر اس کو واپس لانے میں درمیانی وقفہ نظر انداز ہو جاتا ہے۔ زمانِ غیر متواتِر کی ایک سطح تو یہ ہے جس کا ہم نے مذکورہ بالا سطروں میں تذکرہ کیا ہے۔ اور زمانِ غیر متواتِر کی دوسری سطح ہمہ وقت ہمارے ذہن کے ساتھ وابستہ رہتی اور کام کرتی ہے جس کی ایک مثال اوپر گزر چکی ہے اور بے شمار مثالیں ہر وقت ہمارے تجربہ میں آتی رہتی ہیں۔ مثلاً ہم جب کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جس کو ہم نے آج سے پچیس سال پیشتر دیکھا تھا تو ہمیں گزشتہ پچیس سال کے مسلسل واقعات یاد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ ہم اچانک اس شخص کے چہرے کو واپس اپنے ذہن میں لے آتے ہیں۔ دراصل وہ زمانِ غیر متواتِر کے دائرے میں محفوظ رہتا ہے۔ ہمارا ذہن اس کی شخصیت واپس لانے کے لئے تمام درمیانی وقفوں کو حذف کر جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر یا تو ہمارا ذہن زمانِ غیر متواتِر کے اس دائرے میں داخل ہو جاتا ہے جس کے اندر مذکورہ انسانی شخصیت محفوظ ہے یا پھر زمانِ غیر متواتِر کا دائرہ ہمارے ذہن میں داخل ہو جاتا ہے۔ دوسری سطح کی اور بھی مثالیں ہو سکتی ہیں۔ ہم جب زینے سے اترتے ہیں تو زینے کی سیڑھیوں کا ناپ جو پہلے سے زمانِ غیر متواتِر میں ریکارڈ ہے، ہمارے قدموں کی صحیح صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ اس ہی لئے ہمیں زینہ اترنے میں شعوری طور پر سوچنا نہیں پڑتا۔ کبھی کبھی قدم ڈگمگا جاتا ہے اور ہم گر پڑتے ہیں۔ اس موقع پر کسی وجہ سے ہمارا ذہن زمانِ غیر متواتِر کے دائرے سے ہٹ جاتا ہے اور رہنمائی زمانِ متواتِر کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے جس کے سبب قدم غلطی کر جاتے ہیں کیونکہ زینہ کا ناپ زمانِ متواتِر کے اندر ریکارڈ نہیں ہوتا۔ قرآنِ پاک میں زمانِ غیر متواتِر کو علمُ الاسماء سے تعبیر کیا گیا ہے۔ علمُ الاسماء وہ شعور ہے جس کا نام ہم نے اپنی اِصطلاح میں زمانِ غیر متواتِر رکھا ہے۔ یعنی یہ شعور زمانِ غیر متواتِر کی اضافی صفَت ہے۔
روح کی ذاتی صفَت زمانِ حقیقی ہے۔ اس میں ازل سے ابد تک کی تمام تصویری فلمیں محفوظ ہیں۔ قرآنِ پاک کی زبان میں اس کو لوحِ محفوظ کہا گیا ہے۔ یہ زمان تجلّیِٔ ذات میں نقش ہے۔ اس کی اپنی حیثیت تجلّیِٔ صفات کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں نے آدم کے پُتلے میں اپنی روح پھونکی۔ یہی روح زمانِ حقیقی کا شعور ہے۔ اس ہی شعور کے بالمقابل تجلّیِٔ ذات(علمُ القلم) اور تجلّیِٔ صفات (لوحِ محفوظ) واقع ہے۔ یہ دونوں عالم نور کے مراتب ہیں۔ تجلّیِٔ صفات کے مرتبے میں زمانِ غیر متواتِر اور زمانِ متواتِر دونوں کے اِندراجات محفوظ ہیں۔ تجلّیِٔ صفات ہی وہ شعور ہے جس سے غیر متواتِر شعور اور متواتِر شعور دونوں کو حیات حاصل ہوتی ہے۔ قرآنِ پاک کی زبان میں تجلّیِٔ صفات کو عالمِ امَر اور باقی دو زمانوں کو عالمِ خلق کہا گیا ہے۔
عالمِ خلق کے دو مراتب ہیں۔ ایک عالمِ تَمثال جو زمانِ غیر متواتِر ہے دوسرا عالمِ فطرت۔ یہ زمانِ متواتِر ہے۔ اس ہی کو عالم عنصری یا عالم تاریخ اور مظاہر کی دنیا کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
ترجمہ: ہم تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہیں۔
اس آیت میں تین مراتب بیان کئے گئے ہیں۔ پہلا مرتبہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا۔ یہ زمانِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کے علمِ حُضوری کا شعور ہے۔ دوسرا مرتبہ رگِ جان کا جو انسانی ’’انا‘‘ یعنی علمُ الاسماء کا شعور ہے۔ تیسرا مرتبہ اس کا جس کی رگِ جاں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ انسان بحیثیت شئے ہے جس کا دوسرا نام زمانِ متواتِر ہے۔ زمانِ متواتِر افراد کا شعور ہے۔ اس شعور میں کائنات کا ہر فرد یعنی ذرّہ ذرّہ خود کو اپنی انفرادیت کی حدود میں جانتا ہے۔ زمانِ غیر متواتِر کائناتی شعور ہے۔ یہ افراد میں غیر شعوری طور پر کام کرتا ہے۔
زمانِ حقیقی اللہ تعالیٰ کا علم (علمِ حُضوری) ہے۔ یہ وہ شعور ہے جو کائنات کے ہر ذرّہ میں کارفرما ہے۔ جب یہ شعور کائنات میں کام کرتا ہے تو کائنات اس کو اپنا ذاتی شعور جانتی ہے اور جب یہ شعور ذرّہ میں کام کرتا ہے تو ذرّہ اس کو اپنا انفرادی شعور سمجھتا ہے۔ جب تک یہ شعور کائنات سے ماورا ہے۔ زمانِ حقیقی ہے۔ جب کائنات میں سما جاتا ہے تو زمانِ غیر متواتِر کہلاتا ہے اور جب ذرّہ کے اندر حرکت کرتا ہے تو زمانِ متواتِر بن جاتا ہے۔ اللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْض میں اس ہی شعور کو نور کہا گیا ہے۔
انسان کی ذات میں ان ہی تین شعوروں کے مدارج کام کرتے ہیں۔
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ المُحْسِنِينَ (سورۃ ۲۹۔ آیت ۶۹)
ترجمہ: اور جن لوگوں نے محنت کی بیچ راہ ہماری کے البتہ دکھا دیں گے ہم ان کو راہ اپنی اور تحقیق اللہ ساتھ احسان کرنے والوں کے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں زمانِ حقیقی اور زمانِ غیر متواتِر دونوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تلاش کرتے ہیں ان پر یہ دونوں زمانے مُنکشِف ہو جاتے ہیں۔ ان کی ذات میں وہ بیداری پیدا ہو جاتی ہے جو زمانِ متواتِر میں ان دونوں زمانوں کو سمجھتی اور محسوس کرتی ہے۔ اکثر اوقات ان پر وہ چیزیں مُنکشِف ہو جاتی ہیں جو زمانِ حقیقی سے غیر متواتِر اور غیر متواتِر سے متواتِر میں کبھی منتقل ہوئی تھیں یا آئندہ کبھی منتقل ہونگی۔ ان کی بصارت، ان کی فہم اور ان کے محسوسات کبھی کبھی ماضی، حال اور مستقبل کے خدّوخال کو یک جا دیکھ لیتے ہیں۔ پھر ان کی فہم ماضی، حال اور مستقبل کی سرگرمیوں کو ایک دوسرے سے الگ جان لیتی ہے۔ زمانِ متواتِر کا رشتہ اپنے ہر سرے پر زمانِ غیر متواتِر سے مُلحِق ہے۔ اور زمانِ غیر متواتِر کا رشتہ اپنے ہر سرے پر زمانِ حقیقی سے منسلک ہے۔
کوئی بھی شئے جو فی الوقت موجود ہے۔ زمانِ متواتِر کا ایک یونٹ (Unit) ہے۔ یہ وُجود میں آنے سے پہلے حیات کے دائرے سے باہر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جو شئے حیات کے دائرے سے باہر ہے وہ حیات کے دائرے میں داخل ہونے کی صلاحیّت نہیں رکھتی۔ ایک درخت جو پوری طرح نشوونما پا کر ہمارے سامنے آ چکا ہے ، اپنے اسلاف کے باطن میں موجود تھا۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ درخت کے اسلاف کا باطن ہی ظاہر کی شکل وصورت اِختیار کر کے درخت بنا ہے۔ درخت کے اسلاف کا باطن زمانِ غیر متواتِر ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ساخت کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
الَّذِي خَلَقَ فَسَوَّىٰ وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَىٰ
اللہ تعالیٰ نے خلق کیا، حِسِّ مشترک عطا کی، تقدیر بنائی اور ہدایت بخشی۔
تشریح:
کسی شئے کا وُجود فی الحقیقت ان تقاضوں کا مجموعہ ہے جو اس شئے کی طبیعت میں مرکوز ہیں یعنی شئے ایک خول ہے جس کے اندر تقاضے بھرے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں پیمانے سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ یہ تخلیق کا پہلا مرحلہ ہے۔
دوسرا مرحلہ حِسِّ مشترک ہے۔ یہ پیمانے کا طریق استعمال ہے یعنی تقاضوں کو کس طرح استعمال کیا جائے۔
تیسرا مرحلہ استعمال کے نتائج کا قانون ہے۔ مثلاً آگ جلاتی ہے۔ اگر کوئی چیز آگ میں پھینک دی جائے تو وہ جل جائے گی۔ مثلاً پانی بھگو دیتا ہے۔ اگر کوئی شئے پانی میں ڈال دی جائے تو وہ بھیگ جائے گی۔ یہ ہُوا استعمال کے نتائج کا قانون۔
چوتھا مرحلہ حصول ہے۔ اگر کوئی شئے مفید مقصد کے پیش نظر جلائی جائے تو یہ عمل اچھا کہلائے گا اور اس کے برخلاف بے کار یا برا عمل سمجھا جائے گا۔ یہ دونوں عمل حاصل رکھتے ہیں۔ حاصل کو مفید کہیں گے یا مضر، اس ہی مرحلہ کا نام ہدایت ہے۔
انسان جب اپنے تقاضے صحیح طور پر استعمال کرتا ہے اور نَوعِ انسانی کے لئے مفید نتائج نکلتے ہیں تو اس کی طبیعت میں نَوعِ انسانی کے اخلاص کا چشمہ اُبل پڑتا ہے۔ یہی چشمہ اس کی فکر کو نشوونما دے کر ایسے مقام تک لے جاتا ہے جہاں اس کی فکر نَوعِ انسانی کے مجموعی تقاضوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے لگتی ہے۔ پھر فکرِ انسانی اس مرحلے سے بھی گزر جاتی ہے اور ایسی وسعتوں میں جا پہنچتی ہے جہاں اس پر کائنات کے مجموعی تقاضے مُنکشِف ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد بھی ایک اور قدم ہے۔ اس قدم پر فکرِ انسانی ماوراءِ کائنات سے رُوشناس ہو جاتی ہے۔ یہی رُوشناسی حقیقت ِآگہی اور الٰہی معرفت ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان زمانِ غیر متواتِر اور زمانِ حقیقی دونوں کو جان لیتا ہے۔ کائنات کے مجموعی تقاضوں کا مُنکشِف ہو جانا انسان میں زمانِ غیر متواتِر کے شعور کو بیدار کرتا ہے۔ اس حالت کو تصوّف کی اِصطلاح میں جمع کہتے ہیں اور فکرِ انسانی کا ماوراءِ کائنات میں مرکوز ہوجانا جمع الجمع کہلاتا ہے۔ یہ مرکزیّت زمانِ حقیقی کے شعور کو بیدار کر دیتی ہے۔
متشابہ۔ اس مسئلہ پر سوچنے والوں کو کائنات اور فرد کائنات کے الگ الگ ہونے کا شبہ ہو سکتا ہے۔ یہ صرف متشابہ ہے۔ فی الواقع کائنات اپنے کسی ایک فرد کے إثبات اور نفی کا مجموعہ ہے۔جب ہمارے سامنے گلاب ہے تو اس لمحہ(لمحہ سے مراد لمحہ کی کمترین کسر ہے یعنی لمحہ کا کروڑواں حصّہ یا اس سے بھی کم جس کو ہم اپنے تصوّر میں کمترین وقفہ کا نام دے سکتے ہیں۔ گویا وہ وقفہ جس سے کم وقفہ ہمارے تصوّر میں نہ آ سکے) گلاب کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں یعنی ہمارے ذہن میں گلاب کا ہونا ہے اور گلاب کا نہ ہونا ہے۔ اس وقت ہمارے سامنے جو کچھ ہے وہ محض گلاب کی ہستی کا إثبات ہے۔ ہماری فکر کا مرکز گلاب کے علاوہ کوئی دوسری شئے نہیں ہوتی۔ ہم اس خاص لمحہ کے اندر کائنات کو ایک ہی یونٹ (Unit)شمار کرتے ہیں۔ جس یونٹ کا نام گلاب ہے، جب تک ہم اس یونٹ کو ترک نہ کردیں اور اس یونٹ کی طرف سے ذہن کو نہ ہٹالیں دوسرے یونٹ سے ربط قائم نہیں کر سکتے۔ زمانِ متواتِر میں ہم جس لمحہ کے اندر اپنی فکر کا تجزیہ کریں گے، کائنات کے صرف ایک ہی فرد سے متعارف ہو سکیں گے۔ چنانچہ اس ہی فرد کو کل کائنات کا نام دیں گے۔ جب تک اس ایک خاص فرد کے علاوہ کائنات کے تمام افراد ساقِط نہ ہو جائیں تو ہم اس فرد کا احساس یا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ یہاں سے اِدراک بالحواس کے قانون کی تحقیق ہو جاتی ہے۔ ہم بیک آن صرف ایک چیز کا اِدراک کر سکتے ہیں جب کہ باقی تمام اشیاء کی نفی کر دیں۔ اگر اس حقیقت کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ ہمارے ذہن کی صرف ایک ہی سمت ہے اور اس ہی سمت میں ہمارے طبَعی تقاضے پرواز کرتے رہتے ہیں۔ ہم دائیں بائیں، آگے پیچھے اور اوپر نیچے ہرگز نہیں دیکھتے۔ یہ چھ سمتیں قیاس کی پیداوار ہیں۔ فی الحقیقت سمت صرف وہی ہے جس طرف ہمارے ذہنی تقاضے سفر کر رہے ہیں۔ اس ہی سمت کا نام زمانِ متواتِر(Serial-Time) ہے۔ ہم روزمرّہ کے مشاہدات میں اِدراک بالحواس کے نام سے اس ہی زمان کا تجربہ کرتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ زمان گزرتا رہتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ فی الواقع یہ زمان ریکارڈ ہوتا ہے۔ گویا ہم زمان کے اندر ان ہی حوادث(اشیاء) کو پاتے ہیں جن کا عنوان پوری معنویّت کے ساتھ ہمارے ذہن میں موجود ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس ہی زمان کو کتابُ المرقوم فرمایا ہے۔ یہی علمُ الاسماء ہے۔ ہمیں کسی معنویّت کو نام دینے کا پورا اِختیار حاصل ہے۔ معنویّت کا نام دینے سے پہلے ہم اس کا اِدراک مَرئی یا غیر مَرئی روپ میں کرتے ہیں۔ چاہے یہ روپ خیال کی ہستی میں رُونما ہو یا شُہود کی صورت میں۔ ہر صورت میں یہ روپ نقش ہوتا ہے اور یہ نقش تصویر ہے اِدراک بالحواس کی۔ چنانچہ جن قدروں کا مالک مشاہدہ ہے۔ ان ہی قدروں کا مالک خیال بھی ہے۔ یہی خیال ذہن کی اندرونی سطح سے مسافرت کر کے ذہن کی بیرونی سطح پر مظاہر کی صورت میں جلوہ گرد ہو جاتا ہے۔
حرکتِ دَوری
اوپر کے مضمون کے سمجھنے کے لئے حرکتِ دَوری کی شرح ضروری ہے۔ کائنات ایک ایسا نقطہ ہے جسے ہمیں اپنے ذہن میں فرض کرنا پڑتا ہے۔ یہی کائنات کی موجودگی کا راز ہے۔ کوئی نقطہ ریاضی دانوں کی اِصطلاح میں نہ لمبائی رکھتا ہے، نہ چوڑائی رکھتا ہے اور نہ گہرائی رکھتا ہے۔ وہ صرف شعور کی تخلیق ہے۔ یہی نقطہ شعور سے مسافرت کر کے اِدراک بالحواس بنتا ہے۔ اس کے اِدراک بالحواس بننے کا طریقہ بہت سادہ ہے۔ پہلے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ شعور فی نفسہٖ کیا چیز ہے؟ وہ خود کو قائم رکھتا ہے اور اپنی یاد دہانی میں مصروف رہتا ہے۔ یعنی شعور مسلسل دعویٰ کرتا رہتا ہے میں یہ ہوں، میں وہ ہوں، میں چاندکو دیکھ رہا ہوں، میں سورج کو دیکھ رہا ہوں، میں ستاروں کو دیکھ رہا ہوں، میرے ہاتھ میں کتاب ہے، میرے ہاتھ میں قلم ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام دعوے شعور کی بنائی ہوئی تصویریں ہیں۔ وہ ان تصویروں کو جس طریقے سے استعمال کرتا ہے اس طریقے کے بہت سے نام ہیں۔ مثلاً اس طریقہ کا ایک نام نگاہ ہے۔ یہ بیک وقت دو مرکزوں میں دیکھتی ہے۔ اس مرکز کی ایک سطح غیب ہوتی ہے، دوسری شُہود۔ غیب کی سطح نگاہ کی انفرادیت ہے۔ شُہود کی سطح نگاہ کی اجتماعیت۔ درحقیقت ان دونوں سطحوں میں ایک ہی نگاہ کام کر رہی ہے۔ اگر ہماری آنکھوں کے سامنے بادام کا ایک درخت ہو تو ہمارا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ یہ بادام کا درخت ہے۔ پھر ہم ایک اور شخص سے اس درخت کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ بھی یہی کہتا ہے کہ یہ بادام کا درخت ہے۔ ہم لاکھوں آدمیوں سے اس درخت کے بارے میں استفسار کریں گے تو جواب ایک ہی ملے گا کہ یہ بادام کا درخت ہے۔ اس تجربہ سے یہ حقیقت مُنکشِف ہو جاتی ہے کہ ان لاکھوں آدمیوں میں دیکھنے والی نگاہ ایک اور صرف ایک ہے۔ اگر دیکھنے والی نگاہیں دو ہوتیں تو ان دونوں نگاہوں میں ہر نگاہ مختلف دیکھتی کیونکہ دو ہونا مختلف ہونا ہے۔ یہ نگاہ کچھ اور دیکھتی اور وہ نگاہ کچھ اور دیکھتی۔ لیکن تجربہ دیکھنے والی نگاہ کے الگ الگ ہونے کی شہادت نہیں دیتا۔ اس لئے یہ کہنا پڑے گا کہ یہ نگاہ شعور کی ایک طرز ہے یا ایک سطح ہے اور یہ سطح اجتماعی ہے جس میں پوری کائنات مشترک ہے۔ اس مشترک سطح کو ہم اِدراک بالحواس کہتے ہیں۔ یہی مشترک سطح کائنات ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مشترک سطح فرد ہی کا جُزو ہے۔ فرد سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔
نگاہ کی انفرادی سطح
نگاہ کی دوسری سطح انفرادی ہے۔ اس سطح سے ذات(نفس) جو کچھ دیکھتی ہے وہ کائنات کے دوسرے افراد سے مَخفی ہوتا ہے۔ پہلی نگاہ وَحدت ہے اور دوسری کثرت۔ یہ کثرت دراصل وَحدت ہی کی ایک نگاہ ہے۔ یا وَحدتِ نگاہ کے لاشمار زاویے ہیں جن کو انفرادی نگاہ کہتے ہیں۔ ہم اس مفہوم کی وضاحت اس طرح کر سکتے ہیں کہ وَحدتِ نگاہ اپنی ہر شان کو الگ الگ دیکھتی ہے۔ الگ الگ دیکھنے سے افراد یا کثرت کی تخلیق ہوتی ہے۔ حدیث قدسی کُنْتُ کَنْزاً مَخفیاً میں اس ہی طرف اشارہ ہے۔
لیل و نہار
اوپر تذکرہ ہو چکا ہے کہ شعور (ذات واجبُ الوجود) اپنی تکرار کرتا رہتا ہے اور جیسے ہی تکرار واقع ہوتی ہے ایک نقطہ کے دو ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک نقطہ کے دو ہو جاتے ہیں۔ ازل سے اس ہی طرح ہو رہا ہے۔ اگر ہم ریاضی دانوں کی طرز میں سمجھیں تو یہ لاشمار نقطے ایک دائرہ کی شکل اِختیار کر لیتے ہیں۔ ان نقطوں میں ہر نقطہ اپنی جگہ ایک دائرہ ہے۔ یہ تمام دائرے مل کر ایک بڑا دائرہ بناتے ہیں۔ اس ہی بڑے دائرے کا نام کائنات ہے۔ اِسی کو حرکتِ دَوری کہا جاتا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ حرکتِ دَوری صرف شعور کی تکرار ہے۔ قرآنِ پاک میں اس تکرار کا تذکرہ موجود ہے۔
وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (13)
(سورۂ انعام)
ترجمہ: اللہ ہی کا ہے جو رات اور دن میں سکونت پذیر ہے۔ وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
رات اور دن میں جو کچھ رہتا اور بستا ہے وہ اللہ ہی کی ملکیت ہے۔ انسان کے اِدراک و حواس میں جو کچھ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک حصّہ وہ ہے جس کا تعلّق رات کے حواس سے ہے۔ یہ دو دائرے ہیں یا ان کو حرکتِ دَوری کی دو سطح کہیں گے۔ یہ دونوں سطح مختلف حواس کا سرچشمہ ہیں۔ اس ہی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لیل و نہار کے الگ الگ الفاظ استعمال کئے۔ یہ امر یہاں قابل ذکر ہے کہ رات کے حواس کو تاریکی، غُنودگی یا نیند کہہ کر غیر حقیقی تصوّر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے الفاظ سے اس تصوّر کی تردید ہو جاتی ہے۔ اور یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک رات اور دن کے حواس یکساں ٹھوس اور حقیقی ہیں۔ اگر ہم ذرا سا تجزیہ کریں تو یہ بات ہمارے سامنے آ جائے گی کہ دن کے حواس کو اجتماعی شہادت حاصل ہے اور رات کے حواس کو انفرادی۔ لیکن یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ اجتماعی شہادت میں بہت سی غلطیاں ہوتی ہیں بالکل اِسی طرح جس طرح انفرادی شہادت میں۔
یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے کہ نگاہ کی دو سطح میں اجتماعی سطح کو معروضی اور انفرادی سطح کو موضوعی کا نام دیا جاتا ہے۔ ان ہی دو سطح سے زمان(Time) کی داغ بیل پڑتی ہے۔ جب ایک فرد دوسرے فرد سے متعارف ہوتا ہے تو یہی تعارف کا مرحلہ زمان بنتا ہے۔ یہ تعارف ذات کا ایک عمل ہے جب ذات اپنی کسی شان کو دیکھتی ہے تو ایک ٹھہراؤ واقع ہوتا ہے۔ فی الحقیقت یہ ٹھہراؤ دیکھنے کی ایک طرز ہے جس کو عقل انسانی زمان کہتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز یا آن گزرتی ہو بلکہ یہ صرف ذات کی طرزِ فکر ہے، طرزِ شعور ہے، طرزِ نگاہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد یہ ہے کہ میں سمیع ہوں، میں بصیر ہوں، یعنی سماعت اور بصارت میری واحد ملکیت ہے اور دوسرا ارشاد یہ ہے کہ میں نے انسان کو سماعت دی، بصارت دی۔ ان دونوں ارشادات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی سماعت سے سنتا ہے اور
اللہ تعالیٰ کی بصارت سے دیکھتا ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ کا سننا اور دیکھنا حقیقی ہے چاہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں واقع ہو یا افراد کی ذات میں۔ دیکھنے اور سننے میں متشابہ صرف انسانوں کو لگ سکتا ہے۔ اس لئے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے انسان اس کو خود سے منسوب کرتا ہے اور یہاں سے وہ کسی چیز کے سمجھنے میں غلطی کرتا ہے۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ کسی شخص کی نگاہ بادام کو انجیر دیکھے۔ وہ انجیر کو انجیر دیکھنے پر مجبور ہے۔ البتہ معانی پہنانے میں اپنی غلط رائے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ کہہ سکتا ہے کہ انجیر ایک فضول درخت ہے، ایک مضر درخت ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ (سورۃ اعراف، آیت ۱۸۹)
وہی ہے جس نے تم کو بنایا ایک نفس سے۔
تمام نَوعِ انسانی ایک مَخفی اسکیم کے تحت بنائی گئی ہے۔ وہ مَخفی اسکیم جو مظاہر کے پیچھے کام کر رہی ہے۔ اس ہی کو اللہ تعالیٰ نے نفسِ واحدہ فرمایا ہے۔ مَخفی اسکیم نظر آنے والی تاریکی اور روشنی کی گہرائی میں ایسے نُقوش کی تخلیق کرتی ہے جن کو ہمارے حواس مظاہر کی صورت میں دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ یہ تو ناممکن ہے کہ ہم ان نُقوش کے اِدراک سے انکار کر دیں۔ یا ان کی موجودگی کو تسلیم نہ کریں۔ ہم بزُعمِ خود صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ حق کو باطل کہہ دیں اور باطل کو حق سمجھ لیں۔ چنانچہ اِسی خام خیالی اور غلط طرزِ فکر کے زیر اثر انسان گمراہی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی آواز
قرآنِ پاک میں ایک جگہ تذکرہ ہے۔ ’’ہم نے مریم پر وحی کی۔‘‘ ظاہر ہے کہ حضرت مریم رسول یا نبی نہیں تھیں۔ اس مقام سے عوام کو اَلقاء یا وحی کرنے کا پتہ چلتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی سماعت اور بصارت کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ عام حالات میں ہر انسان کو یہ کیفیت حاصل ہے۔ انسان اس کیفیت کو اپنی زبان میں ضمیر کے نام سے پہچانتا ہے۔ وہ ضمیر کی آواز سنتا ہے اور اس آواز کی رہنمائی میں نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ فی الواقع یہ اللہ تعالیٰ کی آواز ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا بخشا ہوا نتیجہ ہوتا ہے۔ نتیجہ انسان کی ذات تک پہنچتا ہے۔ یہیں سے نفس کی تنقید شروع ہوتی ہے۔ یہ تنقید انسان کی نیت کو صحیح رکھتی یا غلط کر دیتی ہے۔ قرآنِ پاک میں نفس کی اس ہی تنقید کو رؤیت اور نظر کا نام دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ (سورۂ اعراف، آیت ۱۹۸)
اور تو دیکھ رہا ہے کہ تیری طرف دیکھ رہے ہیں اگرچہ وہ نہیں دیکھ رہے۔
اس آیت میں چار ایجنسیوں کا تذکرہ ہے۔ نفس کی دو ایجنسیوں کا نام رؤیت اور نظر لیا گیا ہے۔ نیز لَایُبْصِرُوْنَ میں الٰہی سماعت اور بصارت کی دونوں ہی ایجنسیاں مدغم ہیں۔ جب تک انسان اندرونی آواز پر توجہ نہیں دیتا، رہ نمائی حاصل نہیں کر سکتا۔
زمان و مکان کی حقیقت
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کائنات کس طرح بنی ہے اور مکان و زمان کا کائنات کی تکوین سے کیا تعلّق ہے۔
کائنات کی دو سطح ہیں۔ اگر ہم ایک سطح کو کُل ذات (Internal Self) کہیں تو دوسری سطح کو ایک ذات (Personal Ego) کہیں گے۔ کُل ذات چھوٹے سے چھوٹے ذرّات اور بڑے سے بڑے اجرام کا بسط(Base Line) ہے۔ یعنی چھوٹے سے چھوٹا ذرّہ اور بڑے سے بڑا کرّہ جن روشنیوں کا مجموعہ ہے وہ ساری روشنیاں کُل ذات کے اَجزاء ہیں۔ اگر ہم ان روشنیوں کو دیکھ سکیں تو یہ تصوّرات کی صورت میں نظر آئیں گے۔ یہی تصوّرات کُل ذات سے یک ذات میں منتقل ہوتے ہیں۔ ان کا منتقل ہونا کُل ذات پر منحصر ہے۔ کُل ذات جن تصوّرات کو یک ذات کے سپرد کر دے۔ یک ذات انہیں قبول کرنے پر مجبور ہے۔ مثلاً گلاب کو کُل ذات سے وہی تصوّرات منتقل ہوتے ہیں جو گلاب کی شکل وصورت میں ظُہور پاتے ہیں۔ اِسی طرح انسان کو بھی کُل ذات سے وہی تصوّرات ملتے ہیں جو انسانی شکل وصورت کا مظہر ہوں۔
انسان کی ساخت کیا ہے؟
وہ ایسے تصوّرات کا مجموعہ ہے جو کُل ذات میں ایک ذات کا شعور حاصل کرتے ہیں۔ انسان کا لاشعور(کُل ذات) خود اپنے جسم کی تخلیق کرتا ہے۔ عام زبان میں جس کو مادہ (Substance) کہا جاتا ہے وہ لاشعور کی مشین کا بنا ہوا ہے۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ خارج سے جو غذا انسان کو ملتی ہے اس سے خون اور جسم بنتا ہے۔ یہ قیاس سرے سے غلط ہے۔ دراصل انسان کا لاشعور (کُل ذات) تصوّرات کو روشنی سے مادہ کی شکل میں بدل ڈالتا ہے۔ یہی مادہ جسمانی خدّوخال اور ثقل کی صورت میں متعارف ہوتا ہے۔ جب لاشعور کسی وجہ سے تصوّرات کو مادہ میں منتقل کرنے کا اہتمام نہیں کرتا تو موت واقع ہو جاتی ہے۔
انسان کو اپنی زندگی میں ایک سے زیادہ مرتبہ سخت ترین بیماریوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ اس زمانہ میں غذا یا تو کم سے کم رہ جاتی ہے یا بالکل مفقود ہو جاتی ہے لیکن موت واقع نہیں ہوتی۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ جسمانی مشین زندگی کو چلانے کی ذمّہ دار نہیں ہے۔ ان مشاہدات سے یہ بات تحقیق ہو جاتی ہے کہ خارج سے انسانی جسم کو جو کچھ ملتا ہے وہ زندگی کا موجب نہیں ہے۔ زندگی کا موجب صرف لاشعور کی کارسازی ہے۔
کُل ذات کو سمجھنے کی طرزیں بہت ہیں۔ کُل ذات کی صفات لاشمار ہیں۔ انسان پیدا ہوتا ہے، وہ چند ماہ کا ہوتا ہے۔ پھر ساٹھ، ستر، اِسی اور نوے سال کا ہو جاتا ہے۔ اس کے جسم میں، اس کے خیالات میں، اس کے علم و عمل میں ہر لمحہ تغیّر ہوتا ہے۔ اس کے جسم اور علم و خیال کا ہر ذرّہ بدل جاتا ہے لیکن وہ شخص نہیں بدلتا۔ وہ جو کچھ چند ماہ کی عمر میں تھا وہی نوے سال کی عمر میں ہوتا ہے۔ اگر اس کا نام زید ہے تو اس کو زید ہی کہیں گے۔ وہ ہمیشہ زید ہی کے نام سے یاد کیا جائے گا۔
جملہ معترضہ
یہ زید کیا ہے؟
یہ زید کُل ذات ہے۔ جس قدر ردّ و بدل واقع ہوتا ہے وہ ایک ذات (Personal Ego) ہے۔ کُل ذات کائنات کو محیط ہے۔
علمِ کائنات یک ذات کو حاصل نہیں ہے۔ کُل ذات سے لاتعلّقی اس کا سبب ہے۔ اگر ایک شخص کی تمام دل چسپیاں اس کے خاندان تک محدود رہیں تو اس کی فہم صرف خاندان کی حدود میں سوچ سکتی ہے۔ اس کے مشاہدات اور تجربات بھی اس ہی مناسبت سے محدود ہوں گے۔ یوں کہیئے کہ اس نے اپنی فہم کو محدود کر لیا، یہاں تک کہ وہ خاندان سے باہر دیکھنے سے قاصر ہے۔ انسان کی آنکھ اور کان اس کی اپنی فہم کی حدود میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ فہم کی حدود سے باہر نہ دیکھ سکتے ہیں، نہ سن سکتے ہیں۔ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے اطراف میں دیکھ رہے ہیں اور سن بھی رہے ہیں لیکن اس کی فہم کو خاندان سے باہر کسی چیز میں ذرّہ بھر دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس کے شعور کا حال بالکل چند سال کے بچے کا سا ہوتا ہے، ایسے بچے کا سا جس کو آپ ریڈیو پر ساری دنیا کی خبریں سنوا دیں مگر وہ نہ کچھ سمجھے گا، نہ محسوس کرے گا۔ اگر کوئی شخص پچاس سال کی عمر میں صرف اپنے خاندان کی حدود میں سوچتا ہے تو روحانیت کے نقطۂِ نظر سے اس کی عمر چند سال سے زیادہ تصوّر نہیں کی جا سکتی۔ کسی ایسے انسان کا شعور جو محض اپنے انفرادی مفاد کو مدنظر رکھتا ہے۔ سو سال کی عمر میں بھی بلوغ کو نہیں پہنچتا۔ اس ہی بنیاد پر کُل ذات سے بے خبر رہتا ہے۔ کائنات کی اسٹیج پر اس کی حالت وہی ہوتی ہے جو تین سال کے بچے کی کسی بین الاقوامی جلسے میں ہو سکتی ہے۔ اس ہی وجہ سے مذہب لازمۂ حیات انسانی ہے۔ جس قوم کا ایمان، کائنات کا اخلاص نہیں ہے وہ قوم کائناتی قدروں کا مشاہدہ نہیں کر سکتی۔ نہ اس کی فہم کائناتی علوم تک پہنچ سکتی ہے۔ اس نے خود کو کُل ذات سے منقطع کر لیا ہے۔ اس وضع کی قوم ہزاروں سال کی عمر پانے کے باوجود پالنے کا بچہ رہے گی۔
یہ روشنی جس کو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں ایک ذات اور کُل ذات کے درمیان ایک پردہ ہے۔ اس ہی روشنی کے ذریعے کُل ذات کے تصوّرات یک ذات کو وصول ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں گے کُل ذات جو اطّلاعات یک ذات کو دیتی ہے ان اطّلاعات کو یہ روشنی رنگ روپ اور إبعاد(Dimensions) دے کر یک ذات تک پہنچاتی ہے۔ اس کی مثال ٹیلیویژن ہے۔ ٹیلیویژن کی سطح سے وہ ساری چیزیں نظر آتی ہیں اور وہ ساری آوازیں سنائی دیتی ہیں جو اسٹیشن سے ارسال کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ ترسیل منقطع ہو جاتی ہے نہ کچھ سنائی دیتا ہے، نہ نظر آتا ہے۔ بالکل یہی حال کُل ذات سے آنے والی اطّلاعات کا ہے۔ نَوعِ انسانی کے افراد کو روشنی کے ذریعے اطّلاعات ملتی رہتی ہیں۔ جس طرح اطّلاع ملتی ہے انسانی افراد اس ہی طرح دیکھتے اور جانتے ہیں۔ جب کسی فرد سے اطّلاعات کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے تو اس فرد کی موت واقع ہو جاتی ہے لیکن یہ انقطاع ناسُوتی دنیا سے ہوتا ہے۔ یعنی حیات کی ایک سطح سے فرد منقطع ہو جاتا ہے لیکن دوسری سطح سے (جس کو ہم غیب کہتے ہیں) اطّلاعات ملتی رہتی ہیں۔
یہ ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ جس روشنی کے ذریعے ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں خود اس روشنی کی بھی دو سطح ہیں۔ ایک سطح کے حواس میں ثقل اور إبعاد دونوں شامل ہیں لیکن دوسری سطح میں إبعاد ہیں۔ إبعاد کی سطح اس روشنی کی گہرائی میں واقع ہے۔ روشنی ہمیں جو اوپری سطح کی اطّلاعات دیتی ہے حواس انہیں براہِ راست دیکھتے اور سنتے ہیں۔ لیکن جو اطّلاعات ہمیں نچلی سطح سے پہنچتی ہیں ان کی وصولی کے راستے میں کوئی مزاحمت ضرورہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حواس ان اطّلاعات کی پوری طرح گرفت نہیں کرتے۔ دراصل جو اطّلاعات ہمیں اوپری سطح سے وصول ہوتی ہیں وہی اطّلاعات نچلی سطح سے وصول ہونے والی اطّلاعات کے راستے میں مزاحمت بن جاتی ہیں۔ گویا کہ ایک طرح کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ دیوار اتنی سخت ہوتی ہے کہ ہمارے حواس کوشش کرنے کے باوجود اسے پار نہیں کر سکتے۔ اوپری سطح کی اطّلاعات دو قسم پر ہیں۔
۱۔ وہ اطّلاعات جو اغراض پر مبنی ہوں۔ ان کے ساتھ ہمارا رویہ جانب دارانہ ہوتا ہے۔
۲۔ وہ اطّلاعات جو انفرادی مفاد سے وابستہ نہیں ہوتیں۔ ان کے حق میں ہمارا رویہ غیر جانب دارانہ ہوتا ہے۔
اطّلاعات کی ان دونوں طرزوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ حقیقت مُنکشِف ہو جاتی ہے کہ انسان کے پاس اِدراک کے دو زاویے ہیں۔ ایک وہ زاویہ جو انفرادیت تک محدود ہے۔ دوسرا وہ زاویہ جو انفرادیت کی حدود سے باہر ہے۔ جب ہم انفرادیت کے اندر دیکھتے ہیں تو کائنات شریک نہیں ہوتی لیکن جب ہم انفرادیت سے باہر دیکھتے ہیں تو کائنات شریک ہوتی ہے۔ جس زاویے میں کائنات شریک ہے اس کے اندر ہم کائنات کی تمام اشیاء کے ساتھ اپنا اِدراک کرتے ہیں۔ اِدراک کا یہ عمل بار بار ہوتا ہے۔ اس ہی کو ہم تجرباتی دنیا کہتے ہیں۔ ایک طرف کائنات کو اپنی انفرادیت میں دیکھنے کے عادی ہیں، دوسری طرف اپنی انفرادیت کائنات میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ یہ ایک طرف انفرادیت کی ترجمانی کرتے ہیں اور دوسری طرف کائنات کی۔ جب یہ دونوں ترجمانیاں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں تو انفرادیت کی ترجمانی کو صحیح ثابت کرنے کے لئے تاویل کا سہارا لیتے ہیں۔ بعض اوقات تاویل کے حامی اپنے حریفوں سے دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔ یہیں سے نظریات کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ انفرادیت ایک شخص، ایک جماعت یا پوری ایک قوم پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ انفرادیت کے زاویے کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ یہ کسی نہ کسی مرحلے میں کائنات کی اور اشیاء سے منحرف ہو جاتی ہے۔ اس زاویہ میں نگاہ ہمیشہ غلط دیکھتی ہے۔ مثلاً کسی چیز کا سائز(Size) ہوا میں کچھ اور نظر آتا ہے، پانی میں کچھ اور۔ یہ اختلافِ نظر زمان اور مکان کی پابندیوں کے سبب ہیں۔ دیکھنے والا جب تک زمان و مکان سے آزاد نہ ہو کسی شئے کی حقیقت کو نہیں پا سکتا۔
زمان و مکان کی تشریح لازمانی زاویہ سے
زمان و مکان دو چیزیں نہیں ہیں۔ روشنی سے ملنے والی اطّلاعات کی جو سطح ہمارے سامنے ہے ہم اس کو مکان کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور جو سطح نظر سے اوجھل ہے اس کو زمان کا نام دیتے ہیں۔ فی الواقع یہ دونوں سطح مل کر ایک یونٹ ہیں۔ شعور کی اوپری سطح میں یہ صلاحیّت نہیں ہے کہ وہ بیک وقت لاشمار چیزوں کو دیکھ سکے، سن سکے اور سمجھ سکے۔ یہ یکے بعد دیگرے ایک ایک چیز کو دیکھتی، سنتی اور سمجھتی ہے۔ حواس کی اس ترتیب میں جو مرحلے پڑتے ہیں ان کو وقفہ، آن، لمحہ وغیرہ متنوّع الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ہیں زمان کے اَجزاء۔ جب ان اَجزاء کو نگاہ دیکھتی ہے، کان سنتے ہیں، ذہن سمجھتا ہے تو مکانی تخلیق عمل میں آتی ہے۔
اگرچہ کائنات کی بناوٹ بہت زیادہ پیچیدہ نہیں مگر فکرِ انسانی اس بناوٹ کو نامانوس ہونے کی وجہ سے پیچیدہ سمجھتی ہے۔ بات بہت سادہ ہے۔ اس کا کہنا اور سمجھنا بالکل آسان ہے۔ لاتناہیت کا ایک عالم ہے۔ یہ عالم ماوراءِ کائنات کو محیط ہے۔ تمام کہکشانی نظاموں کو اس عالم سے اِدراک تقسیم ہوتا ہے۔ یہ اِدراک لاشمار لمحات سے گزرتا ہے۔ یہی لمحات کہکشانی نظاموں کی شکل وصورت اِختیار کر لیتے ہیں۔ کسی جوہر کے چھوٹے سے اَجزاء اور کسی کرّہ کے بڑے سے بڑے جسم کا ظُہور ایک ہی لمحہ میں ہوتا ہے۔ اس بات کو ایک اور طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ کائنات کے اِدراک میں حرکت ہوتی ہے۔ خود لاتناہیت میں حرکت نہیں ہوتی۔ یہ حرکت ایک یونٹ، ایک ہستی یا ارادۂ الٰہیہ ہے اور دو سطح پر مشتمل ہے۔ ایک زمان، دوسرے مکان۔ یہ دونوں توام ہیں اور ایک دوسرے کا إثبات کرتے ہیں۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے زمان کو امر اور مکان کو خلق فرمایا ہے۔
امر اور خلق کے اَجزاء
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا (سورۂ دہر۔ آیت ۱)
ترجمہ: کبھی ہُوا ہے انسان پر ایک وقفہ زمانے میں جو نہ تھا کچھ چیز قابل ذکر کِیا ہُوا۔
نمبر۱۔ دہر لازمان ہے۔ ہم دہر کو اِدراکِ الٰہیہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ لاتناہیت ہے۔
نمبر۲۔ وقت کائنات کا وقفہ ہے اور کائنات کو محیط ہے۔ یہ ازل تا ابد ہے۔ حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام کی حدیث ہے۔
لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ ۔ اس حدیث میں کائنات ہی کے وقت کا تذکرہ ہے۔
کائنات سے ماوراء جو سطح ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے دہر(امر) فرمایا ہے۔ یہی سطح لازمان ہے۔ کائنات کی حدود میں اِسی سطح کو حضور علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام نے ’’وقت‘‘ کا نام دیا ہے۔ یہی سطح زمان ہے۔ افرادِ کائنات میں اس کو حِین کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ سطح خود مظاہر نہیں ہے بلکہ مظاہر کی اساس ہے۔ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس ہی مفہوم کی طرف اشارہ فرمایا ہے:
۲۔ خَلَقَ الإنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ (سورۂ رحمٰن۔ آیت ۱۴)
ترجمہ: بنایا آدمی کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا۔
۲۔ هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا (سورۂ دہر۔ آیت۱)
ترجمہ: کیا نہیں پہنچا انسان پر ایک وقت جو تھا شئے (تصوّر) بغیر تکرار کیا ہوا(بے ترتیب)۔
۳۔ خَلَقَكَ مِن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ (سورۃ کہف۔ آیت ۳۷)
ترجمہ: بنایا تجھ کو مٹی سے پھر بوند سے۔
۴۔ إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (سورۂ دہر۔ آیت ۲)
ترجمہ: ہم نے بنایا آدمی ایک بوند سے، پلٹتے رہے اس کو پھر کر دیا سنتا دیکھتا۔
اللہ تعالیٰ نے مٹی کو بجتی اور کھنکھناتی فرمایا ہے۔ یعنی خلاء مٹی کے ہر ذرّے کی نیچر ہے۔ اس ہی خلاء کا نام حِین لیا ہے۔ ارشاد ہے ہم نے انسان کو پھر دیکھتا سنتا بنا دیا۔ مراد یہ ہے کہ خلاء میں حواس پیدا کر دیئے۔ یہ حواس وہ بوند ہیں جس کا تذکرہ نطفہ کے لفظ سے کیا ہے۔ خلاء زمان غیر مسلسل ہے اور بوند زمان مسلسل ہے، خلاء نور ہے اور بوند نَسمہ ہے۔ بوند کے معنی کوئی جسمیت نہیں ہے بلکہ وہ ایک نقطۂِ ماسکہ ہے۔ اس ہی نقطہ میں تصوّرات جمع ہوتے ہیں۔ فرمایا ہے پلٹتے رہے اس کو۔ گویا جو تصوّرات مصدر اطّلاعات (دہر) سے خلاء(حِین) کو حاصل ہوئے اُن میں ترتیب قائم کی گئی ہے۔ اس ہی ترتیب نے حواس یا مظاہر کی شکل اِختیار کر لی۔
قرآنِ پاک میں كتابُ المُبين کا تذکرہ ہے۔ كتابُ المُبين ہی وہ غیب ہے جس کو ہم مستقبل کا نام دیتے ہیں۔ یہ ازل تا ابد کی مکمل تصویر ہے اور ظُہور کا مُبداء ہے۔ جب ہم لفظ ابد زبان سے ادا کرتے ہیں تو یہ ایک ہی لفظ ازل تا ابد کے تمام تصوّرات کا مجموعہ ہے۔ لفظ ظُہور ہے اور لفظ کے اندر مَخفی تصوّرات غیب ہیں۔ لفظ ذہن کی ایک حرکت ہے۔ اس حرکت میں تین قسم کی شعاعیں مرکوز ہوتی ہیں۔
۱۔ حسّیات کی شعاعیں
۲۔ معتقدات کی شعاعیں
۳۔ تغیّرات کی شعاعیں
حسّیات کی شعاعیں مُفرد اور معتقدات کی شعاعیں مرکّب ہوتی ہیں۔ مُفرد و مرکّب شعاعیں مل کر تغیّرات کی شعاعیں بن جاتی ہیں۔ تغیّرات ہی کی شعاعوں کا نام ظُہور کائنات ہے۔
تخلیق کا راز
قرآنِ پاک میں تخلیق کا راز بیان ہوا ہے۔ اللہ کا امر یہ ہے کہ
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ (سورۂ یٰسین۔ آیت ۸۲)
ترجمہ: جب وہ کسی چیز کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔
اس آیت پر غور کیا جائے تو لفظ کے اندر جو راز ہیں ان رازوں کا اور ان رازوں کو حرکت میں لانے کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’کُن‘‘ تو ان کا مخاطب کوئی شئے ہوتی ہے جو ابھی تک ظُہور میں نہیں آئی لیکن جب اسے ظُہور میں آنے کا حکم دیا گیا تو یہی حکم اس شئے کے اندر میکانکی حرکت بن گیا۔ غور طلب یہ ہے کہ شئے کے ظہور کی ماہیت اور طرز کیا تھی۔ یہ ماہیت وہ تصوّرات ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارادے میں موجود ہیں۔ لیکن ان کی طرز میں کوئی ترتیب نہ تھی۔ ترتیب نہ ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ کوئی شئے لاتناہیت میں پھیلی ہوئی ہے۔ جب ارادہ نے شئے کے تصوّر کو لاتناہیت سے اخذ کیا تو شئے کی ایک صورت بن گئی۔ اب شئے کی صورت ایک علم بن گئی اور علم لفظ ہے۔ یعنی جس وقت شئے کے مجموعی تصوّرات علم کا سانچہ بن گئے تو لفظ کہلائے۔ پھر شئے کی ہستی لفظ کی گرفت میں آ گئی۔ اور لفظ اسے پردہ (كتابُ المُبين) سے باہر کھینچ لایا۔
لفظ کی تین قسمیں ہیں۔ دو قسمیں ایسی ہیں کہ ان کو برائے نام لفظ کہا جا سکتا ہے۔یہ دو قسم کے لفظ ظُہور کے بعد استعمال ہوتے ہیں مثلاً اچھا یا برا۔ اچھا ایسا لفظ ہے جو تائید کرتا ہے، برا ایسا لفظ ہے جو تردید کرتا ہے۔ دونوں الفاظ میں تصوّرات کا ایسا مجموعہ پوشیدہ ہے جو ظُہور میں آ چکا ہے۔ اب ارادہ میں ایسے تصوّرات موجود نہیں ہیں جن کو ظُہور میں آنا ہو۔ یعنی ارادہ میں تصوّر کی گنجائش نہیں ہے۔ ان دونوں قسم کے الفاظ کا نام خلق یا کائنات ہے۔ یہ دونوں امر کے شعبے سے الگ ہیں۔ قرآنِ پاک میں آیا ہے:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ
ان معنوں میں اللہ تعالیٰ محیطِ کُل ہے۔ اور وُجودِ مُدرِک ہے۔ ہم ظاہر کو دیکھتے ہیں باطن کو نہیں دیکھتے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ تو دیکھتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ کس سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم اِدراک کرتے ہیں لیکن یہ اِدراک نہیں کرتے کہ کس سے اِدراک کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ اِدراک کر لیں کہ کس سے اِدراک کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا اِدراک کر لیں گے۔ اس ہی لئے ہماری فہم صرف خلق میں کام کرتی ہے۔ امر تک اس کی رسائی نہیں ہوتی۔ ہم الفاظ کو کسی چیز کے رد میں استعمال کرتے ہیں یا قبول میں استعمال کرتے ہیں جس لفظ کو رد میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ میں رد کئے ہوئے تصوّرات کام کرتے ہیں۔ جس لفظ کو قبول میں استعمال کیا جاتا ہے اس میں قبول کئے ہوئے تصوّرات کام کرتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے الفاظ خلق ہیں کیونکہ تصوّرات سے لبریز ہونے کے بعد ظُہور میں آ چکے ہیں۔
پانی تصوّرات کا خول ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
تمام امور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
خلق کے بعد صرف رجوع کا مرحلہ رہ جاتا ہے۔ لیکن امر وہ مرحلہ ہے جس میں نزول ہے۔ نزول کے معنی ہیں خلاء میں تصوّرات کا داخل ہونا۔ جو اطّلاعات خلاء(ذرّہ) میں داخل ہوتی ہیں تصوّرات کہلاتی ہیں۔ ان تصوّرات کو اللہ تعالیٰ نے ماء(پانی) کا نام دیا ہے۔ دراصل پانی تصوّرات کا خول ہے، یا وہ ایسے جوہروں کا مجموعہ ہے جس میں ہر جوہر تصوّر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ہے پانی کی ماہیت۔ اوپر کی آیت میں اس ہی نوعیت کی طرف اشارہ ہے۔ پانی کے خواص یہ ہیں کہ وہ پھول میں جا کر پھول بن جاتا ہے۔ کانٹے میں جا کر کانٹا بن جاتا ہے۔ پتھر میں جا کر پتھر بن جاتا ہے۔ سونے میں جا کر سونا بن جاتا ہے اور ہیرے میں جا کر ہیرا بن جاتا ہے۔
ہمارے ذہن میں تصوّرات کا ایک مجموعہ ہے جس کو ہم سونا کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور تصوّرات کا ایک دوسرا مجموعہ ہے جس کو ہیرا کہہ کر پکارتے ہیں۔ سونا اور ہیرا دو لفظ ہیں یا دو خول ہیں، جن میں تصوّرات کے الگ الگ مجموعے مُقیّد ہیں۔ ان میں ہر مجموعہ اِدراک ہے۔ اِدراک کو آواز میں قید کیا جائے تو لفظ بن جاتا ہے۔ اِدراک کے بہت سے نام ہیں مثلاً خلاء، مُبداء (Secret Plan)، امر، وقت(Non-Serial Time) یا نفس وغیرہ۔ یہی کائنات کی اساس ہے۔
انسان کے اندر اِدراک ذہن ہے۔ ذہن کی وسعت کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہے۔ اس ہی کا ایک رخ گہرائی یعنی زمان ہے اور دوسرا رخ پہنائی یعنی مکان ہے۔ جب ذہن زمان میں دیکھتا ہے تو اس کی حرکت ’’امر‘‘ ہوتی ہے اور جب مکان میں دیکھتا ہے تو اس کی حرکت خلق ہوتی ہے۔ خلق وہ لفظ ہے جس کی دونوں قسموں کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔
کائنات کا ظُہور کس طرح ہوتا ہے
انسان کے شعور کو پہلے دن سے رنج و راحت کا احساس رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے رنج و راحت کی وجہ معلوم ہو تا کہ رنج سے محفوظ رہے اور راحت کو برقرار رکھ سکے۔ وہ راحت کو نہیں چھوڑتا۔ اس لئے راحت کے ضائع ہونے کا خوف و ملال بھی اس کے دل سے نہیں نکلتا۔ وہ کسی نہ کسی طرح رنج سے دور رہنے اور راحت سے قریب ہونے کی ضمانت چاہتا ہے۔ وہ اپنی کمزوریوں کے سبب خود کو حوادث پر قابو پانے کے لائق نہیں سمجھتا۔ لہٰذا کسی ایسی طاقت کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے جس سے اس کو راحت کی ضمانت مل سکے۔ یہی مَخفی طاقتوں کی تلاش کا موجب ہے۔ قرآنِ پاک نے یُؤْ مِنُوْنَ بِالْغَیْب میں اس ہی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی لامُتناہی صفات کا تذکرہ ہے۔ یہیں سے راحت کی ضمانت ملتی ہے۔
کوئی انسان خود اعتمادّی کا دعویٰ کر سکتا ہے لیکن رنج و راحت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ البتہ غیب پر ایمان لانے کے بعد اسے بہتری کا یقین ہو جاتا ہے۔ غیب پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ غیب جو کچھ ہے بہترہی بہتر ہے، کیونکہ غیب رحیم و کریم کے ہاتھ میں ہے۔
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا
(سورۂ شوریٰ۔ آیت ۵۱)
ترجمہ: اور کسی آدمی کی حد نہیں کہ اس سے باتیں کرے اللہ مگر اشارہ سے یا پردہ کے پیچھے سے یا بھیجے پیغام لانے والا۔
اوپر کی آیت میں انسانی حواس کی رسائی بیان ہوئی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انسان کو مخاطب کرتے ہیں تو اشارہ کرتے ہیں۔ یہ ہے دل کہ دیکھ لیتا ہے اور جان لیتا ہے۔ دل کے دیکھنے کا تذکرہ بایں الفاظ کیا گیا ہے۔
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ (جھوٹ نہ دیکھا دل نے جو دیکھا)
یہ اللہ تعالیٰ کا وہی طرز تکلم ہے جس کا نام وحی ہے یا اللہ تعالیٰ ایلچی کے ذریعے بات کرتے ہیں۔ یعنی آنکھیں ایلچی کو دیکھتی ہیں۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور کسی طرح اپنے بندے پر رہنمائی کرتے ہیں۔ اس طرز کا نام حجاب ہے۔ مثلاً ایک جمیل اور نورُٗ علیٰ نور صورت میں بندہ پر جلوہ فرماتے ہیں۔ یہ جمیل صورت اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ حجاب ہے۔
اوپر کی آیات سے انسانی حواس کی حدیں دو طرزیں معیّن ہو جاتی ہیں۔ انسانی حواس جب کسی نقطہ پر ٹھہرتے ہیں تو اس ٹھہراؤ کا نام شئے ہے اور یہ شئے ایک شکل وصورت رکھتی ہے۔ دراصل یہ ایک لمحہ ہے جس سے خود حواس کو جسم حاصل ہو جاتا ہے۔ حواس اس جسم کو خارجی اور معروضی دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کیونکہ دیکھنے کی طرز اس کے علاوہ نہیں ہو سکتی کہ حواس خود کو اپنے بالمقابل دیکھیں اور خود ہی کو خود سے ایک الگ شئے قرار دیں۔ زندگی کی تمام حرکات و سکنات اس طرز نگاہ کی مثالیں ہیں۔ اُصولاً جب حواس کسی طرف اشارہ کرتے ہیں تو اشارتاً اندرونی خدّوخال کو بیرونی بنا دیتے ہیں۔ جب حواس خود کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’میں‘‘ تو یہ ’’میں‘‘ صرف خلاء ہوتی ہے، بالکل سادہ اور شفاف۔ گویا حواس اپنے نقش و نگار کی طرف اشارہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ ایک بے رنگ شئے کا تذکرہ کر رہے ہیں جو صرف خاکہ ہے۔ اب حواس ’’میں‘‘ کی رنگینیوں اور نقش و نگار کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں۔ میں نے یہ کہا، میں نے وہ کیا، دیکھو یہ چاند ہے، یہ ستارے ہیں۔ یہ چاند اور ستارے وہ ہیں جن کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں۔ اس طرز میں حواس اپنی ذاتی حرکت کو قریب یا بعید دیکھتے اور اس کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ محض کائناتی حواس کا انداز نظر ہے۔ یہ وہی حواس ہیں جو فرد کے اندر ’’میں‘‘ بن جاتے ہیں۔ اور اشارۂِ قریب و بعید کے ذریعے اپنی تکرار کرتے ہیں۔
هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا
ترجمہ: کیا نہیں پہنچا انسان پر ایک وقت زمانے میں جو تھا شئے بغیر تکرار کیا ہوا۔
کبھی انسان ایسا وقت (حواس) تھا جس میں تکرار نہیں تھی۔ پھر ایسا وقت(حواس) ہوا جس میں تکرار ہے۔ یہاں صرف دو ایجنسیاں زیر بحث ہیں۔ ایک حواس، نمبر دو حواس کی تکرار۔ یہ دونوں ایجنسیاں ایک یونٹ ہیں۔ اس مطلب کی وضاحت تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ۖ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ (سورۂ آل عمران۔ آیت ۲۷) میں کی گئی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا دستور العمل بیان فرمایا ہے۔ اللہ رات کو داخل کرتا ہے دن میں اور دن کو داخل کرتا ہے رات میں، تو زندگی کو موت سے نکالتا ہے اور موت کو زندگی سے نکالتا ہے۔ رات حواس کی ایک نَوع ہے اور دن حواس کی دوسری نوع۔ رات کے حواس کی نَوع میں مکانی اور زمانی فاصلے مُردہ ہو جاتے ہیں لیکن دن کے حواس کی نَوع میں یہی فاصلے زندہ ہو جاتے ہیں۔
زید خواب دیکھتا ہے کہ وہ اپنے ایک دوست سے باتیں کر رہا ہے۔ حالانکہ اس کا دوست دور دراز فاصلے پر رہتا ہے۔ خواب میں زید کو یہ احساس بالکل نہیں ہوتا کہ اس کے اور دوست کے درمیان کوئی فصل ہے۔ ایسے خواب میں مکانی فاصلے صفر ہوتے ہیں۔ اس ہی طرح زید گھڑی دیکھ کر رات کے ایک بجے سوتا ہے۔ خواب میں ایک ملک سے دوسرے ملک تک ہفتوں کا دُور دراز سفر طے کرتا ہے۔ راستے میں منزل پر قیام بھی کرتا ہے۔ ایک طویل مدت گزارنے کے بعد گھر واپس آتا ہے۔ آنکھ کھلتے ہی گھڑی دیکھتا ہے۔ اب بھی ایک ہی بجا ہے۔ اس قسم کے خواب میں زمانی فاصلہ صفر ہوتا ہے۔ یہ رات کے حواس کی نَوع ہے۔ جو فاصلے اس نَوع میں مُردہ ہوتے ہیں وہی فاصلے دن کے حواس میں زندہ ہو جاتے ہیں۔ خواب کی نیچر میں مکانی زمانی تمام فاصلے معدوم ہو جاتے ہیں۔ قرآنِ پاک کا یہی ارشاد ہے رات کی نَوع دن میں داخل ہو جاتی ہے اور دن کی نَوع رات میں۔ رات اور دن میں اِدراک مشترک ہے۔ محض فاصلے مرتے اور جیتے ہیں۔
رات کے حواس كتابُ المُبين (لوحِ محفوظ) ہیں اور دن کے حواس کتابُ المرقوم ہیں۔ ان دونوں میں ایک چیز مشترک ہے۔ ہم اس چیز کا مظاہِر قدرت میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ مثلاً زید اور محمود دونوں بیٹھے ہوئے ہیں۔ چراغ جل رہا ہے۔ چراغ کی روشنی میں زید محمود کو اور محمود زید کو دیکھ رہا ہے۔ دونوں کے لئے روشنی دیکھنے کا ذریعہ ہے۔ اب روشنی کی رفتار بیک وقت دو سمتوں میں ہے۔ (دوسری طرف) زید کی سمت سے روشنی محمود کی آنکھ تک پہنچتی ہے اور محمود کی سمت سے روشنی زید کی آنکھ تک پہنچتی ہے۔ یہ ایک ہی چراغ کی روشنی جو محمود سے زید تک اور زید سے محمود تک سفر کر رہی ہے۔ سفر کی سمتیں مختلف ہیں لیکن روشنی کا مَخرج ایک ہے۔ یا پھر یوں کہیں گے کہ روشنی ایک ہے۔ اس روشنی کے احساس میں کوئی ایسی شئے ہے جو بیک وقت دو سمتوں میں سفر کرتی ہے۔ اور اس کے آثار یکساں ہیں۔ امتیاز کہاں ہے؟۔۔۔ یہی روشنی جو تصوّرات زید میں پیدا کرتی ہے، وہ زید کے تصوّرات کہلاتے ہیں۔ یہی روشنی جو تصوّرات محمود میں پیدا کرتی ہے، وہ محمود کے تصوّرات کہلاتے ہیں۔ یہ فرق مشاہدہ کرنے والے کے زاویۂ نظر کا ہے۔ یہاں سے مظاہر کا یہ قانون مُنکشِف ہو جاتا ہے کہ سمتوں کی تبدیلی روشنی میں نہیں بلکہ مشاہدہ کرنے والے کے زاویۂِ نگاہ میں ہے۔ اس کی وجہ وہ مرکزی نقطہ ہے جس کو مشاہدہ کرنے والے کی ذات کہتے ہیں۔ یہ وہی ذات ہے ذاتِ باری تعالی سے متّصل ہے۔ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبلِ الوَرید میں اس ہی اتصال کا تذکرہ ہے۔ یہاں یہ نکتہ غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر لفظ ’’ہم‘‘ استعمال کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کثرت میں ہر ایک فرد کی ذات کے ساتھ خود کو وابستہ کر رہے ہیں۔ ہر فرد کی منفرد حیثیت اس ہی لئے اپنی جگہ قائم ہے۔
روشنی کا مرکز ایک ہی چراغ ہے۔ زید اور محمود دونوں کو ایک ہی چراغ سے روشنی مل رہی ہے۔ البتہ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ تغیّر روشنی میں واقع نہیں ہوتا۔ روشنی بدستور اپنی حالت پر قائم ہے۔ صرف زید اور محمود کے طرزِ بیان میں تغیّر ہے کیونکہ وہی روشنی زید میں زید کی تصویرِ حیات ہے اور محمود میں محمود کی۔
تصوّف میں اس طرز کو ’’مرتبہ‘‘ کہتے ہیں۔ اگر ہم مرتبہ کا ترجمہ عام زبان میں کرنا چاہیں تو انگریزی کا ایک لفظ ’’میکانزم‘‘ استعمال کر سکتے ہیں۔ میکانزم کی اساس ایک ہے۔ فقط نام الگ الگ ہیں۔ یہی میکانزم یا مرتبہ لاشمار اَنواع پر مشتمل ہے۔ یہی میکانزم آدمیوں میں زید اور محمود ہے اور یہی درختوں میں آم اور بادام ہے۔ ایک ہی روشنی ہے جو ان سب کی شکلیں بناتی ہے۔ یہ میکانزم (مرتبہ) ایسے سیاہ نقطوں سے بنا ہے جو کائنات کی اصل ہے۔ ان سیاہ نقطوں کو تجلّی کہتے ہیں۔ ان کی گردش دوہری ہوتی ہے۔ قرآنِ پاک میں جہاں اللہ تعالیٰ نے تکرار کا مفہوم استعمال کیا ہے وہاں یہی دوہری حرکت مراد ہے۔ دوہری حرکت ہر سمت میں واقع ہوتی ہے۔ اس طرح بیک وقت وہ ہر پہنائی، ہر گہرائی، ہر سمت اور وقت کے کمترین یونٹ میں جاری و ساری ہے۔ یہ دوہری حرکت صُدوری ہوتی ہے یعنی سیاہ نقطہ جو زمان(Time) ہے پہنائی، گہرائی اور سمتوں میں پَے در پَے چھلانگ لگاتا رہتا ہے۔ جہاں تک اس نقطے کی چھلانگ ہے وہاں تک مکان (Space) کی شکل وصورت بنتی رہتی ہے۔ اس سیاہ نقطے میں وہ ساری شکلیں جو مکانی شکل وصورت میں نظر آتی ہیں مَخفی ہیں۔ جب یہ نقطہ چھلانگ لگاتا ہے تو مَخفی مظاہر کا روپ اِختیار کر لیتا ہے۔ اس ہی روپ کا نام کائنات ہے۔ اس نقطہ میں لاشمار پردے ہیں۔
سیاہ نقطہ
سیاہ نقطہ کو سمجھنے کے لئے اس کا نام زمان (Time) رکھنا پڑے گا۔ زمان کے دو مراتب ہیں۔ ایک مرتبہ میں مکان اور وقت کے فاصلے پائے جاتے ہیں۔ دوسرے مرتبہ میں مکان اور وقت کے فاصلے نہیں پائے جاتے۔ ایک مرتبہ میں مشاہدہ کرنے والا ترتیب وار دیکھتا ہے۔ اس کے دیکھنے کا انداز کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ ایک لمحہ کے بعد دوسرے لمحے اور تیسرے لمحے اور اس ہی طرح مزید لمحوں کے یکے بعد دیگرے گزرنے کا اِدراک کرتا ہے۔ یہی اِدراک کی تکرار ہے۔ اِدراک کی تکرار سے شُہود کی گہرائیاں بنتی ہیں۔ ان گہرائیوں کو مکانی فاصلے کہا جاتا ہے۔ یہ مرتبہ سیاہ نقطہ کا صرف ایک انداز نظر ہے۔ مثلاً دن ایک حَيز (Space) ہے۔ رات ایک اسپیس ہے، پھول ایک اسپیس ہے، فضا ایک اسپیس ہے، مٹی ایک سپیس ہے، پانی ایک اسپیس ہے، خلاء ایک اسپیس ہے، خیال ایک اسپیس ہے، آگ ایک اسپیس ہے، ہَوا ایک اسپیس ہے، چاندی ایک اسپیس ہے، سونا ایک اسپیس ہے، ہر شئے کا چھوٹے سے چھوٹا ذرّہ ایک اسپیس ہے، کائنات کا بڑے سے بڑا کرّہ ایک اسپیس ہے۔ اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے جوہر(ایٹم) کے کھرب در کھرب ٹکڑے کئے جائیں تو ہر ٹکڑا ایک اسپیس ہے۔ اگر ایک سیکنڈ کو سنکھ در سنکھ حصّوں میں تقسیم کیا جائے تو ہر حصّہ ایک جُزّ (Space) ہے۔ سیاہ نقطہ میں ازل تا ابد جتنے جُزّ ہو سکتے وہ سب تہہ در تہہ موجود ہیں۔
سیاہ نقطے کا دوسرا اندازِ نظر بیان شدہ اندازِ نظر سے برعکس ہے۔ اس اندازِ نظر میں سیاہ نقطہ کی گہرائیاں اس درجہ لاتناہیت رکھتی ہیں کہ پہلے اندازِ نظر کا اِدراک اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ تاہم یہ اندازِ نظر اپنا الگ اِدراک رکھتا ہے۔ اس اِدراک کو اللہ تعالیٰ نے لیلتہُ القدر فرمایا ہے۔
گزشتہ صفحات میں تسوید، تجرید، تشہید اور تظہیر کا تذکرہ ہوا ہے۔ یہ چاروں اِدراک ہیں۔ اور اِدراک کو سمجھنے کے لئے کائنات کی گہرائی اور پہنائی کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ کائنات کو پہنائی میں دیکھنا اور گہرائی میں محسوس کرنا یا دل کی آنکھ سے کائنات کا مشاہدہ کرنا اِدراک کی طرزیں ہیں۔ ظاہر میں دیکھنا پہنائی میں دیکھنا ہے۔ باطن میں دیکھنا گہرائی میں دیکھنا ہے۔ قرآنِ پاک میں ان دونوں طرزوں کی شرح کی گئی ہے۔ اللہ وہ ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں بنایا ہے۔ اور پھر عرش پر متمکن ہو گیا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم تمہاری رگِ جان سے زیادہ قریب ہیں۔ یہ بھی ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان (بلندیوں و پستیوں) کا نور ہے۔
اِدراک کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ کا عرش پر متمکن ہونا اور رگِ جاں سے قریب ہونا….. دونوں ارشادات میں مشترک مفہوم تلاش کرنا پڑے گا۔ فی الواقع یہ اِدراک ہی کے دو اندازے ہیں۔ پہنائی میں اِدراک کرنا تو انسانی تصوّر کو لاتناہیت کے بُعد میں لے جاتا ہے۔ اس ہی بُعد کو اللہ تعالیٰ نے عرش فرمایا ہے۔ گہرائی میں اِدراک کرنا انسانی شعور کے قرب میں پہنچاتا ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے رگِ جاں سے اقرب فرمایا ہے۔ یہاں یہ بات نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ لاتناہیت کا بُعد اور لاتناہیت کا قرب ہم معنی اور مترادف مفہوم پیدا کرتے ہیں۔ یہ دونوں مقامات دراصل ایک ہیں۔ صرف اِدراک کے اندازے الگ الگ ہیں۔ اِدراک ایک طرف پہنائی میں سفر کر کے عرش تک پہنچاتا ہے، دوسری طرف گہرائی کی مسافتیں طے کر کے رگِ جاں کے اقرب میں جذب ہو جاتا ہے۔ دونوں طرح اللہ تک پہنچنا ہے۔ پہلا اِدراک تسوید اور دوسرا اِدراک تظہیر ہے۔ اب دو اِدراک تجرید اور تشہید باقی رہے۔ تجرید تسوید کا دوسرا رخ ہے۔ ہر بلندی کی ایک پستی ہے اور ہر پستی کی ایک بلندی۔ چنانچہ تسوید کا پست رخ تجرید ہے اور تظہیر کا بلند رخ تشہید ہے۔ یہ دونوں رخ کائنات کی ان حدوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو ماوراءِ کائنات سے جا ملتی ہیں۔ اس مفہوم کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
’’اللہ بلندیوں اور پستیوں کا نور ہے۔ جیسے طاق، اس میں قندیل اور قندیل کے اندر چراغ رکھا ہو۔ یہ مقدس تیل کا چراغ بغیر کسی ظاہری روشنی کے روشن ہے، جس کی روشنی نور اندر نور ہر سمت سے آزاد ہے۔‘‘
جب پہنائی تلاش کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی صفات نور در نور ملیں گی۔ ان ہی چار اِدراک کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔ سیاہ نقطہ کا تذکرہ آ چکا ہے۔ اس ہی نقطہ سے چاروں اِدراک کا سرچشمہ ابلتا ہے۔ اس مقام پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ آخر اِدراک ہے کیا؟ اِدراک زمان ہے۔ یہی اِدراک سیکنڈ کی کم سے کم کسر ہے۔ ہم سمجھنے کے لئے کھربواں حصّہ کہہ سکتے ہیں یا اس سے بھی کوئی چھوٹا حصّہ جو ہمارے خیال میں آ سکتا ہو۔ دوسری طرف طویل سے طویل وقفہ جسے نَوعِ انسانی کی ذہنی پرواز شمار کر سکتی ہو۔ یہ دونوں اِدراک ہیں اور سیاہ نقطہ کی صفات ہیں۔ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے وقفوں کی مشاہداتی مثال ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم کا حادثہ ہے۔
ایک سیکنڈ کی فنا کھربوں سال کی بقاء
وہ پہاڑیاں جو ماہرین ارضیات کے بقول کھربوں سال میں بنی تھیں، ایک سیکنڈ کے اندر اس طرح فنا ہو گئیں کہ اس کے آثار تک ختم ہو گئے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ایک سیکنڈ کی فنا نے کھربوں سال کی بقا کو اپنے اندر جذب کر لیا۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ ایک سیکنڈ نے کھربوں سال کا احاطہ کر لیا۔ کھربوں سال کا روپ وہ پہاڑیاں تھیں اور ایک سیکنڈ کا روپ ان پہاڑیوں کا خاتمہ۔
اِسی طرح سیاہ نقطہ کے ایک سیکنڈ کا کھربواں حصّہ ازل سے ابد تک محیط ہے۔ لیکن ہم جس اِدراک کو استعمال کرنے کے عادی ہیں وہ سیکنڈ کے کھربویں حصّہ کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ جو اِدراک سیکنڈ کے کھربویں حصّہ کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ اس کا تذکرہ سورۂ قدر میں ہے۔
ترجمہ: ہم نے اتارا شب قدر میں اور تو کیا بوجھا ہے شب قدر؟ شب قدر بہتر ہے ہزار مہینے سے۔ اترتے ہیں فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔ امان ہے وہ رات صبح کے نکلنے تک۔
شب قدر وہ رات ہے جس میں سیاہ نقطہ کے اِدراک کا نزول ہوتا ہے۔ یہ اِدراک عام شعور سے ستر ہزار گنا یا اس سے بھی زیادہ ہے کیونکہ ایک رات کو ایک ہزار مہینے سے ستر ہزار گنے کی مناسبت ہے۔ اس اِدراک سے انسان کائناتی روح کا،فرشتوں کا اور ان امور کا جو تخلیق کے راز ہیں مشاہدہ کرتا ہے۔
تصوّف میں اس اِدراک کو فتح کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ فتح میں انسان ازل سے ابد تک معاملات کو بیداری کی حالت میں چل پھر کر دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ کائنات کے بعید ترین فاصلوں میں اجرام سماوی کو بنتا اور عمر طبَعی کو پہنچ کر فنا ہوتے دیکھتا ہے۔ لاشمار کہکشانی نظام اس کی آنکھوں کے سامنے تخلیق پاتے ہیں۔ اور لاحساب دَورِ زمانی گزار کر فنا ہوتے نظر آتے ہیں۔ فتح کا ایک سیکنڈ بعض اوقات ازل تا ابد کے وقفے کا محیط بن جاتا ہے۔
اِدراک کیا ہے؟
زید کہتا ہے کہ میں نے اخبار پڑھا، میں نے خط لکھا، میں نے کھانا کھایا۔ اخبار کس نے پڑھا، خط کس نے لکھا، کھانا کس نے کھایا؟ زید نے۔ یہ سب کچھ زید نے کِیا۔ مگر یہ سب کچھ بیان کرنے والا، سمجھنے والا زید کا ذہن ہے۔ زید نے کیا کِیا اس کا جاننے والا صرف زید کا ذہن ہے۔ جاننے کی نوعیت اطّلاع سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اخبار پڑھنا، خط لکھنا وغیرہ وغیرہ اطّلاعات ہیں۔ جب ہم ان اطّلاعات سے قطع نظر کرتے ہیں تو زید کون ہے، زید نے کیا کِیا ہے سب بے معنی ہے ۔ حقیقت اتنی ہے کہ زید کے ذہن کو اطّلاعات موصول ہوئیں۔ یہاں دو ایجنسیاں قابل ذکر ہیں۔ اطّلاعات اور ذہن۔ اطّلاع دینے والا بھی ذہن ہے۔ اور اطّلاعات وصول کرنیوالا بھی۔
ایک ہی یونٹ ہے جس کے دو رخ ہیں۔ ذہن کہتا ہے فنا ہونے والی پہاڑیوں کی عمر دو کھرب سال ہے۔ یہ ایک اطّلاع ہے۔ اگر ایک سال کو ایک یونٹ قرار دیا جائے تو دو کھرب سال کو دو کھرب یونٹ کہا جائے گا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اِدراک نے ایک احساس کو دو کھرب حصّوں پر تقسیم کر دیا۔ یہ ایک اطّلاع ہے لیکن اس کی طوالت دو کھرب سال کا زمانہ ہے۔ جب یہ اطّلاع ملی تو سننے والے ذہن نے عملاً دو کھرب سال کی طوالت کا احساس کیا۔ گویا اِدراک کے ایک سیکنڈ میں دو کھرب سال کا پیمانہ موجود ہے۔ دو کھرب سال کب گزرے، کس نے گزارے، کس طرح گزرے یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔ یہ محض اطّلاع ہے۔ ایسی اطّلاع جس کے اِدراک کی طوالت ایک سیکنڈ سے زیادہ نہیں۔ ہمارے علم میں صرف ذہن ہی ایک ایجنسی ہے جس کو کائنات کہتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا:
‘‘God Said Light and There Was Light’’
اللہ تعالیٰ نے فرمایا روشنی اور روشنی ہو گئی۔ قرآنِ پاک کے الفاظ میں کُنْ فَیَکُوْن ہو جا اور ہو گیا۔ جب ہماری نظر کسی کتاب کے الفاظ پر پڑتی ہے تو گویا روشنی پڑتی ہے۔ کیونکہ ہم روشنی کے علاوہ کسی چیز کو نہیں دیکھ سکتے۔ جب ہم کتاب پڑھتے ہیں تو روشنی پڑھتے ہیں اور جو کچھ سمجھتے ہیں روشنی سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جب ہم روشنی پڑھیں گے تو روشنی سمجھیں گے۔ اور جو کچھ ہم سمجھ رہے ہیں وہ محض اطّلاع ہے۔ اب کہنا پڑے گا کہ روشنی اور اطّلاع ایک ہی چیز ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اطّلاع کا محلِ وقوع کیا ہے۔ اگر ہم محلِ وقوع کا پتہ چلا سکیں تو زمان و مکان (Time and Space) کو سمجھ لیں گے۔ ماہر فلکیات کہتے ہیں کہ ہمارے نظامِ شمسی سے الگ کوئی نظام ایسا نہیں جس کی روشنی ہم تک چار برس سے کم عرصہ میں پہنچتی ہو۔ وہ ایسے ستارے بھی بتاتے ہیں جن کی روشنی ہم تک ایک کروڑ سال میں پہنچتی ہے۔ تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم اس سیکنڈ میں جس ستارے کو دیکھ رہے ہیں وہ ایک کروڑ سال پہلے کی ہیئیّت ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ موجودہ لمحہ ایک کروڑ سال پہلے کا لمحہ ہے۔ یہ غور طلب ہے کہ ان دونوں لمحوں کے درمیان جو ایک اوربالکل ایک ہیں، ایک کروڑ سال کا وقفہ ہے۔ یہ ایک کروڑ سال کہاں گئے؟ معلوم ہوا کہ یہ ایک کروڑ سال فقط طرز اِدراک ہیں۔ طرز اِدراک نے صرف ایک لمحہ کو ایک کروڑ سال پر تقسیم کر دیا ہے جس طرح طرز اِدراک گزشتہ ایک کروڑ سال کو موجودہ لمحہ کے اندر دیکھتی ہے، اس ہی طرح طرز اِدراک آئندہ ایک کروڑ سال کو موجودہ لمحہ کے اندر دیکھ سکتی ہے۔ اس طرح یہ تحقیق ہو جاتا ہے کہ ازل سے ابد تک تمام وقفہ فقط ایک لمحہ ہے جس کو طرز اِدراک نے ازل سے ابد تک کے مراحل پر تقسیم کر دیا ہے۔ ہم اس ہی تقسیم کو مکان (Space) کہتے ہیں۔ گویا ازل سے ابد تک کا تمام وقفہ مکان ہے اور جتنے حوادث کائنات نے دیکھے ہیں وہ سب ایک لمحہ کی تقسیم کے اندر مُقیّد ہیں۔ یہ اِدراک کا اعجاز ہے جس نے ایک لمحہ کو ازل تا ابد کا روپ عطا کر دیا ہے۔
اِدراک کہاں سے آیا؟
اوپر تذکرہ آ چکا ہے کہ وہ صرف اطّلاع ہے۔ یہ اطّلاع کہاں سے ملی ہے؟
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ سماعت میں نے دی ہے، بصارت میں نے دی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ اطّلاع میں نے دی ہے۔ ہم عام حالات میں جس قدر اطّلاعات وصول کرتے ہیں، ان کی نسبت تمام دی گئی اطّلاعات کے مقابلے میں کیا ہیں؟ شاید صفر سے ملتی جلتی ہو۔ وصول ہونے والی اطّلاعات اتنی محدود ہیں جن کو ناقابل ذکر کہیں گے۔ اگر ہم وسیع تر اطّلاعات حاصل کرنا چاہیں تو اس کا ذریعہ بجُز علومِ روحانی کے کچھ نہیں ہے اور علومِ روحانی کے لئے ہمیں قرآنِ پاک سے رجوع کرنا پڑے گا۔
اپنے تاثرات سے آگاہ کریں